کیا مسلم لیگ ن بڑے ٹکراؤ کی طرف جا رہی ہے؟

نوے کے عشرے کا واقعہ ہے، اخباری تنظیموں کے ایک سمینار میں وزیراعظم نواز شریف مہمان خصوصی تھے۔ مقررین نے ان کی بعض پالیسیوں پر تنقیدکی تو میاں صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ تقریر کرنے آئے تو لکھی ہوئی تقریرسائیڈ پر رکھ کر سخت جملوں میں جواب دیا، میاں نواز شریف نے سٹیج کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ میں ٹکراؤ سے نہیں گھبراتا، میں محاذ آرائی کی پیداوار ہوں، بلکہ مجھے سیاست میں ٹکراؤ کے باعث ہی کامیابیاں ملی ہیں۔ وہ شائد اخبارنویسوں کو یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ میرے ساتھ لڑائی لڑوگے تو گھاٹے میں رہو گے۔

یہ میاں نواز شریف کی گزری سیاسی زندگی کامحض ایک واقعہ نہیں بلکہ ان کی نفسیات کا عکاس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں اپنی سیاست کے ابتدا میں اسی ٹکراؤ کا فائدہ پہنچا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر وہ جنرل ضیاءسے وفادار رہے اور وزیراعظم جونیجو اور پیر صاحب پگاڑا کے حامی دھڑے سے ٹکراؤ کی طرف گئے، اس کا انہیں فائدہ پہنچا اور جنرل ضیا نے کھل کر ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ بعد میں انہوںنے محترمہ بےنظیر بھٹو سے کھلی لڑائی لڑی، جس نے انہیں قومی سطح پر ابھارا اور وہ قومی رہنما بن گئے۔ صدر غلام اسحاق خان سے لڑائی اور اپنی مشہور ڈکٹیشن نہیں لوں گا والی تقریر نے انہیں عوامی لیڈر بھی بنا دیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے لڑائی کا نتیجہ بھی میاں صاحب کے حق میں نکلا۔ یہ اور بات کہ بعد میں جنرل پرویز مشرف سے لڑائی ان کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی اورحکومت چھن گئی، اس کے بعد انہیں ڈکٹیٹر سے معاہدہ کر کے کئی برسوں کے لیے جلاوطن ہونا پڑا۔

جلاوطنی سے واپسی کے بعد میاں نواز شریف کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی تھی۔ لگتا تھا کہ انہوں نے مفاہمانہ سیاست کے گر سیکھ لئے ۔میمو گیٹ سکینڈل واحد موقعہ تھا جب وہ زرداری حکومت کے خلاف سپریم کورٹ خود پہنچ گئے، اس کے بعد مگر ان کا رویہ مختلف رہا۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کی غیر رسمی انڈرسٹینڈنگ نے انہیں فائدہ پہنچایا، مئی تیرہ کے انتخابات میں وہ وزیراعظم بن گئے۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے کے بعد لگتا ہے میاں نواز شریف کو اپنی ماضی کی سیاست یاد آگئی ہے ۔ ایوان وزیراعظم چھوڑنے کے بعد سے ان کے لب ولہجہ میں بہت زیادہ تلخی آ گئی ۔ جی ٹی روڈ کے سفر میں انہوں نے دانستہ طور پر بار بار نام لے کرعدلیہ پر حملے کئے اور نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کو مطعون کیا۔ مسلم لیگ ن کی پالیسی میں اتنی جارحیت کا در آنا ایک بڑی تبدیلی ہے۔

میاں نواز شریف کی سیاست کا یہ نیا فیز ہے۔ عدالتی نااہلی کے بعداگر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ کہ وہ اپنی سیاسی جماعت اور جمہوری سیاسی عمل کو ترجیح دیں گے اور خود پیچھے رہ کر سیاسی عمل چلنے دیں گے تو یہ توقع پوری نہیں ہوسکی۔میاں صاحب پوری طرح جارحانہ اننگز کھیلنے کے موڈ میں ہیں اور وہ ایک بڑے ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں۔ایسا عظیم تصادم وہ چاہتے ہیں، جس کا تصور ہی سسٹم چلانے والوں کو ہلا کر رکھ دے۔ میاں نواز شریف خود، اپنے اہل خانہ ، اپنی جماعت کے بعض پرجوش رہنماؤں کے ساتھ مسلم لیگ ن کوتیزی کے ساتھ دوڑاتے ہوئے ایک ایسے ٹکراﺅ کی طرف لئے جا رہے ہیں، جس میں اب کچھ زیادہ دیر باقی نہیں رہ گئی۔چار پانچ کام انہوں نے ایسے کئے، جن سے ان کا مقصد اور ارادہ صاف ظاہر ہو رہا ہے۔

این اے 120 سے بیگم کلثوم نواز کو الیکشن لڑانے کی کوئی تک اور منطق نہیں تھی۔ ایک گھریلو خاتون جو پچھلے اٹھارہ برسوں سے باہر نہیں آئی، ایک بھی سیاسی جلسے سے جس نے خطاب نہیں کیا، انہیں اچانک اپنی جگہ ایم این اے کا الیکشن کس جمہوری، سیاسی اصول کے مطابق لڑایا گیا؟اس ملک میں کوئی شخص ایسا ہے جو یہ سوچ سکے کہ بیگم کلثوم نواز نے یہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ خود کیا؟ دنیا کے کس جمہوری ملک میں ایسامذاق ہوتا ہے؟میاں صاحب نے دراصل پیغام دیا کہ مجھے عدالت نے نااہل کر دیا تو کوئی بات نہیں، میں اس فیصلے کا اس طرح کھلے عام مذاق اڑا سکتا ہوں کہ اپنی بیوی کو وزیراعظم بنا دوں اور خود اسی وزیراعظم ہاﺅس براجمان ہوجاؤں۔

پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کرنے اور میاں نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنانے کا مقصد بھی ٹکراؤ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہی ہے۔ ایک طرح سے انہوں نے پارلیمنٹ کو استعمال کرتے ہوئے اسے عدالت عظمیٰ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ ایک شخص کو عدالت نے نااہل قرار دیا اور وہ رکن اسمبلی نہیں بن سکتا، اس ترمیم کے ذریعے اسی شخص نے عدلیہ جیسے اہم ترین ادارے کو ٹھینگا دکھایا کہ لیں وہی نااہل شخص پارٹی کا صدر بن گیا ہے، کرنا ہے جو کر لیں۔ ویسے تو اراکین پارلیمنٹ کے لئے بھی افسوس کا مقام ہے جو اتنی آسانی اور اس قدر سکون سے استعمال ہوجاتے ہیں۔ کٹھ پتلی بھی کچھ نہ کچھ مزاحمت کرتی ہے ، مسلم لیگ ن کے اراکین پارلیمنٹ نے تو وہ بھی نہیں کیا۔ کسی نے پارٹی میں سوال نہیں اٹھایا کہ میاںصاحب اتنی بڑی جماعت میں کوئی ایسا شخص نہیں جسے آپ صدر بنا سکیں، جس پر اعتماد کیا جاسکے؟ قانون دانوں کے ایک حلقے نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اس طرح تو کوئی قادیانی بھی اس مسند پر فائز ہوجائے گا۔ ختم نبوت والا حلف رکن پارلیمنٹ کے لیے لازمی ہے، پارٹی صدرکے لیے رکن پارلیمنٹ بننے جیسی اہلیت لازمی ہونے کا مقصد تھا کہ ختم نبوت ﷺکو ناماننے والا کوئی شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکے گا۔ اس ترمیم کے بعد اب کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ شیخ رشید نے اسی نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں مولانا فضل الرحمن کو خاموش رہنے پر ہدف تنقید بنایا۔

کچھ عرصہ پہلے جب نئی کابینہ بنی تو دو تین فیصلے اس وقت بھی ایسے ہوئے کہ غور سے دیکھنے والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ خواجہ آصف کو وزیرخارجہ بنانے کا فیصلہ انہی میں سے ایک تھا۔ جس خوش نصیب کو خواجہ آصف صاحب کی ”فصاحت وبلاغت سے بھرپور“ گفتگو سننے کا اتفاق ہوا ہو، وہ یہ بات مان سکتا ہے کہ جو شخص دو جملے سیدھے نہ بول سکے، بار بار اٹک جائے اور وہ جو ہے ناں، وہ جو ہے ناں کی گردان لگا دے، عالمی امور میں مہارت تو دور کی بات، دلچسپی تک کاجس نے پچھلے بیس برسوں میں کبھی اشارہ نہیں دیا…. اسے پاکستان کا وزیرخارجہ بنا دیا جائے گا ؟ اس فیصلے پر ہر کوئی حیران وپریشان تھا، مگر اب مصلحت سمجھ آ چکی ہے۔ خواجہ آصف نے پچھلے دو تین ہفتوں میں جو شعلہ بیانی دکھائی، ایسے عجیب وغریب بیانات دیے کہ بھارتی وزارت خارجہ بھی چکرا گئی۔ انہیں سمجھ نہیں آئی کہ یہ سشما سوراج کی پریس ریلیز ہے یا پاکستانی وزیرخارجہ نے گل افشانی کی ہے؟ خواجہ آصف کے وہ بیانات واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی حلقوں کو انگیخت کرنے کے لیے تھے ۔

نئی کابینہ میں احسن اقبال کو بھی وزارت منصوبہ بندی سے ہٹایا گیا، حالانکہ وہ سی پیک کے حوالے سے تمام مشاورتی اجلاسوں میں شامل تھے اور اس بڑے ایشو کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں وزارت داخلہ سونپی گئی ۔ اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ احسن اقبال کو دانستہ اس آزمائش میں ڈالا گیا ۔ان کے ساتھ وزیرمملکت طلال چودھری جیسے نووارد سیاست کو بنایا گیا۔ طلال چودھری کا وزارت داخلہ سے کیا لینا دینا، جنہیں قرینے سے گفتگو کرنا نہیں آتا اور جو کار حکومت سے بھی نابلد ہے؟ اندازہ ہوا کہ جناب احسن اقبال پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے شاید یہ فیصلہ ہوا کہ اگر آپ نہیں کر پائیں گے تو وزیرمملکت ایسا ہے جو ہر بھاری پتھر اٹھانے کو تیار بیٹھا ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں جو ڈرامہ رچایا گیا، اس نے ایک بار واضح کر دیا کہ ن لیگ نہ صرف ٹکراؤ چاہتی ہے، بلکہ اس بار خاصی عجلت میں ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ رینجرز کے جوانوں نے غلط کیا یا درست، ایک لمحے کے لیے اگرفرض کر لیں کہ احسن اقبال کا مؤقف درست ہے ، پھر بھی ان کا وہاں جانا ٹکراﺅ اور بدمزگی تو پیدا کردیتا، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تھا۔ تجربہ کار ، گرم سر د چشیدہ احسن اقبال اچھی طرح جانتے تھے کہ سلطان راہی کی طرح موقع پر پہنچ کر بڑکیں مارنے سے سین ہی بنے گا۔ انہوں نے دانستہ ایک ایسا منظر تخلیق کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد رینجرز اور فورسز پر کھل کر تنقید ہو سکے۔ کل شام ہی سے سوشل میڈیا پر ن لیگی” تیرانداز“ متحرک اورانتہائی فعال نظر آئے۔ دھڑا دھڑ پوسٹیں تخلیق ہو رہی تھیں اور فوج کے خلاف پروپیگنڈہ عروج پر تھا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے پاکستانی فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف انتہائی شدید پروپیگنڈہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے میاں صاحب اپنا انتقام لینے کے چکر میں نہ صرف پورا سسٹم اڑانے پر تل گئے ہیں بلکہ خدانخواستہ وہ ملکی سلامتی کی قیمت پر بھی ایسا کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

تو صاحبو! مسلم لیگ ن ایک بہت بڑے ٹکراؤ کی طرف جا رہی ہے۔ کوئی بچا سکتا ہے تو بچالے، انہیں روک، سمجھا سکتا ہے تو سمجھا لے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے