بڑھتی ہوئی آبادی

کسی پروفیسر سے پوچھ لیں، علاقے کے مولوی صاحب سے فتویٰ لے لیں، سیاست دانوں کی تقاریر سُن لیں، اکڑی ہوئی گردن والے بیورو کریٹ کی رائے لے لیں، کسی کالج کے لونڈے سے سوال کر لیں یا پھر راہ چلتی کسی خاتون کو روک کر دریافت کریں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ شاید ہی اِن میں سے کسی کا جواب ہو ’’بڑھتی ہوئی آبادی!‘‘ (عین ممکن ہے کہ راہ چلتی خاتون جسے آپ سر بازار روک کر یہ پوچھیں تو وہ آپ کی ذات بابرکت کو ہی اضافی قرار دے کر آبادی کم کرنے کی مہم کا آغاز کر دے)۔ شنید یہی ہے کہ کرپشن سے لے کر لوڈشیڈنگ تک اور ’’تلیم‘‘ کی کمی سے لے کر فحاشی تک آپ کو پاکستان کے تمام مسائل اور اُن کا حل پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا جائے گا، آبادی کے اژدھے کا البتہ اس میں کہیں ذکر نہیں ہوگا۔

یہ مسئلہ پاکستان کے کسی ادارے، طبقے یا فیصلے کا اختیار رکھنے والے کسی گروہ کے ریڈار پر دکھائی نہیں دیتا، ہائی پروفائل میٹنگز میں آبادی کے محکمے کا سیکرٹری شاذونادر ہی بلایا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں کبھی یہ نہیں سنا کہ وزیر اعلیٰ نے آج آبادی پر قابو پانے کی میٹنگ بلائی ہے، اِس محکمے میں تعیناتی ’’کھڈے لائن‘‘ پوسٹنگ سمجھی جاتی ہے، افسران عموماً اپنے باس کو کہتے ہیں ’’سر، میں کام کر کے بہت تھک گیا، کسی ایسی جگہ لگا دیں جہاں زیادہ کام نہ ہو، پاپولیشن ویلفیئر میں جگہ خالی ہے!‘‘ اور ذرا نام ملاحظہ ہو محکمے کا ’’پاپولیشن ویلفیئر‘‘ یعنی آبادی کا مطلب خوشحالی۔ یہ تو حال ہے۔ اخبارات کی سرخیوں میں یہ مسئلہ تب سے نمایاں ہوا ہے جب سے مردم شماری کے نتائج آئے ہیں اور نہایت ہی مختصر عرصے میں اِس کا غلغلہ کم بھی ہو گیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک اِس کا شور رہا ٹاک شوز اور اخبارات میں بحث یہ ہوتی رہی کہ فلاں شہر یا گروہ کی آبادی کم کیوں ہوئی۔ سو، اس قسم کی ترجیحات سے ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ رہے ہیں مگر کوئی بات نہیں، اِن شاء اللہ امریکہ کو پچھاڑ کر دم لیں گے کیونکہ اکثر ہم ایسی خبروں پر بھی مسرت و اطمینان کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں کہ فلاں مغربی ملک میں جس رفتار سے مسلمانوں کی شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہے تو اگلے دس برسوں میں وہاں اپنی اکثریت ہو جائے گی۔ گویا اُس کے بعد مسلمان وہاں اپنا صدر منتخب کر لیں گے اور یوں آبادی کے بل پر سپر پاور بن جائیں گے۔ یہ ہمارا وژن ہے۔ ویلکم ٹو پاکستان۔

آبادی پر قابو پانے کے لئے دنیا نے جو طریقے اپنائے ہیں، اُن کی ترویج کا طریقہ کار اپنانے میں بھی ہمیں شرم آتی ہے اور آبادی بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔ اول تو یہ موضوع کسی محفل میں زیر بحث ہی نہیں آتا کیونکہ ہمارے پاس اس سے کہیں زیادہ اہم موضوعات ہیں جیسے کہ اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ کیا ’’کھیرے‘‘ کی قربانی جائز ہے؟ میں بیمہ کروا بیٹھا ہوں تو کیا اس کے پریمیم پر زکوٰۃ لاگو ہوگی؟ کیا تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے طلاق ہو جاتی ہے، کہیں حلالہ تو نہیں کروانا پڑے گا؟ ادھر امراء کا سرے سے یہ مسئلہ ہی نہیں، اُن کی ان کہی دلیل یہ ہے کہ ہم تو استطاعت رکھتے ہیں، اصل آبادی تو غریب بڑھاتے ہیں جو آٹھ آٹھ بچے بھی پیدا کرتے ہیں اور پلے کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوتا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اِس ضمن میں کوئی سوال کرتا ہے نہ جواب میں دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، اُلٹا اپنے ہاں تو یہ پوچھا جاتا ہے کہ بچے صرف دو کیوں ہیں، اگر لڑکیاں ہیں تو لڑکے کی ’’ٹرائی‘‘ کیوں نہیں کرتے! گویا ہاکی کی چیمپئن ٹرافی ہو رہی ہے جس میں گول کی ٹرائی کرنی ہے! اور خیر سے اگر لڑکا ہو تو پھر جوڑا بنانے کے لئے مزید ٹرائی کی جاتی ہے اور یوں اِس چکر میں چھ لڑکیاں پیدا کرکے بالآخر جوڑا مکمل کیا جاتا ہے! کوئی انہیں بتائے کہ کائنات کے سب سے عظیم انسان ﷺ کی بیٹی جنت کی سردار ہے!

اس دوڑ میں امیر غریب، اَن پڑھ یا پڑھے لکھے سب برابر ہیں۔ کسی کو اس بات کی مطلق پروا نہیں کہ بچے پیدا کرنے کے بعد اُن کی صحت اور پرورش کی ذمہ داری صرف ذاتی روپے پیسے کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ریاست کے بھی اُتنے ہی اضافی وسائل درکار ہوتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں اور نہ ہی ہمارے نکھٹو پن کی وجہ سے اُن میں کوئی جادوئی اضافہ ممکن ہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی کا یہ ملک بن چکا ہے، اسپتال، اسکول، سڑکیں، شہر، سب کا دم گھٹ چکا ہے مگر مجال ہے کہ کسی کان پر جوں بھی رینگ جائے۔ ہر کسی کے پاس یہی جہالت آمیز فقرہ ہے کہ میرے چار بچوں سے کروڑوں کے ملک میں کوئی فرق نہیں پڑتا، جہاں بائیس کروڑ وہاں بائیس کروڑ چار سہی۔ سردیاں آنے کو ہیں، محرم کے بعد شادیوں کا سیزن جوبن پر ہو گا، پہلے شادی ہو گی اگلے برس منّا۔ کچھ کو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ تین مہینے بعد ہی گائنا کالوجسٹ کے پاس دوڑے چلے جاتے ہیں کہ اب تک کچھ ہوا نہیں۔ بے شک پروردگار ہی سب کو رزق دیتا ہے۔ ہمارا ایمان بھی یہی ہے۔ مگر کیا اسی خدا نے یہ نہیں فرمایاکہ تمہیں وہی ملتا ہے جس کی تم سعی کرتے ہو (مفہوم)۔ ہر مزدور کو اپنے بچوں کی روٹی کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے، دو بچوں کی روٹی کمانا آٹھ بچوں کی بھوک مٹانے سے بہرحال آسان کام ہے۔ اور پھر یہ مذہبی دلیل کیا صرف پاکستا ن میں ہی لاگو ہوتی ہے، دیگر اسلامی ممالک میں بسنے والے مسلمان جو آبادی کنٹرول کرنے کے طریقے اپنا رہے ہیں اور اُن کی ترویج کر رہے ہیں، کیا وہ مسلمان نہیں؟ بنگلہ دیش ہمارا ہی حصہ تھا، مسلمان وہاں بستے ہیں، اُن کی آبادی کی شرح اور اپنی آبادی کی شرح کا تقابل کر لیں، فرق صاف ظاہر ہو جائے گا، وہاں اِس کام کے لئے مساجد میں مولوی حضرات سے مدد لی گئی اور تجربہ بے حد کامیاب رہا۔ اپنے ہاں علماء نے ٹی وی پر پولیو کے قطروں کے حق میں تو مہم میں مدد دینی شروع کر دی ہے، دیکھئے اب آبادی کے حق میں ایسی مہم کب چلتی ہے۔ کوئی ہے؟

ایک ایسا ملک جہاں بیس سال بعد بندوں کا شمار کیا گیا ہو، اپنے شہریوں کی فلاح کے لیے بھلا کیا منصوبہ بندی کر سکتا ہے؟ اچھی طرز حکمرانی کے لئے بنیادی کام درست اعداد و شمار اور ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے، اگر ہمیں اس بات کا ہی علم نہیں کہ ملک میں کتنے لوگ بستے ہیں اور اُن کے لئے کتنے تعلیمی ادارے اور اسپتال چاہئیں تو پھر ہمیں گڈ گورننس کی ویسے ہی فاتحہ پڑھ لینی چاہئے۔ باہر کے ملکوں میں نظم و ضبط اور نظام کی افادیت اس وجہ سے ہے کہ اگر کوئی شہری ریاست کے ڈیٹا بیس میں نہیں تو پھر اس تک ریاست کے ثمرات نہیں پہنچ سکتے۔ اپنے ہاں اُلٹا حساب ہے، یہاں اگر آپ ڈیٹا بیس سے باہر ہیں تو شکر کرتے ہیں کہ ریاست آپ تک نہیں پہنچ سکتی تاکہ ٹیکس چوری سے لے کر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے تک ہر کام ہم کھل کھلا کے کر سکیں۔ ایسے میں یا خدا تیرا ہی آسرا ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے