خوف زدہ لوگ

امام زین العابدین کا وہی ارشاد: کوفہ ایک شہر نہیں‘ ایک خاموش اُمّت کا نام ہے۔ جہاں بھی ظلم ہو اور اُمّت خاموش رہے‘ وہ جگہ کوفہ اور وہ لوگ کوفی ہیں۔
ایک آدمی کا فیصلہ ہے اور ایک تقدیر کا۔ قدسی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی من مانی کرتا ہے تو اسے تھکا دیا جاتا ہے۔ ہوتا بالآخر وہی ہے جو قادر مطلق کو منظور ہو۔
خود کو جناب نے نون لیگ کا صدر منتخب کرا لیا۔ مگر کیا یہ فیصلہ باقی رہے گا۔ کیا اس سے انہیں فیض پہنچے گا؟ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت افراد اور گروہوں کی نہیں‘ حالات کے دھارے کی ہوتی ہے کہ کس رخ پہ وہ بہہ رہا ہے۔
شہباز شریف نے علی الاعلان ان سے اختلاف کیا۔ خرابی کا ذمہ دار کرسی کے بھوکے مشیروں کو ٹھہرایا۔ خود میاں صاحبان کس چیز کے بارے میں سوچتے ہیں؟ سب لوگ اکرام میں اٹھے تو نثار علی خاں اپنی نشست پر جمے رہے۔ میاں صاحب کا خطاب ختم ہوتے ہی لپک کر چلے گئے۔ اداروں سے ٹکرائو کی وہ حمایت نہیں کرتے۔ صادر کرنا مشکل ہے کہ شہباز شریف کا اشارہ فقط دانیال عزیز‘ طلال چوہدری اور پرویز رشید کی طرف تھا‘ یا محترمہ مریم نواز کی جانب بھی۔ ان کے اندازِ سیاست سے اتفاق بہرحال وہ نہیں کرتے۔
سب جانتے ہیں کہ نون لیگ کی ساخت مختلف ہے۔ چند ایک آزردہ‘ انتہا پسندوں اور سطحی لوگوں کی بات الگ‘ اس کے کارکن اور رہنما‘ فوج اور عدلیہ سے الجھنے کا مزاج نہیں رکھتے۔ ان کی تربیت‘ ذوق‘ ضمیر اور اندازِ حیات یہ گوارا نہیں کرتا۔
اب اداروں کو بروئے کار آنا ہے۔ عدالت اور عسکری قیادت کو۔ فوج سے کسی واضح اعلان اور مؤقف کی امید ہے اور نہ عدالت سے۔ یہ ان کے شایانِ شان ہے اور نہ ان کے مزاج سے لگّا کھاتا ہے۔ اگر وہ ایسا کریں‘ تو خود شکنی کے مرتکب ہوں گے۔
میاں محمد نواز شریف نے‘ جس بے دردی سے ان کی مذمت کی‘ پسند بہرحال نہ کی جائے گی۔ مثلاً یہ ارشاد کہ ایٹمی پروگرام شروع کرنے اور انجام تک پہنچانے والوں کو پھانسیاں دی گئیں اور جلا وطن کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کیا ایٹمی پروگرام کی وجہ سے تختہ دار تک پہنچے؟ اگر ایسا تھا تو جنرل محمد ضیاء الحق نے اسی ولولے‘ اس سے زیادہ رازداری اور عزم و حکمت کے ساتھ جوہری پروگرام کو مکمل کیوںکیا؟ پاکستان کے ایٹمی سفر کا اولین مرحلہ 5 جولائی 1977ء نہیں بلکہ چھ برس بعد 1983ء میں جنرل محمد ضیاء الحق کے عہدِ اقتدار میں مکمل ہوا۔
میاں محمد نواز شریف کیا ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے نکالے گئے؟ جتنی چاہیں وہ داد سمیٹیں کسی کو اعتراض نہ ہونا چاہیے۔ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ مگر قوم نے اتفاق رائے سے کیا تھا۔ پاکستان کے جوہری ارتقا میں میاں صاحب کا حصہ کسی حکمران سے زیادہ کیا‘ شاید کسی کے برابر بھی نہیں۔ رہی فوج تو اس نے کبھی اس پر داد نہیں مانگی۔ یہ مگر بے سبب نہیں کہ ماضی کی المناک غلطیوں کے باوجود آج‘ اسّی فیصد کے لگ بھگ لوگ پاک فوج کی پالیسیوں سے مطمئن ہیں۔ نون لیگ کی تائید زیادہ سے زیادہ کتنی ہو گی۔ 32,30 فیصد؟ تاریخ اس باوقار آدمی جنرل عبدالوحید کاکڑ کا قدوقامت متعین کرے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیشکش کے باوجود توسیع قبول کرنے سے‘ جس نے انکار کر دیا۔ امریکیوں کے اشارے پر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا کہ جوہری پروگرام پہ اگر وہ سمجھوتہ کر سکیں تو مارشل لا پہ اعتراض نہ ہو گا۔
جنرل کاکڑ‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے پاس گئے تھے کہ وہ ٹھوس ایندھن کا‘ طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل بنائیں۔ ڈاکٹر صاحب بولے: میں نے ننگی آنکھ سے میزائل کبھی دیکھا تک نہیں۔ پاکستانی فوج جدید ادارہ ہے‘ سول محکموں کی طرح منہدم اور پامال نہیں۔ نک سک سے درست تازہ ترین اور ضروری معلومات‘ اس کے سربراہ کو مہیا رہتی ہیں۔ سپاہی کا جواب یہ تھا: آپ کی ٹیم بہت اچھی ہے۔ اس ٹیم نے سوا دو سال میں ٹھوس ایندھن کا جدید ترین میزائل‘ مکمل کر دیا۔ بھارتی سائنس دانوں کو ایسا ایندھن بنانے ہی میں پانچ برس لگے۔ یہ پاکستانی فوج ہی ہے‘ جس نے دنیا کے بہترین ٹینکوں میں سے ایک ٹینک بنایا… الخالد! جدید لڑاکا طیارے بنانا شروع کیے۔ اسی کی اعانت سے وہ چھوٹے جوہری بم بنے جو بڑا دفاعی حصار ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو قوم نے بالآخر مسترد کر دیا‘ ہر اس حکمراں کی طرح جو برتر اخلاقی ساکھ کا حامل نہ تھا۔ قومی ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی بہرحال انہوں نے بخشی‘ وگرنہ نواز شریف کے سابق دور میں تو اس میڈیا گروپ کا پولیس نے ہفتوں گھیرائو کئے رکھا‘ جو آج ان کا بھونپو ہے۔ ان کے اقتدار میں دفاعی تحقیق کا ایسا بہت سا کام بھی ہوا‘ جو مستقبل میں آشکار ہو گا۔ ایسا اور اس قدر شاندار کہ قوم اس پہ فخر کر سکے گی۔ ان سائنس دانوں اور سپاہیوں پر قوم فخر کرے گی‘ سیاست دانوں کی طرح‘ جنہوں نے کبھی جھولی پھیلا کر داد نہ مانگی۔ بہت سی چیزیں میرے علم میں ہیں۔ صرف واہ آرڈی ننس فیکٹری میں بننے والے ایک پستول کا ذکر کرتا ہوں‘ جو دروازے اور دیوار کے پیچھے ہدف کو دیکھ سکتا‘ نشانہ کر سکتا ہے۔ انکل سام سمیت عالمی طاقتوں کا دبائو اگر نہ ہو تو مشرق وسطیٰ اور افریقہ سمیت چھوٹے ممالک کی اکثر افواج ہمارے بعض اسلحہ کو ترجیح دیں۔
سالِ گزشتہ ایک سفارت کار دوست کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر دیکھا۔ مجھے دیکھ کر وہ خوش نہ ہوا۔ شبہ گزرا تو بہلایا۔ خبر ملی کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کی اہم شخصیت کو خاموشی سے اپنے ساتھ لایا ہے۔ انہیں کچھ ایسی فوجی خریداری کرنا تھی‘ چند ممالک ہی جس میں ہمارے ہم سر ہیں۔
بھارت نواز ایک اخبار میں کل غلام اسحاق خان پہ تبرا کیا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے۔ ایسا ہی اس نیک بخت لکھنے والے کو کرنا چاہیے تھا۔ اپنے مرحوم والد کے جنازے میں شریک ہونے سے اس شخص نے انکار کر دیا تھا۔
پاکستان دنیا میں ایک دمکتا ہوا ستارہ بن جائے‘ اگر وہ معاشی صف بندی کر سکے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا بھر میں اقتصادی ارتقا سول حکومتوں کے ادوار میں ہوا۔ بعض برباد ریاستوں میں تو خیرہ کن‘ مثلاً جرمنی‘ کوریا‘ سنگا پور‘ ملائیشیا‘ ترکی اور چین وغیرہ۔ پاکستان میں معاشی ترقی اگر ہوئی تو فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں۔ کیا سپاہیوں کا کام کارخانہ داری اور کاروبار ہوا کرتا ہے؟ یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ریل کا وزیر جب چین سے ناقص یا امریکہ سے دس ملین ڈالر کا مہنگا انجن خریدنے پہ مصر تھا تو جنرل کیانی نے کوریا سے ایک ملین ڈالر کا انجن ڈھونڈ نکالا تھا۔ بالکل وہی‘ مگر ری کنڈیشنڈ۔ خریدا انہوں نے بالکل نہیں‘ اس میں یافت کیا ہوئی؟
سول حکومتوں نے تو ہمیں اسحاق ڈار دیئے‘ جو اعداد و شمار میں فریب دہی کرتے ہیں؛ چنانچہ جرمانہ چکانا پڑتا ہے۔ فیصل آباد کے صنعت کاروں سے جنہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی صنعت کے مسئلے حل کرنے کی بجائے‘ عالمی منڈی سے وہ ایک فیصد سود پر وہ قرض کیوں نہ لے لیں؟ جی ہاں‘ وہ سب کا سب وزیر اعظم اپنی مرضی سے خرچ کر سکتے ہیں۔ چاہے مولانا فضل الرحمن کی فرمائش پر یونیورسٹیاں اور بنوں میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنائیں۔ چاہے ارکان اسمبلی کو 20-20 کروڑ عطا کریں۔ ڈار صاحب ان دنوں کرسی پر بیٹھے اونگھتے رہتے ہیں۔ کوئی ملنے نہیں آتا۔
ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور انصاف سے مراد انصاف ہے۔ حقیقی عدل‘ انتقام نہیں‘ قصاص۔ جتنا جرم‘ اتنی سزا۔ اسی طرح ان کے لیڈر نواز شریف کے ساتھ بھی۔
نواز شریف کے جارحانہ رویّے سے گمان نہ ہو کہ وہ بہت طاقتور ہیں۔ پوری ذمہ داری سے عرض کرتا ہوں کہ میاں صاحب اور ان کے شور و غوغا کرنے والے ساتھی خوف زدہ ہیں۔ نفسیات کی اصطلاح میں Over sensitive reactive in fear کہا جاتا ہے۔ وسوسوں اور اندیشوں کی یلغار میں وہ بگٹٹ ہیں۔ رہیں گے نہیں۔ فوج نے اچھا کیا کہ ماضی کی طرح ایک پارٹی کو ادھیڑنے سے گریز کیا۔ عدلیہ اور عسکری قیادت اگر عدل‘ اعتدال اور سلیقہ مندی پر قائم رہی تو بحران نمٹ جائے گا۔ احتساب بجا‘ خرابی تب جنم لیتی ہے‘ جب انتقام کی آرزو دانش کو چاٹ جائے۔ طاقت کا نشہ توازن بگاڑ دے۔
امام زین العابدین کا وہی ارشاد: کوفہ ایک شہر نہیں‘ ایک خاموش اُمّت کا نام ہے۔ جہاں بھی ظلم ہو اور اُمّت خاموش رہے‘ وہ جگہ کوفہ اور وہ لوگ کوفی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے