ہمارے سابق وزیراعظم‘ میاں نوازشریف مسلسل پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا؟‘‘ ترقی یافتہ ملکوں کے بینکوں کے سامنے سے‘ جب کوئی پاکستانی گزرتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے ”مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔اگر میاں صاحب اور ان کے خاندان کو‘ بینکوں کی شاخوں کے سامنے سے گزرنا پڑے تو اندر سے آواز آتی ہے ”مجھے کیوں نہیں نکالا؟‘‘جتنا روپیہ سابق وزیراعظم‘ میاں نوازشریف کے خاندان پر مسلط ہوا ہے‘ اس کا امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مسٹر ٹرمپ نے زندگی کا بڑا حصہ دولت کمانے میں لگایا ۔ جب وہ امریکہ کے صدر بنے تو ان کے پاس اپنا کمایا ہوا‘ کافی سرمایہ موجود تھا اور آج بھی ہے۔لیکن امریکی صدر اور ہمارے سابق وزیراعظم میں ایک فرق ہے۔صدر ٹرمپ کے پاس جو کچھ ہے‘ اپنا ہے البتہ قومی خزانے میں اس سے ہزاروں گنا زیادہ دولت پڑی ہے لیکن ان کے کام نہیں آتی۔جب مسٹرٹرمپ اپنے اقتدار کے چار سال پورے کریں گے تو ہو سکتا ہے وہ دوسری بار بھی صدر بنیں‘ تو امکان ہے کہ ان کی ذاتی دولت میں کمی آچکی ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ جب امریکی صدر‘ دو باریاں لے کر فارغ ہوتا ہے تو وہ کبھی نہیں کہتا کہ ”مجھے کیوں نکالا؟‘‘وہ خدا کا شکر کرتا ہے کہ امریکی آئین نے ”مجھے نکال دیا‘‘۔ہمارے سابق وزیراعظم نے تین باریاں لیں اور ہر باری میں‘ ٹرمپ سے زیادہ دولت کمائی۔ پھر بھی شکوہ کرتے پھر رہے ہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا؟‘‘اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے۔ ہمارے وزیراعظم کو تین چھوٹی چھوٹی باریاں ملیں لیکن مجموعی طور پر‘ امریکی صدر کی دو باریوں کے مقابلے میں ‘ ان کا ”دورِ دولت‘‘ زیادہ ہے ۔ امریکی صدر دو باریاں لگا کر بھی سوائے اپنی تنخواہ کے اور کچھ نہیں لیتا اور بعض صدور تو پوری تنخواہ لے کر بھی خسارے میں رہتے ہیں۔ بہر حال اقتدار میں آنے کے بعد‘ امریکی صدر کی آمدنی کم ہو جاتی ہے۔ مسٹر ٹرمپ اپنی ذات ‘ خاندان اور دوستوں کے لئے جو کچھ کرتے ہیں‘اس کے اخراجات وہ جیب سے ادا کرتے ہیں۔
ہمارے ہر دلعزیز بڑے میاں صاحب‘ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں ‘ جاتی امرا کے بھاری بھرکم کچن پر ایک روپیہ بھی نہیں لگاتے۔جب ملازمین ٹرک لے کر سامان خریدنے آتے ہیں تو دکاندار پوچھتا ہے کہ ” کیاآج صاحب بہادر کے گھر زیادہ مہمان آرہے ہیں؟‘‘
”مہمان تو صاحب کے آرہے ہیں۔تمہارا رنگ کیوں اڑ گیا ؟‘‘
”رنگ تو ہمارا ہی اڑتا ہے۔ پولیس سے لے کر وزیراعظم تک سب کا خرچ‘ ہم غریبوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے‘‘۔
جاتی امرا میں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی‘ تیس چالیس ساتھیوں کے ہمراہ ہمارے سابق وزیراعظم کے مہمان بنے تو دیگیں بھری کی بھری رہ گئیں۔مودی نے تھوڑا سا رائتہ‘ ابلے ہوئے چاولوں کے ساتھ کھایا اور مونچھوں میں پھنسے ہوئے دو تین تنو مند چاولوں کو ‘ دستر خوان کی میز سے ٹشو پیپر اٹھا کر‘ منہ سے جھاڑتے دیکھ کر‘ میاں صاحب نے مہمان سے پوچھا کہ ”کیا آپ صرف اتنا ہی کھاتے ہیں؟‘‘میزبان وزیراعظم نے خود ہی جواب دے ڈالا”ا س سے زیادہ تو ہمارے نوکر کھا جاتے ہیں‘‘۔
”کمال ہے؟‘‘مودی نے کہا۔” آپ ا پنی تنخواہ سے مہمانوں کو اتنا کھانا کیسے کھلا دیتے ہیں‘‘؟
میاں صاحب نے جواب دیا” تنخواہ سے کچھ خرچ نہیں کرتا۔اللہ کا شکر ہے وزیراعظم ہائوس میں جو کچھ بھی پکتا ہے‘ اس کا بوجھ میری جیب پر نہیں ہوتا‘‘۔
”کیا آپ کی تنخواہ اتنی ہی کم ہے‘‘؟
ہمارے وزیراعظم نے ایک سینما سکوپ ڈکار لیتے ہوئے جواب دیا”ہم خوش خوراک لوگ ہیں۔ اپنا کھائیں تو آپ سے بھی کم خوراک کھاتے ہیں البتہ دعوتوں میں جائیں تو میزبان کا دل رکھنے کے لئے‘ دو چار پلیٹیں زیادہ ہی کھا لیتے ہیں‘‘۔
”ایسی کون سی خوراک ہے؟‘‘
”آپ کو ابھی تک اندازہ نہیں ہوا؟‘‘
” ہمیں تو اندازہ ہے مگر آپ کو نہیں۔ آپ کو اندازہ ہوتا تو کیا کشمیر ہمارے لئے چھوڑتے؟ حیدر آباد ہمیں ملتا؟سویٹ ڈش کی طرح ‘جونا گڑھ سے ہم لطف اندوز ہوتے؟‘ ‘مودی نے کھری کھری سنا دیں۔
”آپ بھول گئے؟‘‘
”وہ کیا؟‘‘
”وہ ہے مشرقی پاکستان‘‘۔
”مشرقی پاکستان آپ کا تھا۔ آپ نے حلق میں انگلی مار کے قے کر دی ۔‘‘
”ہم دولت کوبڑے احترام اور عقیدت سے محفوظ کر لیتے ہیں‘‘۔
” آپ اتنی دولت کہاں رکھتے ہیں؟‘‘
”ہمارے بینک اکائونٹس ساری دنیا میں ہیں‘‘
”اپنے کسی بینک میں نہیں؟‘‘مودی نے تعجب سے پوچھا۔
” محفوظ دولت وہی ہے جو بیرونی بینکوں میں پڑی ہو۔ اپنے ملک میں دولت رکھنے کا کیا فائدہ؟ ہمیں وزیروں‘ مشیروں‘ افسروں اور سیاسی اتحادیوں جیسے کہ مولانا فضل الرحمن ‘ان سب کی جیبیں بھرنا پڑتی ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام اسی طرح چلتا ہے‘‘۔