کچھ یادیں

دوسری جنگ عظیم کے دوران‘ سوویت یونین ‘ امریکہ‘ کوریا‘ جاپان‘ فارموسا اورزرد رنگ کی انسانی نسلوں نے‘ دونوں ہاتھوں سے خوب دولت کمائی۔ اس وقت تک ‘جنوب مشرقی ایشیا میں آباد زرد رنگ کی کئی قومیں بکھری ہوئی تھیں۔ برصغیر میں گدھوں کی خوب دیکھ بھال اور آئو بھگت کی جاتی تھی۔پاکستانی اور اس سے مماثل دیگر قومیں‘ ٹماٹر بڑے شوق سے استعمال کرتی ہیں۔ چین اور پاکستان کے تعاون سے‘ قرا قرم ہائی وے بنی تو پاکستان سے ‘ گدھوں کو بھاری تعداد میں چین بھیجا جانے لگا اوروہاں سے گردونواح کی زردقو میں ‘ سمگل کر کے بازاروں میں فر وخت کرنے لگیں ۔ چین کے باشندے‘ سانپوں کا گوشت بھی‘ ذوق و شوق سے کھاتے ہیں۔جاتی امرا کے قریب ایک صنعتی زون بھی بنایا گیا ہے۔ جب وہاں پلاٹ فروخت ہو رہے تھے تو میں نے ‘دو کنال کا ایک پلاٹ ‘ پوری قیمت دے کرخریدا اور وہاں گدھے رکھ کر ان کا گوشت برآمد کرنے کے منصوبے بنانے لگا۔ وہاںاس وقت تک‘ سڑکیں نہ بنی تھیں۔ نہ زیر زمین پانی کی سپلائی کا انتظام تھا اور نہ ہی بجلی آئی تھی۔ میں انتظار کرنے بیٹھ گیا کہ کب ساری سہولتیں مہیا ہوں اور کب اپنا کاروبار شروع کروں؟ جلد ہی عقل کو لگام ڈالنے میں کامیاب ہوا تو گدھوں کے لئے خریدا گیا صنعتی پلاٹ‘ فروخت کرنے نیم سرکاری کمپنی کے دفتر پہنچا اور پلاٹ اسی کمپنی کو اسی بھائو بیچ دیا‘ جتنے میں خریدا تھا۔ میری تجارت اسی قسم کی ہوتی ہے۔

میرے والد صاحب نے جو پولیس میں ملازم تھے۔ مجھے تجارت کے گر سکھائے۔ زرعی زمین کے تھوڑے سے حصے میں ہم نے پیاز بویا اور سارا خاندان دعائوں میں لگ گیا کہ پیاز کی فصل اچھی ہو جائے۔ فصل اتنی زیادہ اچھی ہوئی کہ پیاز سو روپے بوری میں بکنے لگا۔پیاز کی یہ فصل ہمارے گلے پڑ گئی۔ منڈی میں پیاز انتہائی سستے ہوگئے۔ دکاندار سبزی کے ساتھ‘ پیاز مفت دینے لگے۔ابا جی کو اگلی فصل کی فکر پڑگئی۔ انہوں نے سارے پیاز کھیتوں سے نکال کر‘ گھر میںجمع کر لئے۔ گھر کے دو تین کمروں میں پیازکا ذخیرہ کر لیا اور پورے خاندان کے لئے ایک نیا کام نکل آیا۔ہر ہفتے ہم سب بچے بڑے مل کر‘ پیازکو ہوا لگانے میں مصروف ہو جاتے۔یہ ہوا اس لئے لگوائی جاتی کہ پیاز کمروں کے اندر پڑے پڑے گل نہ جائیں۔ ہمارا کام یہ تھا کہ گلے ہوئے پیازوں کو نکال کر الگ کرتے اور باقی ماندہ پیاز محفوظ کر لیتے۔ہم نے جان توڑ محنت کرکے‘ گلے ہوئے پیاز باہر پھینکے اوربچ رہنے والے پیازوں کوصحیح سلامت محفوظ کر لیا۔ ہم پیاز کی فصل کھیتوں میں اگاتے۔جب وہ پک جاتی تو پھر کھیتوں سے گھر لا کے رکھ دیتے۔ پیاز کے ان ڈھیروں کو ہاتھوں سے‘ چن چن کر الگ کرتے۔ ہم نے بھی کوئی صحت مند پیاز گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔آخری پیاز بھی جب تک گل سڑ نہ گیا اسے گھر میں حفاظت سے رکھا۔

ابا جی ریاستی پولیس کے ملازم تھے۔ ہمارا گھر فیروزپور سے صرف ستائیس اٹھائیس میل دور تھا۔ وہاں سے دو بڑی ریلوے لائنز نکلتی تھیں۔ ایک بہاولنگر سے ہوتی ہوئی ‘سمہ سٹہ اور دوسری فیروزپور سے لاہور کی طرف نکل جاتی۔ ریاست بہاولپور میں ہر طرف امن و امان تھا۔ وہاں قتل و غارت گری کا ابھی تعارف نہیں ہوا تھا۔ہمارے خاندان نے بہاولنگر میں اتر کے‘ ایک گھر کرائے پر لے لیا۔ جب فساد کی لہر اس دور اذکار شہر تک پہنچی تو ہندو اور سکھ‘ افراتفری کے عالم میں‘ ہندوستان کی طرف جانے لگے۔ ان کے خالی گھروں پر مقامی مسلمانوں نے قبضے کرنے شروع کر دئیے۔ابا جی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم پہلے سے ہی‘ایک مسلمان کے گھر میں کرایہ دار بن چکے ہیں۔پڑوس میں ایک تحصیلدار صاحب رہتے تھے۔ ان کا گھرکافی بڑا تھا۔ اب اندازہ لگاتا ہوں تو پتہ چلتاہے کہ وہ گھر آٹھ دس کنال میں ضرور ہو گا۔ تحصیلدار صاحب بھی بڑے نیک آدمی تھے۔ ایک دن ہمارے گھر تشریف لائے اور ابا جی کو مشورہ دینے لگے کہ آپ یہاں کرائے پر بیٹھے ہیں۔ خدا نہ کرے ‘بے گھر ہونے والے

ہندو سکھ‘ آپ کو نکال دیں۔ میں نے تو گھر کی حفاظت کے لئے ‘آٹھ دس آدمی کھڑے کر دئیے ہیں۔ آگے اللہ کی مرضی۔اب وہ باتیں یاد آتی ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ہندو اورسکھ اپنی جانیںبچانے کے لئے‘ ہندوستان کی طرف جا رہے تھے۔ ہمیں اپنی پڑ گئی تھی۔ تحصیلدار صاحب اور میرے ابا جی کو یہ ڈر تھا کہ ہندو ہمارے گھرپر قبضہ نہ کر لیں۔

ابا جی نمازوں کے ساتھ ‘ تہجد بھی پڑھا کرتے تھے۔نماز پڑھنے کے لئے‘ لکڑی کی ایک چوکی صحن میں رکھی جاتی اور گھر کی حفاظتی دیوار‘ آٹھ نو فٹ اونچی تھی۔ ابا جی کی نماز والی چوکی قریباً ڈیڑھ فٹ اونچی تھی۔جب ابا جی فجر سے پہلے تہجد کی نماز پڑھتے تو اس وقت ہندو خاندان‘ اپنا سامان باندھ رہا ہوتا۔ اگلے دن ابا جی مشاورت کے لئے تحصیلدار صاحب کی طرف گئے اور ان کو بتایا کہ جب میں تہجد پڑھتا ہوں تو دیوار کے پار‘ ہندووں کے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ رات کو تہجد پڑھتے وقت پڑوسی ہندووں کی بے پردگی ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگرانہوں نے یہ سمجھ لیا کہ میں ان کے گھر جھانکتا ہوں تو اچھا نہیں لگے گا۔ تحصیلدار صاحب نے جواب دیا کہ” میرا گھر کافی بڑا ہے۔ آپ بچوں کو لے کر میری طرف کیوں نہیں آجاتے؟‘‘ابا جی نے کچھ سوچا اورتحصیلدار کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”اب خطرے کی کوئی بات نہیں۔میں بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کروں گا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے