میرے کان میں کون کیا کہہ رہا ہے؟

ناصر ہنستے ہنستے ایک دم خاموش ہو گیا اور پھر اس نے کہا ’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں تھوڑی دیر پہلے کیوں ہنس رہا تھا؟‘‘ میں نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور کہا ’’تم اس لئے ہنس رہے تھے کہ ہنسنا بہت آسان ہے جبکہ رونے کے لئے خاصی ریاضت کی ضرورت ہے!‘‘
’’ہاں! میرے خیال میں تم صحیح کہتے ہو‘‘ ناصر نے ایک بار پھر ہنستے ہوئے کہا ہم لوگ خاصے آرام طلب ہو گئے ہیں۔ میں نے چند برس قبل ایک موقع پر رونے کی کوشش کی تھی مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکا چنانچہ میں نے پھر ہنسنا شروع کر دیا۔ میری دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ہنسنے لگے۔ میں تو تھوڑی دیر بعد تھک ہار کر خاموش ہو گیا مگر وہ ہنستے چلے گئے۔ ان میں سے کئی تو ابھی تک ہنس رہے ہیں۔ کیا تم یہ دبی دبی ہنسی نہیں سن رہے؟!‘‘
’’ہاں سن تو رہا ہوں مگر میں سمجھا کہ یہ شاید میری اپنی آواز ہے۔ دراصل آوازیں بھی گڈمڈ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کبھی کبھی تو دوسروں کی آوازیں اپنی آوازیں ایسی لگنے لگتی ہیں اور کبھی اپنی آواز پر دوسروں کی آواز کا گمان گزرتا ہے۔ لیکن کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ جو ہنسنے کی آواز آ رہی ہے، یہ میری آواز نہیں؟‘‘
’’تم نے تو مجھے بھی شک میں ڈال دیا ہے۔ اب تو یہ آواز مجھے اپنی لگنے لگی ہے۔ ذرا کان لگا کر سنو۔ اگر یہ میری آواز ہے تو اس کو منع کرو۔ میں ہنسنا نہیں چاہتا‘‘
’’لیکن تم کیوں ہنسنا نہیں چاہتے’’ میں نے پوچھا۔ ’’آخر ہنسنے میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘
’’ہاں یار تم ٹھیک کہتے ہو۔ دراصل ہم لوگ ہنسنا اور رونا بھول چکے ہیں۔ یہ آوازیں ذرا غور سے سنو، نہ ہنسنے والوں کو ہنسنا آتا ہے اور نہ رونے والوں کو رونا آتا ہے!‘‘
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ مگر تم یہ کیسے ٹھیک کہتے ہو؟‘‘
’’مجھے ان کی شکلیں نظر آ رہی ہیں۔ وہ دیکھو ان میں سے کچھ لوگوں کے منہ اور کچھ کے بال کھلے ہیں۔ کیا تم انہیں نہیں دیکھ سکتے؟‘‘
’’نہیں میں نہیں دیکھ سکتا۔ ہم میں سے ہر شخص کچھ عرصے کے لئے بینا رہتا ہے پھر نابینا ہو جاتا ہے۔ میری بینائی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کیا تم انہیں واقعی دیکھ سکتے ہو؟‘‘
’’ہاں میں انہیں واقعی دیکھ سکتا ہوں۔ وہ بھی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں کہو میری طرف نہ دیکھیں۔ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ میں ان دونوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
’’میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میری بینائی کا عرصہ گزر چکا ہے مجھے صرف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ شکلیں دکھائی نہیں دیتیں۔ مجھے تو تم بھی دکھائی نہیں دیتے۔ تم خاموش کیوں ہو گئے ہو۔ بولو، میرے لئے تمہاری موجودگی تمہاری آواز سے ہے!‘‘
’’ہم اتنے عرصے سے جو گفتگو کر رہے ہیں۔ کیا اس سے ہماری موجودگی کا احساس ہوتا ہے؟‘‘
’’تم یہ بات کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’بس ایسے ہی، مجھے لگتا ہے۔ یہ باتیں ہم نہیں کر رہے کوئی اور کر رہا ہے۔ اگر تم اپنی بینائی واپس لا سکتے ہو تو میری طرف دیکھو۔ اگر میں تم سے باتیں کر رہا ہوں تو میرے ہونٹ کیوں نہیں ہلتے؟‘‘
’’ہاں یار، ہونٹ تو میرے بھی نہیں ہل رہے تو پھر یہ باتیں کون کر رہا ہے؟‘‘
’’مجھے لگتا ہے، کمرے میں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے!‘‘
’’ان ہنسنے اور رونے والوں کے علاوہ؟‘‘
’’کون سے ہنسنے اور کون سے رونے والے تم کن لوگوں کا ذکر کر رہے ہو؟‘‘
’’ہاں یار! یہ میں کن لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ یہ شاید ہم اپنے بارے میں کہہ رہے تھے۔‘‘
’’کیا یہ ہم اپنے بارے میں کہہ رہے تھے؟‘‘
’’نہیں، ہم دونوں تو ایک عرصے سے نہ ہنسے ہیں اور نہ روئے ہیں یا شاید یہ کہ دل کھول کر ہنسے ہیں۔ جی بھر کر روئے ہیں۔ اب تو کچھ یاد نہیں پڑتا۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو آئو اپنے اپنے چہرے کھونٹی پر ٹانگ کر ذرا آرام کریں۔ بہت تھک گئے ہیں۔ ‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے