میں اعتراف کرتا ہوں

کوئی دس برس پرانی بات ہے، امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں لیڈر شپ کے موضوع پر لیکچر سننے کا اتفاق ہوا، لیکچر دینے والے اُس امریکی پروفیسر کا نام تو اب مجھے یاد نہیں مگر اس کی شخصیت خاصی بھاری بھرکم تھی، قد چھ فٹ تھا مگر دیکھنے میں سات فٹ کا لگتا تھا، رنگ گورا، آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ اور چہرے پر بچوں کی سی معصومیت۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ واحد لیکچر تھا جس کے دوران مجھے نیند نہیں آئی، پروفیسر نے کچھ اس طرح ہمیں اپنی گفتگو کے سحر میں مبتلا کیا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اُس لیکچر کی ایک بات مجھے آج تک نہیں بھولتی کہ پروفیسر اپنی تمام تر قابلیت اور علمیت کے باوجود چند فقرے دہراتا رہا کہ ’’ممکن ہے میں غلط ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ میرے نظریات سے اختلاف کریں۔ میری رائے میں یہ بات درست نہیں مگر آپ کی رائے کا میں احترام کرتا ہوں!‘‘ مگر دوسری طرف مجھ ایسے شرکاء جب سوال کرتے تو ہماری بات عموماً اِس جملے سے شروع ہوتی کہ ’’آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ میں یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں۔ مجھے اپنی کہی ہوئی بات کے بارے میں رتی برابر بھی شبہ نہیں!‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے اس ڈنگر پن سے پروفیسر بہت متاثر ہوا اور لیکچر کے اختتام پر اُس نے کہا کہ میرے لئے یہ بات ناقابل یقین ہے کہ آپ لوگ اپنے نظریات میں اس قدر راسخ ہیں، کاش میرے پاس بھی اتنا علم ہوتا کہ میں حتمی طور پر کوئی رائے قائم کرسکتا۔ اُس وقت ہم سمجھے کہ امریکی کو پچھاڑ لیا ہے مگر تھوڑی دیر بعد (کم از کم مجھے) احساس ہوا کہ کچھ ’’بزتی‘‘ ہو گئی ہے۔ امریکی پروفیسر کی بات دل میں کُھب گئی، غیر محسوس طریقے سے اُس مرد عاقل نے ہمیں احساس دلایا کہ جن نظریات کے بارے میں آپ اس قدر حتمی انداز میں گفتگو کر رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ غلط ہوں؟ ہماری رائے کی بنیاد جن معلومات پر ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ معلومات ہی سرے سے ناقص ہوں؟ اور بحث کے دوران غراتے ہوئے جو دلائل ہم دیتے ہیں، اس کا امکان ہے کہ اُس سے زیادہ وزنی دلائل مدمقابل کے پاس ہوں جنہیں ہم سننا ہی نہیں چاہتے؟
بطور پاکستانی ہم ایک ایسی زرخیز قوم ہیں جس کا دودھ پیتا بچہ بھی عالمی معاملات میں دوٹوک رائے رکھتا ہے۔ ثبوت کے طور پر اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ قومی اور بین الاقوامی معاملات پر ایسا ایسا شاہکار پڑھنے کو ملتا ہے کہ روح سرشار ہو جاتی ہے، لکھاری چاہے زندگی میں چونیاں سے آگے نہ گیا ہو مگر اپنا مضمون یوں شروع کرے گا کہ ’’ٹرمپ کی حالیہ پالیسی کے بعد یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ امریکہ اب پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کو خطے میں زیادہ اہمیت دیتا ہے، دراصل یہ ہماری تزویراتی پالیسی کی غلطی ہے کہ ہم افغانستان میں ٹماٹر اگاتے رہے جبکہ ہمیں وہاں گاجریں کاشت کرنی چاہئے تھیں۔۔۔!‘‘ ایسے لکھاری بھی ہیں جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں مگر اُن کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ قطعیت کے ساتھ ایسے بات کرتے ہیں گویا ان کا تجزیہ حرف آخر ہے۔ ٹاک شوز کی بھی یہی کہانی، ایسی قطعیت کے ساتھ ہمارے دانشور گفتگو کرتے ہیں جیسے سات سمندرو ں کا علم گھول کر پی چکے ہوں، یقیناً ایسا ہی ہوگا اور شاید اسی لئے اُن میں سے کچھ کو قابلیت کا ہیضہ ہو چکا ہے۔ میں نے آج تک کسی اخبار میں نہیں پڑھا اور کسی ٹاک شو میں نہیں سنا کہ کوئی کہے کہ فلاں معاملے پر میں نے پہلے جو رائے دی تھی وہ غلط تھی، میرے سامنے کچھ مزید حقائق آ گئے ہیں سو اب میں اپنی رائے تبدیل کرتا ہوں حتیٰ کہ وہ لوگ جو اپنی پارٹی بدل لیتے ہیں، وہ بھی یہ بات کہنے کی ہمت نہیں کرتے بلکہ الٹا دو متضاد باتوں کا جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ پہلے بھی میں ٹھیک تھا، اب بھی میں ہی ٹھیک ہوں۔ گویا جیسے پیدا ہوئے ویسے ہی فوت ہوں گے۔ لیکن کسی سے کیا گلہ کرے کوئی، یہاں تو آپ راہ چلتے کسی تانگے والے کو روک کر اورنج ٹرین کے بارے میں پوچھیں تو وہ بھی پوری قطعیت کے ساتھ آپ کو بتائے گا کہ کہاں سے اورنج ٹرین زمین دوز گزرنی چاہئے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے نظریات اس قدر راسخ ہیں، کیوں ہم کبھی اپنی غلطی ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی شخص کے تمام افکار اول و آخر درست ہوں؟ اس رویے کی وجوہات خاصی دلچسپ ہیں۔ ہم یہ ماننے میں ہتک محسوس کرتے ہیں کہ ایک سال پہلے جس شدو مد کے ساتھ ہم جو بات کرتے تھے آج کس منہ سے اُس بات کی نفی کر دیں، ہمیں اس میں اپنی بے عزتی محسوس ہوتی ہے، ہمارا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے لوگوں کی نظروں میں ہماری عزت گھٹ جائے گی۔ اِس رویے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ جس منہ سے آپ غلط بات کرتے تھے اسی منہ سے اگر آپ درست بات کریں گے تو اس میں آپ کی ہتک نہیں ہوگی بلکہ علم دوست لوگوں میں عزت بڑھے گی۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہم ایسے کسی برملا اعتراف کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں کیونکہ ایک موضوع پر ہم اس قطعیت کے ساتھ گفتگو کر چکے ہوتے ہیں کہ اس سے واپسی کا راستہ ہمیں اپنی دانشوری کی توہین لگتا ہے۔ ہم یہ ماننے میں بھی اپنی ذلت محسوس کرتے ہیں کہ جن نظریات پر ہمارے بڑے بوڑھے کاربند تھے اور جنہیں بعد میں ہم نے پورے یقین سے اپنایا، وہ کیسے غلط ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ غلط ہیں تو اس کا مطلب ہماری نسل کی توہین ہے اور یہ ہمیں منظور نہیں۔ ہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر ان پرانے اور روایتی نظریات کے باغی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر اُن کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ جن نئے نظریات کا وہ پرچار کرتے ہیں ان کے معاملے میں بھی اسی طرح کا سخت گیر رویہ اپنا لیتے ہیں جس سے اُن کی بغاوت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
بات کہیں دور نہ نکل جائے سو واپس آتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جن افکار کو آج میں درست سمجھتا ہوں عین ممکن ہے کل کو مجھے ان کی نفی میں کوئی بڑی دلیل مل جائے یا اس کا بھی امکان ہے کہ آج جس نظریے کا میں پرچارک ہوں وہی غلط ہو۔ اب کیا کیا جائے؟ ایک طریقہ تو وہی ہے جو اُس امریکی نے سکھایا کہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ذہن میں سوچ لیں کہ آپ کی رائے غلط ہو سکتی ہے اور آپ کے مخالف کی درست، سو اگر آپ کھلے ذہن کے مالک ہیں، سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور دماغ کی کھڑکیاں بند نہیں تو آپ کو فوراً اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کہاں صحیح اور کہاں غلط تھے۔ اصل بات مگر اس بات کا اظہار کرنا اور اعتراف کرنا ہے کہ آپ کے نظریات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے، اپنی زندگی کی سمت درست کرنے کے لئے یہ ادراک بہت ضروری ہے۔ فرد کی طرح قومیں بھی اکثر غلط سمت کا تعین کرتی ہیں مگر احساس ہو جانے پر رجوع کرلیتی ہیں۔ بدنصیب ہے وہ قوم جو تاریخ میں غلط سمت کا انتخاب کرتی ہے، ہزیمت اٹھاتی ہے مگر اس کے باوجود اسے اپنی سمت درست کرنے کا ادراک نہیں ہوتا۔
کالم کی دُم:ذوالفقار بھٹو جونیئر کے زنانہ لباس میں ناچنے پر چند ماہ پہلے میں نے ایک کالم لکھا تھا جس میں اُن کی اِس بات کو میں نے جنسی کج روی کہا تھا اور آزادی اظہار کے اس انداز پر تنقید کی تھی۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں غلط تھا۔ کہاں اور کتنا غلط تھا؟ یہ بات پھر کسی کالم میں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے