لکھنا تو چاہا رہا تھا کہ کیسے اس غریب ملک کے غریب وزیر اعظم نے حالیہ دوہ امریکہ میں 53 ہزار ڈالر پر لی گی لیموزین کار میں جھولے لیے۔
اور بھلے عوام کو کھربوں کا ٹیکا دو دن میں لگا دیا اور باقی ہوٹل میں ایک معمولی سا کمرہ لیا کہ جس کا کرایہ صرف 10 ہزار ڈالر ایک رات کا تھا ویسے دس ہزار کو پاکستانی روپے میں کنورٹ کرکے بلڈ پریشر زیادہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
مگر پھر خیال آیا یہ تو کو نئی بات ہے نہیں عوام پہلے ہی اربو ں کھربوں کے معاملات سن اور دیکھ رہی ہے تو کیا ہوا ایک بیچارے چند روزہ دیہاڑی دار وزیر اعظم نے تھوڑی سی سیر رفرما لی ۔ تو پھر سوچا اس سے بڑا واقعہ تو ہماری ناک تلے رونما ہو گیا ہے اس پے ہی کچھ عرض کر دیتے ہیں
تو جناب کبھی سنا کرتے تھے کہ امریکہ لینڈ آف اپرچیونٹی( مواقعوں کی زمین ) ہے کہ جہاں کوئی بھی اپنی محنت سے کبھی بھی کسی بھی وقت کچھ سے کچھ بن سکتا حالیہ تازہ ترین مثال ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی لی جا سکتی ہے ۔ قطہ نظر اس کے آپ کا بیک گراونڈ کیا ہے آپ لیند لارڈ ہیں یا غریب جوکر ہیں یا پھر فلم ایکٹر اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ،میٹر کرتا ہے تو صرف آپ کی محنت ۔
دوسری جانب ملک عزیز میں ہر برے کام کی فراوانی بلکل اسی طرح ہے جیسے اچھے کا موں کی عدم دستیابی !
دنیاں میں دوسری نظریاتی ریاست پاکستان کہ جس کی بنیاد خالصتا ایک نظریے کی بنیاد پر رکھی گی تھی اس حال کو پہنح گی ہے کہ یہ بھی اب ایک لینڈ آف اپرچیونٹی ہی بن چکی ہے جہاں اب کچھ بھی ممکن ہے اور ایسا ایسا کچھ ممکن ہے جس کا کسی اور مہذب معاشرے میں تصور تک ممکن نہیں ۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان تمام ممکنات کا دائرہ کار صرف اور صرف اشرف المخلو قات تک محدود ہے اور کون نہیں جانتا کہ اس ملک میں صرف چند ہی خاندان اور کچھ اداروں سے وابستہ لوگ ہی اشرف کی شرط کو پورا کرتے ہیں باقی ساری عوام یا تو کیڑے مکوڑے ہیں یا پھر ان کے غلام ۔
پاکستان کی اس اشرف مخلوق کی تازہ ترین واردات گزرے جمعہ کو ڈالی گی جب پاکستان کی سب سے بڑی مجلس جہاں قانون سازی کی جاتی ہے وہاں سپریم کورٹ سے نا اہل کیے گے سابق وذیر اعظم کو دوبارہ پارٹی صدر منتخب کروانے کے لیے قانونی ترمیم کا بل پاس کرایا گیا۔۔ سابق وذیر اعظم کو چونکہ پارٹی صدارت سے بھی ہٹنا پڑا تھا تو شاہ سلامت یہ بلکل پسند نہیں کر رہے تھے کہ وہ کسی بھی جمہوری روایت کو الفاظ سے آگے بھی اس کااستعمال ہونے دہیں اور اس طرح وہ اپنی موروثی صدارت سے دور ہوں تو ان کی اس خواہش کو بار آور کرنے کے لیے جمعہ والے مبارک دن نون لیگ کی طرف سے وفاقی وذیر قانون زاہد حامد نے الیکشن بل میں ترمیم شدہ بل منظوری کے لیے پیش کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ نا اہل ہونے کے بعد یہ محترم اور اشرف مخلوق پارٹی صدارت کا عہدہ اپنے پاس رکھ سکتی ہے ۔
چیرمین سینٹ رضاربانی نے اختلاف کیا کہ یہ معاملہ پہلے سے ایوان میں زیرغور ہے اور قوانین کی روسے جو معاملہ پہلے ہی انڈر ریوویو ہو اس پے ایوان میں بحث نہیں ہو سکتی ۔ جس پر ایوان میں عوام کے ان نام نہاد نمائندوں نے شدید ردعمل کا اظہا ر کیا ۔
چیرمین سینٹ نے جب دیکھا کہ ایوان میں موجود اشرف مخلوق بات ماننے کو تیار نہیں تو وہ واک آوٹ کر گئے۔
مگر احتجاجا واک آوٹ سے پہلے بولا کے اس معاملے سے نپٹنے کے لیے ا یوان میں موجود ارکان سے رائے جان لیتے ہیں جس کے حق میں ووٹ زیادہ ہوے اس کی بات سن لیتے ہیں کہ کیا آج یہ ترمیم پیش ہونی چاہیے کہ نہیں ۔یہاں معاملہ پھر وہ ہی ہے کہ سب اشرف مخلوق اکھٹی ہو گی اپنے مفاد کی خاطر۔ اگر حذب اختلاف چاہتی تو بڑی آسانی کسیاتھ اس ترمیم کی مخالفت میں ووٹ ڈال کر اسے پاس نہ ہونے دیتی مگر ایسا تو تب ہوتا جب ملک کا مفاد عزیز ہوتا جب ترجیح پیسا کمانا، پیسا بچانا ہو ہو تو ہزار راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ دل بے ایمان تو حجتیں ہزار۔
سو ایوان میں ترمیم پیش کرتے وقت بھی اپوزیشن والوں نے راستہ نکال لیا جس سے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی ۔
ترمیم کی راے شماری کے دوران اس کے حق میں 38 جبکہ مخالفت میں 39 ووٹ ڈلے یعنی کے 39ارکان کا کہنا تھا کہ اس ترمیمی بل کو زیر بحث لایا جاے اور متذکرہ ترمیم کر ڈالی جائے ۔ واہ رہے پھرتیاں عوام کے حق میں ان حرام خوورں سے سواے مراعات لینے کے اس ایوان سے کو ئی قانون سازی نہ کی جاسکی مگر جب بات اپنے مفاد کی آئی تو سارے معمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہو گے چاہے وہ حکمران جماعت ہو یا پھر حزب اختلاف اس دن تو خیر سے ہمارے اسلامی بھائی سراج الحق صاحب نہ جانے کسی عوامی یا اسلامی خدمت پر معمور تھے کہ وہ بھی اپنی تنخواہ حلال کرنے اس ایوان میں نہ پہنچ سکے کہ جس کے وہ رکن ہیں اور تنخواہ دار بھی ۔
علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے سینٹ میں کل 27 ارکان ہیں جن میں سے 3 غیر حاضر تھے دوسری جانب( ایم کیو ایم ) متحدہ قومی مومنٹ کے 8 ارکان میں سے 7 غیر حاضر تھے ۔عوامی نیشنل پارٹی کے الیاس بلور کے سوا باقی ارکان بھی غائب تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سات میں سے پانچ ارکان ایوان میں حاضر تھے ۔
یہاں یہ سمجھنے کے لیے کسی بڑے سیاسی شعور کی ضرورت نہیں کہ جب اتنا اہم معاملہ زیر بحث آنا تھا تو یہ ممبران ایوان سے غیر حاضر کیوں تھے ویسے بھی ان ارکان سینٹ کو ایوان میں جانے کی کم ہی توفیق ہوتی ہے تو جب چیرمین سینٹ نے اس بات کی سرعام وضاحت بھی کی کہ اس پے بحث ممکن نہیں قانونی پیچیدگی کے علاوہ دوسری وجہ ارکان کی بڑی تعداد میں ایوان سے غیر حاضری بھی ہے
تو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کو کیا جلدی پڑی تھی کہ بل اسی دن پیش کرنے کی کہ جب اپوزیشن ارکان کی تعداد تسلی بخش نہ تھی اور صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اس طرح حکومتی بینچ اپنی ترمیم پاس کروانے میں کامیاب ہو جاے گااور ایسا ہی ہوا ۔
تو اس میں کوئی دو رائے نہیں چاہے یہ اشرف مخلوق حزب اختلاف کے بینچ پے ہو یا پھر اقتدار والے بینچ پے ، اپنے مفاد میں یہ سب ایک ہیں اوران کے لیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ پاکستان کے عوام کی حالت کس نہج پے پہنچ چکی ہے ایک غریب کا چولہا کب کا ٹھنڈا پڑ چکا ہے ۔
حالیہ بجٹ میں مقرر کردہ ایک مزدور کی پندرہ ہزار ماہانہ میں یہ اشرف مخلوق گزارا کر کے دکھا سکتی ہے کیا ؟جہاں منصف بھی محافظ بھی قانون بنانے والے بھی اور قانون والے بھی لاکھوں کی تنخواہیں اور مراعات پا رہے ہیں ۔ کیا ان سے کسی کارِ خیر کی توقع اور عوام کی بہبود سے متعلق کچھ اچھا ہونا مستقبل قریب میں سوچا جا سکتا ہے؟۔
ہو نا تو یہ چائیے تھا کہ اس کچلی ہوئی عوام کی داد رسی کی جاتی اور اس مقدس ایوان میں عوام کو سہولت کیسے بہم پہنچائی جائے اس پر قانون سازی کی جاتی مگر بجائے اس کے سب اراکین پارلیمنٹ کا سارا زور اس بات پر صرف ہو گیا کہ کس طرح ایک نااہل شخص کو دوبارہ پارٹی کی صدارت واپس دلائی جائے۔