شیراور شکاری

ان دنوں سیاست بہت پیچیدہ ہوتی جارہی ہے اس لئے کیوں نہ آج شکاریات پر بات کی جائے، شکار انسان کی قدیم ترین جبلت ہے اور جنگل کے بادشاہ شیر کا شکار تو زمانہ قدیم ہی سے کارنامہ سمجھا جاتا ہے، آجکل کی دنیا میں بھی شیر کے شکار کو ’’ٹرافی‘‘ گردانا جاتا ہے۔
زمانے بدل گئے انسان ماڈرن ہوگیا مگر شیر آج تک جنگل کا بادشاہ ہے اور شکاری آج بھی اس کا شکار کر کے داد وصول کرتے ہیں شیر میدان میں اترتا ہے تو شکاری بھی بندوق پکڑے شست باندھنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اس دن بھی ایسا ہی ہوا شیر اور اس کے خاندان (شکاریات کی زبان میں شیر کےخاندان کو Prideکہتے ہیں) کو یقین تھا کہ آج کا دن بھی خوشگوار ہی گزرے گا اسے اندازہ تھا کہ شکاری جال لگائے بیٹھے ہیں پھندہ تیار ہے مگر اسے یقین دلایا گیا تھا کہ یہ جال مصنوعی ہیں دھاگا کچا ہے جال میں پائوں پھنس بھی گیا تو جال توڑ کر نکلنا بہت آسان ہوگا۔ شیر ماضی میں کئی پھندوں سے نکل چکا تھا اس لئے دھوکہ کھا گیا شیر آخر شیر ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی نے اسے دن کے 12بجے تک خوش رکھا شیر کو بتایا گیا تھا کہ شکاری حساب کتاب کرے گا احتساب عدالتوں کے چکر لگوائے گا مگر نہ نااہلی ہوگی اورنہ جنگل کی بادشاہی چھینی جائے گی شیر کا اقتدارقائم رہے گا مگر ساتھ ساتھ عدالتوں میں ہلکا پھلکا کام بھی جاری رہے گا تاکہ شیر اور شکاری دونوں کا مقام اورمرتبہ بلند رہے۔ مگر جونہی گھڑی کی سوئیاں ایک دوسرے پر چڑھیں شیر کو دبئی کے صحرائوں میں وقتی قیام کے اجازت نامے ’’اقامہ‘‘ پرنااہل قرار دیا گیا شیر کو غصہ یہ ہے کہ اس سے دھوکہ ہوا اور پھر احتساب عدالتوں پر ایک نگران لگانا بھی شیر کو ہضم نہیں ہورہا۔ جنگل کے جانوروں اور شکاری دونوں کا خیال تھا کہ شیر بھاگ گیا اب دوبارہ نہیں آئے گا مگر یہ شیر بڑا غصےوالا ہے اسے اپنی بے عزتی کا بہت شدت سے احساس ہے ویسے بھی شیر کی عادت ثانیہ ہے کہ وہ ایک مشترکہ خاندان میں رہتا ہے بادشاہ کی طرح جنگل میں وہ اپنے لئے ایک ’’علاقہ‘‘ مخصوص کر لیتا ہے پھر اس علاقے میں گھوم پھر کر اس کی حفاظت کرتا ہے بار بار چکر لگاتا ہے اس علاقہ میں کوئی اور جانور یا شکاری آئے تو وہ اسے مداخلت بے جا قرار دیکر اس پر جھپٹ پڑتا ہے۔ شیر اسی لئے واپس آیا ہے کہ وہ شیر ہے۔
افریقہ کے جنگلات میں جانوروں کی عادات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جنگل کا بادشاہ شیر ہے یا چیتا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ بادشاہ تو شیر ہی ہے مگر چیتا بہت پھرتیلا ہے بہت ہی تیز بھاگتا ہے پنجرے کے اندر شیر اور چیتے میںلڑائی ہو جائے تو چیتا جیت جائے گا اور شیر ہار جائے گا اسی لئے پاناما مقدمے میں چیتے نے انصاف کے پنجرے میں شیر کو شکست فاش دے ڈالی۔ یہ الگ بات ہے کہ کھلے میدان سیاست میں شیر بادشاہ جیسی شان رکھتا ہے ماہرین کہتے ہیں کہ کھلے میدان میں شیر کا کوئی مقابلہ نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ چیتا کتنی جلد انتخابات کروانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ستارے کہتے ہیں کہ اس وقت شیر کمزور پوزیشن میں ہے اگر وقت ملا تو شیر اپنے قبیلے اور پارٹی کے ہمراہ بادشاہی پھر مضبوط کر لے گا لیکن اگر شیر احتساب کے پھندے میں پھنسا رہا تو پھر چیتا اسے انتخابات کے موسم میں چیر پھاڑ ڈالے گا۔
شیر کا شکار صدیوں سے طاقتوروں، امیروں، سپہ سالاروں اور بادشاہوں کا شوق رہا ہے اس خطے میں مغل بادشاہ سال میں کم از کم ایک دفعہ شیر کے شکار کو جایا کرتے تھے کیا سماں ہوتا تھا سینکڑوں لوگ ہانکا کر شیر کو جنگل کے ایک خاص علاقے تک محدود کر دیتے بعض اوقات تو اسے نشہ آور پانی بھی پلا دیتے، ہفتوں کے ہانکے، نشہ آور پانی اور گھیرائو کے باعث شیر کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی تو شکاری محفوظ مچان میں بیٹھ کر تیر برساتا شیر زخمی ہوتا تو شکاری اوراس کے ساتھی مچان سے اتر کر نڈھال شیر کو مار دیتے یوں شیر خان کہلاتے۔ مشہور شکاری جم کاربٹ نے شکاریات کی کہانیوں میں بہت نام کمایا۔ اگر جم کاربٹ زندہ ہوتا تو شاید وہ شیر کے شکار کی نئی کہانی لکھتا اور یہ بتاتا کہ اب شیر کو نڈھال کرنے کے لئے ہانکے کی ضرورت نہیں نشہ آور پانی یا افیون بھرا انجکشن لگانے کی بھی ضرورت نہیں اب تو ڈان لیکس، کلبھوشن یادیو اور سجن جندال جیسی خوفناک ادویات دریافت ہو چکی ہیں جنہیں دکھاتے ہی وقت کا شیر نڈھال ہو جاتا ہے اور بس ایک منصفانہ تیر اس کے پائوں لڑکھڑانے کے لئے کافی ہے ۔ اس شیر کا واپس آنا البتہ حیرت ناک ہے۔ دیکھئے اب شکاری اس کا نیا علاج کیا کرے گا؟
پاکستان میں کئی بڑے لوگ شکار کے شوقین رہے ہیں ماضی میں سیاسی مذاکرات شکار کی آڑ میں ہوتے تھے بھٹو صاحب نے شاہ ایران کو لاڑکانہ میں شکار کروایا تھا جبکہ یحییٰ خان سے بھی شکار کے دوران سیاسی مذاکرات کئے تھے مصطفیٰ کھر نے ایک جرنیل سے شکار کے دوران مبینہ طور پر فوجی بغاوت کے امکانات پر گفتگو کی اور ہمیشہ کے لئے بھٹو صاحب کی نظروں میں راندۂ درگاہ بن گئے۔ ممتاز بھٹو بھی اپنی جاگیر میں خود شکار کرتے اور کرواتے ہیں۔ مرحوم حفیظ پیرزادہ کو شکار کا بہت شوق تھا انگلینڈ میں باقاعدہ لائسنس لے کر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی افریقہ میں جا کر شیر مار چکے ہیں اور بطور ٹرافی یہ شیر ان کے گائوں کوٹ درانی گھر پر حنوط شدہ شکل میں محفوظ ہیں اسی طرح کرمانوالہ شریف کے پیر صمصام علی بخاری بھی پیشہ ور شکاری ہیں اور شکار کرنے کبھی سائبیریا جاتے ہیں اور کبھی افریقہ میں جا کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں البتہ یہ سارے وہ شکاری ہیں جو واقعی پرانے زمانوں والا شکار کرتے ہیں یہ سیاست کے شکاری نہیں اور نہ ہی سیاست کے علامتی شیر کو گرانے میں ان کا کوئی بڑا کردار ہے۔
سیاست مشکل ہوتی جارہی ہے شیر بے خوفی سے رنگ میں واپس آنا چاہتا ہے لیکن شکاری کب ایسا ہونے دیں گے؟ فرض کریں شیر جنگل میں پھر سے پاپولر ہوگیا تو اپناگھرانا متحد رکھ لے گا اپنا قبیلہ اور اپنی پارٹی بھی سنبھال لے گا لیکن منظم اداروں سے کیسے لڑے گا؟ اگر شکاری، شکار کرنے پر آجائیں تو شیر کا بچنا محال ہوتا ہے۔ شیر ایک جال سے نکلے گا تو دوسرا پھندا تیار ہوگا، احتساب کیسز، سانحہ ماڈل ٹائون، ایل ڈی اے پلاٹس کیس، عزیزیہ مل ریفرنس، فلیگ شپ ریفرنس اور ایون فیلڈ فلیٹس ریفرنس یہ سب وہ رکاوٹیں ہیں جنہیں معمول کے ماحول میں پار کرنا مشکل ہوگا یا تو شیر کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا کردے یا پھر سر جھکا کر چلا جائے۔ واپس آنے سے تو لگتا ہے کہ شیر کچھ کرے گا مگر کیا شکاری شیر کو سب کچھ کرنے دیں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے