اچھا ہوا،خوش گمانی کا تو خاتمہ ہوا!
میںخوش گمان تھا کہ سماج ارتقاکے مراحل سے گزررہا ہے۔ اہلِ مذہب نے جان لیا ہے کہ یہ مناظرے کا نہیں مکالمے کا دور ہے۔ امام غزالی کی بصیرت نے تو بہت پہلے اس رازکو پالیا تھا۔ وہ خود مدتوں اس وادی میں بھٹکتے رہے۔ آخرکاران پر منکشف ہواکہ یہ کارِعبث ہے۔ رجوع کیا اور اِس دنیا کو خیرباد کہا۔انور شاہ کاشمیری فقہ حنفی کی برتری کا علم بلند کرتے رہے۔ پھر جانا کہ کیا مشغلہ تھا جس میںشب وروز برباد کر ڈالے۔ یہ بھی کوئی کام تھا کرنے کا!اپنے ایک شاگردِ رشید کے سامنے اس کا اعتراف کیا۔
میں نے گمان کیا کہ ہر بات میں اماموں اور اسلاف کے حوالے دینے والوں نے ان آئمہ اورعلما سے یہ تو ضرور سیکھا ہوگا کہ مناظرہ کوئی کارِخیرنہیں۔لیکن اب اندازہ ہوا کہ یہ میری خوش گمانی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ناموں کے ساتھ لوگوں نے پروفیسر اور ڈاکٹرکاسابقہ تو لگا لیا لیکن ذہن آج تک انہیں وادیوں میں بھٹک رہا ہے،جنہیں دنیا مدت ہوئی چھوڑ چکی۔ان کا خیال ہے کہ مناظرہ سے دنیا بدل جائے گی۔ان کو یہ بات سمجھائی نہیں جا سکتی کہ دنیا کو مناظرہ بازوں نے نہیں،اہلِ علم اور اہلِ اخلاص نے بدلا ہے۔ سب سے بڑی مثال پیغمبر ہیں۔جاہلوں سے اعراض کرنے والے اور مجادلے سے دور رہنے والے۔اللہ نے متوجہ کیا کہ مجادلے کی ضرورت پڑ جائے تو بھی احسن طریقہ اختیارکرنا ہے۔پیغمبر تو داعی ہوتے ہیں۔داعی سر تا پامخاطب کا خیرخواہ ہوتا ہے۔مناظرہ باز سر تا پا دوسرے کی رسوائی کا خواہش مند۔
مناظرہ کبھی مدارس میں پڑھایا جاتا تھا بطورِ فن۔ سکھایا جاتا تھا کہ فریقِ مخالف پر کیسے فتح پانی ہے۔ جیت کے داؤ پیچ سکھا ئے جاتے تھے۔ دوسرے کو رد کیسے کرنا ہے اور اس کے تضادات کو کیسے نمایاں کرنا ہے؟ کیسے مان کر نہیں دینا اور دلائل تراشنے ہیں۔ یہ ایک فن تھا ، اخلاقیات سے بے نیاز۔ مقصدحق تک پہنچنا نہیں ، صرف مخالف کو پچھاڑنا ہوتا ہے۔ وقت نے فتویٰ دیا کہ یہ شکست خوردہ لوگوں کا ایک مشغلہ ہے۔ زندگی اپنی بنیاد حقائق پر رکھتی ہے۔ یہ کچھ اصولوں کے تابع ہے۔ ان سے موافقت پیدا کرنے ہی میں بقا کا راز مضمر ہے۔ دنیا نے اس راز کو سمجھا اور آگے نکل گئی۔ ہم خود شکستگی کی تصویر بن گئے۔
مناظرہ صرف مذہب کے میدان میں نہیںہوتا، سیاست میںبھی ہو تاہے۔ ٹی وی چینلز کے سٹیج پرجواہلِ سیاست سرِ شام نمودارہوتے ہیں، وہ سیاسی مناظر ہیں۔ وہ دلیل کے نام پر الفاظ کی گولہ باری کرتے ہیںکہ فریقِ ثانی کوکم از کم مجروح ضرور کردیں۔ پھر وہ اس’فتح‘ پر اپنے سیاسی راہنماؤں سے داد سمیٹتے ہیں۔ ناظرسوچتا رہ جاتاہے کہ آج میدان کس کے ہاتھ رہا۔ تفریح کے لیے یہ سب اچھا ہے، مگر سماج کا سیاسی ارتقا؟ یہ اہلِ سیاست کا مسئلہ ہے نہ میڈیا کا۔میں اس گمان میںرہا کہ معاشرہ شعورکی منازل طے کر رہا ہے۔
اسی طرح میں خوش گمان تھا کہ سیاسی نزاع کے باب میں انسان کا اجتماعی شعورصدیوں پہلے جس نتیجے تک پہنچاہے، ہم بھی آج اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں۔نظمِ اجتماعی کی اہمیت سمجھنے کے بعد،انسان کو ہمیشہ یہ مسئلہ درپیش رہا کہ کسی فرد کاحقِ اقتدارکیسے ثابت ہو؟بادشاہت اورآمریت کی مختلف صورتوں کو برداشت کر نے کے بعد،اس نے جانا کہ اس کا سب سے بہتر طریقہ جمہوریت ہے۔یہ حق عوام کو سونپ دینا چاہیے کہ وہ خود اپنے لیے حکمرانوں کا انتخاب کریں۔
یہ حق و باطل کا فیصلہ نہیں تھا،محض ایک تنازعے سے پرامن طور پر نمٹنا تھا۔دنیا نے اس پر اجماع کر لیا کہ معاشرے کو سیاسی فساد سے بچانے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔میرا گمان تھا کہ صدیوں بعد ہی سہی،ہم نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے۔میں خیال کرتاتھا کہ مارشل لا کا امکان اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا۔میرا گمان تھا کہ اموی، عباسی اور عثمانی خلفا کو دیکھنے کے بعد،اب خلافت کے نام پر مذہبی آمریت کو مسلط کرنے کا تصور بھی ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گا۔
معلوم ہوا کہ یہ بھی میری خوش گمانی تھی۔آج بھی جمہوریت کی مذمت میں مضامین لکھے جاتے اور ابو بکر بغدادی جیسے خلفا کے گن گائے جاتے ہیں۔آج بھی لوگ سیاسی حکمرانوں سے فوجی آمروں کا موازنہ کرتے اور آمروں کو بہتر ثابت کرتے ہیں۔ آج بھی مارشل لاکا خیر مقدم کرنے والے موجود ہیں،حتیٰ کہ عدالتیں بھی اپنے فیصلوں میں مارشل لا کو جائز کہتی ہیں۔آج بھی اہلِ سیاست کے خلاف مہم چلائی جاتی اور ان کے متبادل سامنے لائے جاتے ہیں۔
میں اس باب میں بھی خوش گمان تھا کہ سیاسی مقاصد کیلئے مذہب کے سوئے استعمال کا زمانہ اب گزر گیا۔ایک دور تھا جب سوشلزم کو کفر قرار دے کر ،اس کے نام لیوا مسلمانوں کے ایمان کو مشتبہ بنا دیا جا تا تھا۔میرا خیال تھا کہ اب عورت کی حکمرانی جیسے مسائل قصہ پارینہ ہیں۔اب اندازہ ہوتاہے کہ یہ بھی میری خوش گمانی تھی۔
مذہب کو آج بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔آج بھی نوازشریف صاحب کے خلاف مذہبی بنیادوں پر مہم چلائی جا رہی ہے۔لوگ ان کے قتل کا اعلان کر رہے ہیں۔ایسے لوگوں کی زبان روکنا تو دورکی بات کہ یہ ریاست کا کام ہے،کوئی مذمت پر بھی آمادہ نہیں۔عدالت بھی خاموش ہے کہ کیا کرے ؟ملک کو کرپٹ سیاست دانوں سے بچانے کا اہم فریضہ سرانجام دے،یا ایسے غیر ضروری مسائل میں وقت ضائع کرے۔ ریاست اور سماج بھی گنگے ہو چکے۔
یہ بھی میری خوش گمانی تھی کہ اس ملک کے دانش ور فکری بلوغت کے بہت سے مراحل طے کر چکے۔اب وہ شخصی پسند اور ناپسند سے بلند ہوسکتے ہیں۔ کبھی جن کی تحریریں،اس خیال سے پڑھی جاتی تھیں کہ کوئی فکری تازگی ملے گی،وہ تعصبات میں اپنی ہی تردید پر مصر ہیں۔وہ ان نظری چراغوں کو بجھا رہے ہیں جنہیں کل خود انہوں نے جلا یا تھا۔ان کے ممدوح افراد ہی نہیں تصورات بھی تبدیل ہوچکے۔یہ کوئی فکری تبدیلی ہوتی تو اس کا خیرمقدم کیا جاتا۔صاف دکھائی دیتا ہے کہ محض ایک فرد کی مخالفت مقصودہے۔
اہلِ دانش کے بارے میں یہ گمان بھی تھا کہ وہ اس سماج کو درپیش حقیقی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔وہ یہ جانتے ہیں کہ ریاست اور سماج میں کیا فرق ہے ۔انہیں معلوم ہے کہ سیاسی تبدیلی سے سماج تبدیل نہیں ہوتے۔ میرا گمان تھا کہ وہ اس فرق سے قوم کو آگاہ کریں گے اور سیاسی استحصال کے خلاف آواز آٹھائیں گے۔
آج میں اس گمان سے نکلتا جا رہا ہوں۔حقائق کچھ اور بتا رہے ہیں۔اب مجھے حیرت نہیں ہو گی اگرکل مارشل لا لگتا ہے۔دو روز پہلے آرمی چیف نے ملک کی سیاست اور معیشت پر جو تقریر کی،میرے کانوں نے کسی سرکاری ملازم کا ایسا خطاب پہلے نہیں سنا۔اگر ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنتی ہے تو بھی میرے لیے یہ اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔اگر نوازشریف کو دین کا باغی ثابت کرنے کے لیے لاہور سے کوئی لانگ مارچ چلتا اور اسلام آباد میں آکر دھرنا دیتا ہے توایسا ممکن ہے۔اگر مذہبی بنیادوں پر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ہدف بن سکتے ہیں تو نوازشریف کیوں نہیں؟
ملک اور معاشرہ اس کے بعد کس صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں،اس وقت یہ کسی کا مسئلہ نہیں۔آج سب سے اہم مسئلہ نوازشریف اور ان جیسے کرپٹ سیاست دانوں سے ملک کونجات دلاناہے۔’نوازشریف جیسے‘ وہی ہیں جو ان کے ساتھ ہیں۔دوسروں کی کرپشن بڑا مسئلہ نہیں۔یہ مسئلہ حل ہو گیا تو مذہبی انتہا پسندی اور آمریت جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل چٹکی بجاتے ہوئے حل ہوجائیں گے۔بس ایک بار ‘صاف ستھری قیادت‘ سامنے آجائے،جیسے بھی آئے۔
اے ارباب حل و عقد! اے اہلِ دانش!اے اہلِ دین!آپ سب کا شکریہ کہ آپ مجھے گمان سے حقیقت کی اس دنیا میں لے آئے۔