مسنگ پرسنزاورحکومتی پالیسیاں

موت سب کو آنی ہے، موت کا دکھ بھی سب سہتے ہیں، لیکن خدا نہ کرے کہ کسی کے عزیزو اقارب میں سے کوئی لاپتہ ہو جائے، اس وقت یہ دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے جب لاپتہ ہونے والوں کو محض شک و شبہے کی بنیاد پر اغوا کر لیا جائے۔ شنید یہ ہے کہ بعض لوگوں کو محض اپنی نوکری کی دھاک بٹھانے کے لئے بھی اغوا کر لیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی کم فکر کو کسی طریقے سے حکومت مل گئی ، اس نے برسر اقتدار آتے ہیں اپنے آبائی علاقے میں کرفیو نافذ کروادیا، کرفیو کی وجہ سے لوگ بھوک، پیاس اور بیماریوں سے مرنے لگے ، جب کافی لوگ مر کھپ گئے تو اس نے کرفیو ہٹانے کا حکم دیا، کسی نے ظلِّ الٰہی سے سوال کیا کہ سرکار کرفیو لگانے کی وجہ کیا تھی؟

ظلِّ الٰہی نے مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ مجھے کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔

ابھی یہی حال ہمارے ہاں عوام کا ہو رہا ہے، ایجنسیوں کے چھوٹے موٹے اہلکار کسی کو گھر سے، کسی کو دکان سے، کسی کو گاڑی سے، کسی کو مدرسے سے، کسی کو راستے سے پکڑ کر لے جاتے ہیں، کسی پر فیس بک چلانے کا، کسی پر تقریر کرنے کا ، کسی پر فون کرنے کا ، کسی پر فون اٹینڈ کرنے کا ، کسی پر نعرہ لگانے کا اور کسی پر رات گئے گھر سے نکلنے کا الزام ہے ، ان ملزموں کے بارے میں اعلی افسران کو یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ یہ سب ملک دشمن عناصر اور را کے ایجنٹ ہیں۔

جب ان بے چاروں کو دھر لیا جاتا ہے اور ان کےبارے میں مزید کوئی ملک دشمنی کا ثبوت بھی نہیں ملتا تو انہیں مستقل طور پر گم ہی کردیا جاتا ہے۔

یوں اعلی حکام سمجھتے ہیں کہ ملک دشمنوں پر گرفت ڈالی جارہی ہے جبکہ نچلا طبقہ لوگوں پر اپنا رعب جمانے میں مصروف رہتا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ بلوچوں میں کچھ علیحدگی پسند دھڑے بھی ہیں لیکن کیا یہ بات بھی ٹھیک نہیں کہ بلوچوں کی اکثریت، محبِّ وطن اور ملک و ملت کی وفادار ہے ، پھر کیوں بلوچوں میں بحیثیت ِقوم، خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔۔۔!؟

برجستہ ملک دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ، عام بلوچوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور عام بلوچوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔

ممکن ہے اس ظالمانہ رویے سے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں کچھ لوگوں کا رعب تو جم جائے لیکن یہ رویہ ملک و قوم کے حق میں نہیں ہے۔ ہماری ملکی سلامتی کے ذمہ داروں کو اعلی سطح پر بیٹھ کر اس رویےّے کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
اس سے کسی کو انکار نہیں کہ دہشت گردی کے ٹریننگ حاصل کرنے والے لوگ ملک کے لئے خطرہ ہیں لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ خود ہماری حکومتوں نے جہاد کے نام پر دہشت گردی کے مراکز قائم کئے اور بعض دینی مدرسوں کو اسلحے سے لیس کیا۔ اب اسی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر لوگوں کو لا پتہ کیا جارہا ہے کہ فلاں کو فلاں نے فون کیا تھا اور فلاں کی فلاں کو کال آئی تھی۔

لوگوں کو لاپتہ کرنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسی واضح کرے اور دہشت گردی کے مراکز کو سیل کر دے چونکہ سارے جہادی مراکز ہماری حکومت کی سرپرستی میں ہی چل رہے ہیں۔ماضی میں دہشت گردوں کی تربیت کرنے والے ایک مرکزی مدرسے کو تیس کروڑ کی گرانٹ تک دی گئی ہے۔

لہذا اگر حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہے تو عوام کو اغوا کرنے کے بجائے ، دہشت گردوں کے مراکز کو سیل کرنے میں سنجیدگی دکھائے۔ابھی حالیہ دنوں میں ہی قومی اسمبلی کےاراکین کےدہشت گردوں سے تعلقات پر مبینہ آئی بی فہرست کیخلاف وزراء اور حکومتی ارکان واک آوٹ بھی کر چکے ہیں۔ ہم اس فہرست کے بارے میں صرف اتنا تبصرہ کریں گے کہ جب کہیں سے دھواں اٹھتا ہے تو آگ بھی لگی ہوتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کتنے ہی لوگوں کو اس بہانے سے مختلف مقامات سے اٹھا لیا گیا ہے کہ ان میں سے فلاں عراق میں اور فلاں شام میں جنگ لڑنے کے لئے گیا تھا، ہم اپنے ملک کی سلامتی کے ذمہ دار اعلیٰ حکام سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے جوانوں کو ملک سے باہر جا کر لڑنے کا راستہ کس نے دکھا یا ہے۔۔۔!؟

جن لوگوں نے پاکستانی جوانوں کو جہاد کے نام پر مسلح کیا ہے اور انہیں پاکستان سے باہر جاکر لڑنے اور پاکستان کے اندر ایک ریاست تشکیل دینے پر ابھارا ہے ، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں، لہذا یہ انتہائی مذموم فعل ہے کہ اصلی مجرموں کی تو دست بوسی کی جاتی ہے اور انہیں اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے راہیں ہموار کی جاتی ہیں اور غریب لوگوں کے بچوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے۔

یہ غریبوں کی اولاد ، یہ بے کسوں کے بچے ، یہ سالہا سال سے لاپتہ جوان، چاہے سندھی ہوں، پنجابی ہوں، پٹھان ہوں، بلوچ ہوں، شیعہ ہوں یا سنی ہوں ، یہ سب ہمارا سرمایہ اور مستقبل ہیں۔

ہمارے اداروں کو چاہیے کہ انہیں اغوا اور لاپتہ کرکے پیشہ ور مجرم بنانے کے بجائے انہیں دہشت گردی کے بحران سےنکالنے میں ان کی مدد کریں اور ان کے اخلاق و کردار کی تعمیرِ نو کریں۔

ہم ارباب علم و دانش اور صاحبانِ اقتدار کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کا علاج دہشت گردی سے نہیں ہو سکتا، لوگوں کو اغوا اور لاپتہ کرنا یہ خود ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔

دہشت گردی کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے مقابلے میں دہشت گردی کرنے کے بجائے، مناسب حکمتِ عملی کے اعتبار سےسابقہ حکومتوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے اور اصلی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈال کرعوام کو خوشحالی، امن اور سکون کا پیغام دیا جائے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اغوا اور لاپتہ ہونے والے لوگوں سے غلطیاں نہیں ہوئیں لیکن بحیثیت پاکستانی ہم یہ گلہ کرنے کا تو حق رکھتے ہیں کہ سرکاری ایجنسیاں بھی وہی غلطیاں دہرا رہی ہیں۔اگر کچھ لوگ قانون کے ساتھ عدم تعاون کے مرتکب ہیں تو سرکاری ادارے تو قانون کی پابندی کریں اور لوگوں کو قانونی کارروائی کے لئے عدالتوں میں پیش کریں۔

اس وقت گم شدہ لوگوں کے لواحقین کی طرف سے جیلیں بھرو تحریک ہمارے اندر اس احساس کو بیدار کرنے کے لئے ہے کہ موت کا دکھ تو سبھی سہہ لیتے ہیں، لیکن خدا نہ کرے کہ کسی کے عزیزو اقارب میں سے کوئی لاپتہ ہو جائے، کاش یہ احساس ہمارے ریاستی اداروں کے اعلیٰ حکام میں بھی بیدار ہوجائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے