اُف ،یہ خوف

اللہ تعالیٰ سورۃ القریش میں فرماتے ہیں ’’ میں نے ان کو کھانا دیا بھوک میں اور امن دیا خوف میں ‘‘ بھوک اور خوف بہت بڑے عذاب ہیں اور ان سے نجات بہت بڑا خدائی انعام ہے ۔
فرانسس بیکن نے لکھا ’’خوف سے زیادہ خوفناک چیز کوئی نہیں ‘‘ افسوس کہ پاکستان میں خوف بہت ہے اُف ، اس قدر خوف کہ بڑے بڑے لوگ اپنے ہی ایک ادارے کا نام تک لینے سے ڈرتے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم ہوتے ہوئے کٹھ پتلیوں کے کھیل جیسا علامتی نام دیتے ہیں۔ آصف زرداری ایوان صدر میں ہوتے ہوئے بھی اس ادارے کا ذکر آنے پر کندھوں پر لگے تمغوں کی طرف اشارہ کرکے بات سمجھاتے تھے۔ زرداری صاحب ایک بار اینٹ سے اینٹ بجانے اور 3سالہ مدت ملازمت کا ذکر کرکے ایسے بیرون ملک گئے کہ جنرل راحیل شریف کے جانے تک واپس نہیں لوٹے۔مریم نواز شریف نے وکٹری تقریر میں انہیں نظرنہ آنے والے کہہ کر پکارااور تو اور بقول شخصے اپنے عمران خان جب دھرنے کے خاتمے سے پہلے ایک اہم ترین ملاقات کے لئے بلائے گئے تو عادت کے عین مطابق عمران اپنے میزبان کو نام لیکر بلاتے رہے انکی اس بے تکلفی کا برا منایا گیا، ان کے اخلاق پر سوال اٹھے اور پھر آرمی پبلک ا سکول پشاور کے باہر انکی بے عزتی کی گئی تب کہیں جاکر معاملہ رفع دفع ہوا۔
رہی میری بات تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میں بزدل ہوں بال بچے دار ہوں 30سال کی محنت سے اپنی زندگی میں جو آسانیاں اور آسائشیں کمائی ہیں ان سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں۔عزت کا جو جھوٹا سچا بھرم ہے اسے قائم رکھنا چاہتا ہوں۔مجھے خوف ہے کہ تنقید کی تو کوئی اندھی گولی میرا گھر نہ تاک لے، میری نگرانی شروع نہ ہوجائے میرے چھپے ہوئے گناہوں اور میری نادانستہ غلطیوں کی تشہیر نہ ہونے لگ جائے ۔دوسری طرف میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے کہتا ہے سچ بولو، بہادر بنو مگر خوف یہ ہے کہ سچ بولا تو جو کمایا ہے جو بنایا ہے اس سب کو خطرہ ہے بس میں تو اسی مصلحت میں زندہ ہوں اور بہت ہی شرمندہ ہوں۔
صرف میں ہی نہیں پورا معاشرہ خوف کا شکار ہے سیاستدان اشاروں کنایوں میں باتیں کرتے ہیں صحافی واٹس ایپ پر گفتگو کرتے ہیں کہ کہیں کوئی سن نہ لے کچھ تو اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو کر اپنے طاقتور آقا کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں اور کچھ نے مفادات کی خاطر نظریہ بدل لیا ہے جبکہ کچھ اپنے احساس جرم کو ندامت کی مسکراہٹ میں چھپا لیتے ہیں، اس خوف نے سماجی رویے، سیاسی نعرے اور محاورے تک بدل دیئے ہیں۔
فوج کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کا اخلاق بہت عمدہ ہے ان سے مل کر آنے والا ہر شخص ان کا گرویدہ ہو کر آتا ہے ۔اپنے اسی اعلیٰ اخلاق کی بدولت انہوں نے پارلیمنٹ سے راہ وربط اور تعلقات کو بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ جنرل باجوہ کی طرح اکثر جنرل مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں اپنی کلاس کی انکساری کا بھرپور عکس نظر آتا ہے لیکن ادارے کا مجموعی تاثر انکساری کا نہیں سختی کا ہے ۔
ظاہر ہے اس کی وجہ ایک طویل پس منظر ہے، چار مارشل لاء ہیں ، سوال یہ ہے کہ خوف کا یہ رویہ کیا ریاست یا اہم ترین قومی ادارے کے لئے فائدہ مند ہے ،ہرگز نہیں۔ خوف لوگوں کی زبانوں کو تالے تو لگا دیتا ہے مگر خوف سے مسائل حل نہیں ہوتے دب جاتے ہیں اور بالآخر ناسور بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل ضیاء الحق سے زیادہ خوف کس کے دور میں رہا؟ سیاسی مخالفت کرنے والوں کو کوڑے مارے گئے، بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔خوف اس قدر تھا کہ ہو کا عالم ہوتا تھا گیارہ سال تک بھٹو کا نام اور تصویر شائع کرنے پر پابندی تھی مگر یاد رکھیئے! زمانے پلٹ جاتے ہیں ابھی صرف تین دہائیاں گزری ہیں جو تاریخ کے ایک سیکنڈ کے برابر بھی نہیں ،اسی دوران طاقتور ترین اور جنرل ضیاء الحق کا دفاع کرنے والا کوئی باقی نہیں رہا، خوف کی تلوار کند ہو گئی اور مظلوموں کی آواز تاریخ کا سنہرا باب بن گئی۔
کوئی ایک فرد چاہے وہ بڑا سیاست دان ہو یا کوئی بہادر جج یا کمزور صحافی، اداروں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ ادارے ہمارے اپنے ہیں، ہمیں ان سے پیار کرنا چاہئے۔ دوسری طرف اداروں کو بھی اختلاف رائے کرنے والوں کا احترام کرنا چاہئے ۔انہیں موقع دینا چاہئے کہ وہ اختلافی رائے کو سامنے لاسکیں جس ریاست میں آزادیٔ اظہار یا آزادی فکر نہ ہو تو قوم محبوس ہوجاتی ہے، تخلیق اور تحقیق کے راستے بند ہوجاتے ہیں، کوئی نئی بات، مسائل کا کوئی نیا حل، مملکت کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
بظاہر ملک میں آزادیٔ اظہار ہے، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ ہوا۔ یہ ایک بین الاقوامی واقعہ تھا امریکہ میں اس واقعہ کی تفصیلات کے حوالے سے درجنوں کتابیں لکھی گئیں جو ساری کی ساری اب پاکستان میں دستیاب ہیں، مگر جہاں یہ واقعہ ہوا یعنی پاکستان، وہاں اس موضوع پر ایک بھی مستند کتاب شائع نہیں ہوئی حتیٰ کہ سوائے ایک انگریزی آرٹیکل کے۔ اس موضوع پر کوئی ریفرنس، کوئی قومی بیانیہ اور کوئی تفصیل موجود نہیں۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ تک بھی کسی کی رسائی نہیں جب اطلاعات کا فقدان ہو تو افواہیں جنم لیتی ہیں، غلط فہمیاں سر اٹھاتی ہیں، پاکستان میں اب تک جو مثبت معاملہ ہوا ہے وہ میڈیا کی آزادی ہے، لوگ بی بی سی یا کسی اور میڈیا سے کہیں زیادہ پاکستانی میڈیا دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ کیا بہتر نہ ہو کہ میڈیا پر پابندی کی بجائے سچ اور حقائق ان کے سامنے رکھے جائیں۔ سچ سے بڑی کوئی طاقت نہیں جبکہ جھوٹ و پروپیگنڈ اوہ عارضی جھلی ہے جو ایک سچی پھونک ہی سے اڑ جاتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنی پسند کی آوازیں سنتے اور اپنی مرضی کی تحریریں پڑھتے ہیں کیا ہم میں اخلاقی جرأت ہے کہ ہم اپنے کسی مخالف کی ایمانداری اور سوچ کی تعریف کرسکیں ، کیا ہم میں اتنی انسانیت ہے کہ ہم اپنے نقاد کی تنقید کو درست سمجھ کر اپنی اصلاح کریں نہ کہ اس کے پیچھے پڑ کر اسے نیست و نابود کردیں۔ مردہ معاشروں میں اختلافی آوازیں نہیں ہوتیں اور یوں فاشزم، جھوٹی نیشنلزم اور حقائق سے روگردانی فروغ پاتی ہے۔
اہل سیاست اور سول سوسائٹی کے پاس کوئی منظم فورم نہیں کہ وہ سوچ بچار کریں اور مسائل کا حل نکال سکیں۔ اس حوالے سے ہماری مسلح افواج نے قابل رشک فورمز بنائے ہیں، امید تو یہی ہے کہ ان فورمز پر کبھی خوف کے معاملے پر بھی غور کیا جائے اور سوچا جائے کہ پوسٹ کمیونزم اور پوسٹ ماڈرن ازم دور میں خوف کے ہتھیار کا اس طرح بے دریغ استعمال کانتیجہ کیا نکلے گا؟اور یہ بھی کہ جس مرض کا علاج دوائی کی پڑی سے ممکن ہے اس کے لئے چھری چاقو کا آپریشن کیوں کیا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو یہ کہتی کہتی شہید ہوگئیں کہ ان کی ہر کال سنی جاتی ہے اور مسلسل جاسوسی کی جاتی ہے، جب محترمہ شہید ہوتی ہیں تو ان کی قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جاسوسی کرنا درست تھا یا پھولوں کی چادر چڑھانا۔ کیا کبھی ان متضاد رویوں پر بھی غور ہوگا؟ سارے ہی وزیراعظموں پر عدم اعتماد کیوں؟ سیاستدانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیوں؟ اگر آئین میں واقعی پارلیمان بالا دست ادارہ ہے، وزیر اعظم آئینی طور پر چیف ایگزیکٹو ہے اور قانوناً میڈیا آزاد ہے تو پھر ہر طرف خوف کے سائے کیوں ہیں؟ کیا کبھی اس خوف کو دور کیا جائے گا؟ بے چارے خوفزدہ لوگ کیا ڈائیلاگ کریں گے کیا بولیں گے؟؟اف، یہ خوف!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے