صرف اسلامی پاکستان

گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران میڈیا کے ذریعے ایک ایسے طبقہ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جو روشن خیالی ، ترقی پسندی، آزادی رائے اور انسانی حقوق کے نام پر پاکستان کو اس کی اسلامی اساس سے دور کرنا چاہتا تھا۔ ماضی میں ممکن نہ تھا لیکن اس دوران ٹی وی پر اس طبقہ کے نمائندوں کو بٹھا کر نہ صرف اسلامی نظریہ پاکستان کو کھلے عام رد کیا جاتا رہا بلکہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی عام بات کی جانے لگی۔ اس طبقہ نے مزید زور پکڑا جب اسلام کے نام پر شدت پسندوں نے دہشتگردی کا یہاں بازار گرم کیا اور ہزاروں معصوموں کی جان لے لی۔ یہ حالات اُن لوگوں کے لیے بہت مشکل ہو گئے جو اسلام کی بات کرتے، جو یہ مطالبہ کرتے کہ پاکستان تو اسلام کے نام پر بنا، ہمارا آئین بھی اسلامی تو پھر پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ کیوں نہیں کیا جا رہا۔ کوئی اگر اسلام اور شریعت کی بات کرتا تو فوری پہلے یہ سوال اٹھایا جاتا کہ کون سی شریعت؟ اور پھر جواب بھی خود ہی دیتے کہ طالبان کی شریعت جس میں لوگوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں، سکولوں کو بمبوں سے اڑایا جاتا ہے، خودکش دھماکے کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی اسلامی امہ اور خلافت کی بات کرے تو جواب ملتا ہے کہ کون سی خلافت، داعش کی خلافت۔ گویا ان سالوں میں دہشتگردی اور شدت پسندی نے اس طبقہ کے اس قدر ہاتھ مضبوط کیے کہ میڈیا میں بیٹھ کر اسلام کی بات کرنا مشکل بنا دیا گیا۔

میڈیا کے ذریعے تاثر ایسا دیا جانے لگا جیسے یہ طبقہ جو بات کرتا ہے وہی اکثریت کی سوچ ہے۔ اسی طبقہ کی طرف سے پھیلائے جانے والے بیانیے نے ہماری سیاسی جماعتوں، ممبران پارلیمنٹ اورحتی کہ حکومتوں پر اتنا دباو ڈالا کہ میڈیا پر آ کر حق بات کرنے پر حکومتیں تک کترانے لگیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں پنجاب حکومت کے ایک وزیر صاحب کی طرف سے طالبات کو پردے کی ترغیب دینے کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں میں حاضری میں پانچ فی صد رعایت دینے کی بات ہوئی تو میڈیا کے ذریعے اس مثبت اقدام کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ چلایا گیا جیسے کہ وزیر صاحب نے کوئی جرم کر دیا ہو۔

وزیر اعلیٰ تک کی طرف سے صفائیاں دی جانے لگیں۔ کسی نے یہ نہ بتایا کہ پردے کا حکم تو اللہ تعالٰی نے دیا بلکہ کہا یہ گیا کہ دنیا پاکستان کے بارے میں کیا سوچے گی۔ مشرف دور سے ہی پہلے پہل تواشاروں کنایوں اور پھر کھل کر بھی یہ باتیں بھی کی جانے لگیں کہ ریاست کو کیا حق پہنچتا ہے کہ کسی کو غیر مسلم قرار دے۔ نام نہاد روشن خیال اور ترقی پسند طبقہ کا ہی اثر تھا کہ ن لیگ جیسی سیاسی جماعت نے بھی لبرل پاکستان اور ترقی پسند پاکستان کی باتیں شروع کر دیںجبکہ پی پی پی کی نئی قیادت تو ذولفقار علی بھٹو صاحب کے اسلای آئین کی روح کے برعکس سیکولر پاکستان کی باتیں کرنے لگی۔

لیکن اللہ کا کرنا دیکھیں کہ دس پندرہ سال کا پروپیگنڈہ، پاکستان کو لبرل اور سیکولر بنانے کی کوششیں، ریاست کو مذہب سے جدا کرنے کی باتیں سب کچھ پارلیمنٹ کی ختم نبوت سے متعلق انتخابی قوانین میں تبدیلی کے حالیہ واقعہ سے دھرا کا دھرا رہ گیا۔ پوری پاکستان قوم نے اس تبدیلی کو مسترد کیا اور وہ بھی ایسے کہ قانون سازی کے چند گھنٹوں کے اندر اندرحکومت اور پالیمنٹ کو پتا چل گیا کہ اُن سے ایسی غلطی ہو گئی جو کسی صورت پاکستان کے مسلمانوں کو قبول نہیں۔ گھنٹوں میں فیصلہ ہو گیا کہ غلطی واپس ہو گی۔ دو دن کے اندر اندر قومی اسمبلی کے ذریعے ترمیم واپس ہو گئی اور اب سینٹ کا اجلاس بلا کر پہلے والی صورت کو بحال کر دیا جائیگا۔ حکومت کی طرف سے معاملہ کی انکوائری کا بھی حکم دے دیا گیا جبکہ مختلف ن لیگی وزراء کی طرف سے عوام کو یقین دہائی کرائی گئی کہ یہ ایک غلطی تھی اور یہ کہ ایسا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک وزیرصاحب نے تو یہ تک کہہ دیا کہ مسلم لیگ ن تو ایک مذہبی جماعت ہے ۔ یہ بات سن کر میں حیران ہوا اور سوچا موقع ملا تو ان وزیر صاحب سے ضرور پوچھوں گا کہ اس ـ’’اسلامی جماعت‘‘ نے گزشتہ چار سالہ اپنی حکومت کے دور میں اسلام کے نفاذ کے لیے کیا کچھ کیا؟؟؟

گزشتہ چند دنوں سے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے جو سن رہا ہوں اُس کے تناظر میں میری درخواست ہو گی کہ انتخابی قانون میں ترمیم کے اس نازک معاملہ میں سیاسی جماعتوں کو سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی یہ احتیاط لازم ہونی چاہیے کہ جب تک اس معاملہ کی انکوائری مکمل نہیں ہوتی اور اصل صورت حال سامنے نہیں آتی کسی پر سازش کا الزام نہ لگایا جائے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس معاملہ نے پاکستان کے عوام کی اسلام سے محبت کو ایک بار پھر جگا دیا اس لیے میری حکومت اور پارلیمنٹ سے درخواست ہے اسلام کے نام کو اپنی اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے کی بجائے آئین پاکستان کی روح کے مطابق اس ملک کو اسلای فلاحی ریاست بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ آخر کب تک آئین کی اسلامی شقوں پر عملدرآمد کرنے سے روگردانی کی جاتی رہے گی؟؟ آخر کب تک پاکستان کے عوام سے یہ دھوکہ کیا جاتا رہے گا۔ یہاں علمائے کرام اور اسلامی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی اصل تعلیمات سے عوام کو روشناس کریں تاکہ ہمارے معاشرہ میں اسلامی اصولوں کے مطابق امن، برداشت، بھائی چارہ، انصاف قائم ہو تفرقہ بازی، شدت پسندی اور ایک دوسرے کو اختلافات کی بنیاد پرکفر اور قتل کے فتوے دینے کا رواج ختم ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے