قارئین محترم اسلامی کیلنڈر کا ماہِ اول محرم الحرام اپنی حرمت کے اعتبار سے اہم مہینوں میں شمار ہوتا ہے۔ قرآنِ عظیم میں جن چار مہینوں کی حرمت بیان کی گئی ہے ان میں ایک مہینا محرم بھی ہے۔یہ مہینا کئی اعتبار سے فضیلت کا حامل ہے کیوں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر خاص انعامات کیے ہیں ۔
یہی وہ دن ہے کہ جب حضرت آدم ؑ اور حضرت اماں حواؑ کو پیدا کیا گیا۔جنت سے نکالے جانے کے بعد اسی روز اماں حواؑ اور آدم ؑ کی توبہ بارگاہِ الہٰی میں اسی روز قبول ہوئی۔زمیں ،آسمان،سورج اور چاند ستارے اسی دن پیدا کیے گئے۔اس مہینے کی دس تاریخ ’’عاشِر‘‘کی نسبت سے عاشورہ کہلاتی ہے ۔یہ دن بھی کئی اعتبار سے اہمیت و فضیلت والا ہے۔یہی دن تھا جب فرشتوں کے سردار جبریلِ امینؑ ،خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ اور ملائکہ پیدا کیے گئے۔
اسی دن اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے خلیل ؑ کے لیے نارِ نمرود کو گلشنِ بہشت بنا دیا اور یہی وہ دن تھا جب حضرت اِدریس ؑ کو رفیع الدرجات بنایا۔ پس ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ قبل از اسلام بھی یہ ماہ کتنا مقدس اور حرمت والا تھا۔ ظہورِ اسلام کے بعد اس مہینے کی اہمیت یوں بڑھی کہ اسی دن نبی کریم ﷺ کے لختِ جگر ،آپ ؑ کے انتہائی محبت کرنے والے ۔آپ ﷺ کی دو نسبتوں صحابیت اور اہلِ بیت کے حامل ،جنتی نوجوانوں کے سردار اور ان کے گھرانے کو انتہائی سفاکی اور بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔یہ نہ صرف تاریخِ اسلامی بل کہ دنیا کی تاریخ کا ایک الم ناک ترین واقعہ ہے ۔
اس واقعے پر اس قدر لکھا گیا کہ شاید کسی اور واقعے پر نہ لکھا گیا ہو۔ لکھنے والوں میں ہر قوم اور مذہب کے لوگ شامل ہیں۔سوال یہ ہے کہ نبیﷺ کے ان چہیتے اہلِ بیت کو شہید کرنے والے کون لوگ تھے؟ وہ کوئی کافر یا غیر مسلم نہ تھے بلکہ اسی نبیﷺ کا کلمہ پڑھنے والے تھے جس نبی ؑ کے یہ لاڈلے تھے۔اقتدار کی ہوس نے ان لوگوں کو اس قدر اندھا کر دیا کہ وہ اس بات کو بھی بھلا بیٹھے کہ وہ کن پاک ہستیوں پر اپنا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔کربلا میں شہادت پانے والے حضرت حسینؓ نے اپنا گھر بار اور اپنا خاندان تو اللہ کی راہ میں، اپنے نانا کے دین کو بچا نے کے لیے ختم کر دیا لیکن یزیدان جاں نثارو ں کو مٹانے میں ناکام ہوا اور خود مٹ گیا۔حضرت حسینؓ نے اپنے لہو کا اک اک قطرہ اسلام کی شمع کو روشن رکھنے میں دے ڈالا
شمعِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی
وہ لہو مصطفی ؑ کے گھرانے کا ہے
حسینؓ ،حضور نبی کریمﷺ کے دوسرے نواسے تھے اورامام حسنؓ سے چھوٹے تھے ۔اپنے دونو ں نواسوں کے اسما حضور علیہ السلام نے خود رکھے ۔یہ دونو ں نام اللہ نے دنیا والوں سے پوشیدہ رکھے ۔اس سے پہلے تاریخ میں کسی اور کا نام حسن یا حسین نہ تھا۔حضرت حسینؓ کی پیدائش پر نبی ؑ بہت مسرور تھے۔آپؑ نے حسینؓ کو اٹھایا اور اپنا لعابِ پاک ان کے منہ میں ڈال کر داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اللہ کے نبی ؑ نے خود اقامت کہی۔حضرت حسینؓ کی پرورش بھی اپنے نانا کے گھر پر ہوئی ۔
ارشادِنبی ہے کہ ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘ایسا پیار بھی کسی کاہو گا ؟جو اللہ کے نبی ؑ کو پسرانِ بتولؓ سے تھا۔نماز کے دوران میں فاطمہؓ کے جگر گوشے اپنے نانا کی پیٹھ مبارک پر سوار ہو جاتے۔آپ ؑ ان کو گود میں لے کر گھنٹوں چومتے اور چمکارتے۔روایات میں ہے کہ حسینِ پاکؓ کی ولادت سے قبل نبی اکرم ﷺ کو اشارہ ہو چکا تھا کہ بیٹا پیدا ہو گا۔
ایک روایت کے مطابق انس بن حارثؓ نے ایک دن دیکھا کہ حضرت حسینؓ تاجدار کائنات ﷺ کی گود میں ہیں اور ان سے پیار کر رہے ہیں ۔اسی دوران میںآ پ ؑ نے وہاں موجود افراد کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میرا یہ فرزند حسینؓ اس سرزمین پر شہید کیا جائے گا جس کا نام کر بلا ہے۔دیکھو تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہواس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مدد کرے۔یاد رہے انس بن حارثؓ کربلا میں حضرت حسینؓ کے ساتھ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ایک دوسری روایت کے مطابق ایک دفعہ فرشتے نے رسول کریمﷺ کو مِٹی لا کر دکھائی جو کربلا کی تھی اور یہ بھی بتایا کہ زَہرا کے لعل کو اس جگہ شہید کر دیا جائے گا۔
یزید نے جب حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالی تو اس نے حضرت حسینؓ سے بھی بیعت حاصل کرنا چاہی لیکن نبی کے گھر کے اس چِراغ نے یزیدی بیعت سے انکار کر دیا ۔یزید حسینؓ کے زندہ ضمیر کو کسی طور زیر نہ کر پایا بہ قول جوش ملیح آبادی
کربلا جرأتِ انکار ہے پیشِ سلطاں
فکر حق سوز یہاں کاشت نہیں کر سکتی
حضرت حسینؓ اس بات سے بہ خوبی واقف تھے کہ اگر آج میں نے بیعتِ یزید کر لی تو یزید جتنے بھی غیر شرعی کام کرے گا اس سے جہاں میرے نانا کے دین کو خطرہ ہے وہیں وہ لوگوں کے لیے بھی نمونہ بن جائے گا۔یزید چاہتا تھا کہ خلیفۂ چہارم کا یہ چشم و چراغ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لے جس سے اس کی حکومت مضبوط ہو جائے۔یزید عدل و انصاف سے عاری فسق و فجور کرنے والا شخص تھا جس کے دل میں سوائے اقتدار کے لالچ کے کچھ اور نہ تھا۔ اس کا ظلم مشہور ہو چکا تھا۔ ایک ایسا شخص جو اقتدار کا لالچ رکھتا ہو،ظالم ہو،عدل وانصاف کرنا نہ جانتا ہو بھلا حسینِ پاکؓ جیسی ہستی اس کے ہاتھ پر کیوں کر بیعت کر سکتی تھی؟
آپ نے اپنے ساتھیوں سمیت ۲ محرم سن ۶۰ ہجری کو کربلا کی خاک پر قیام کیا قبیلہ بنی اسد سے ساٹھ ہزار درہم کے عوض یہ زمین خرید کی اور خیمے نصب کروائے۔یہاں ہی ۴ محرم کو یزیدی لشکر نے سپہ خدا کے لیے پانی بند کر دیا ۔آپ کے گھرانے کے معصوم پھول پیاس کی شدت اور صحرا کی گرمی سے تڑپ اُٹھے۔میر انیس ؔ کے مطابق: پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی اللہ کی یہ فوج یزیدی محاصرے میں پیا س سے بلکتی رہی لیکن حق پر آنچ نہ آنے دی ۔معصوم فرشتے بھی اس ظلم سے محفوظ نہ رہے نبی ؑ کے گھر کی بیٹیوں کی عِصمتوں کی بھی پروا نہ کی گئی۔مدینے کا یہ قافلہ باطل کے سامنے ڈٹا رہا تا وقتِ کہ اس قافلے میں ہر بچہ و جوان شہادت اوج پر پہنچ گیا جب کہ جو بچ گئے ان کو قید کر لیا گیا۔
حق و باطل کا یہ معرکہ تاریخ میں کبھی فراموش نہیں ہو سکتا ۔ آج بھی واقعۂ کربلا عزم و ہمت اور صبر واستقلال کا درس دیتا ہے۔اس واقعے پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے جتنی بھی مذمت کی جائے تھوڑی ہے۔اللہ ہمیں حق کے راستے پر صبر واستقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔وہ دین جس کو بچانے کے لیے کربلا بپا ہوا آج ہم اس دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ضرورت ہے کہ کربلا کے فلسفے کو سمجھا جائے اور اسلام پر ثابت قدمی اختیار کی جائے ۔مولانا محمد علی جوہرؔ کے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گی
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد