برادر عزیز راجہ صاحب کو گلہ رہتا ہے کہ درویش سخن گسترانہ بات کالم کے آخری پیراگراف تک چھپائے رکھتا ہے۔ یک سطری رائے پڑھنے کے لئے پورے کالم کے تالاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ نوٹنکی کے ٹانڈے کی ہانک پہ جو بچہ بالک جمع ہوتے ہیں انہیں مشتری بائی کی ایک جھلک دکھا کر پردہ گرا دیا جاتا ہے۔ آج ایسا نہیں ہو گا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر محترم وکیلوں کی طرف سے بد تہذیبی کے مظاہرے کا کوئی دفاع ممکن نہیں۔ اس کی غیر مشروط مذمت کرنی چاہئے۔ عدالت کی دہلیز پہ عدل کی زنجیر ہلائی جاتی ہے، دروازہ نہیں پیٹا جاتا۔ مقصد کیسا ہی عظیم کیوں نہ ہو، عدالت کا تقدس ہی باقی نہیں رہے گا تو اصول کی لڑائی دنگل میں بدل جائے گی۔ جمہوریت کی لڑائی زورآوری سے پنجہ آزمائی ہے۔ ہم نے تاریخ کی عدالت سے فیصلہ مانگا ہے۔ عوام کے ووٹ سے انصاف طلب کیا ہے۔ کمرہ عدالت کے دروازے پر کھڑے پولیس آفیسر کو تھپڑ مارنے سے یہ مقدمہ جیتا نہیں جا سکتا۔ دھونس کی فرد جرم میں ایک ضمنی بڑھا دی گئی ہے۔ یہ مشورہ کسی نادان دوست نے دیا ہے۔ عدالت عظمی میں بھٹو صاحب نے پھانسی گھاٹ کے سائے میں کھڑے ہو کر تین روز تک اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ اس تاریخی خطاب میں طالب علموں کے لئے بہت سے سبق ہیں۔ بھٹو صاحب کا اختتامی جملہ یہ تھا کہ ’دکھوں کی ماری جندڑی کی حکایت بیان کرنے کا موقع انہیں دیا گیا ہے، اب عدالت پھانسی کی سزا کی توثیق بھی کر دے تو انہیں گلہ نہیں ہو گا‘۔ ہمارا سرمایہ بھٹو صاحب اور ان رہنماؤں کی فراست ہے جو جانتے تھے کہ میدان جنگ کے بعد سب سے بڑی ناانصافیاں کمرہ عدالت میں ہوئی ہیں۔ کمرہ عدالت میں ہونے والی ناانصافیوں پر قول فیصل امام الہند محی الدین ابوالکلام آزاد نے کلکتہ کی عدالت کے سامنے فروری 1922ء میں دیا تھا۔ ’کمرہ عدالت ناانصافی کا قدیم ترین ذریعہ ہے۔ تاریخِ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں‘۔ سیاست کے کارزار میں ایک اور ربع صدی گزر گئی۔ 1946ء آن پہنچا۔ ابوالکلام آزاد کے ساتھ ناانصافی ختم نہیں ہوئی۔ اس کے چند منظر دیکھتے ہیں؛
علی گڑھ کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ آل انڈیا کانگریس کے صدر ابوالکلام آزاد کے ساتھ علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علموں نے گستاخی کی۔ مختار مسعود نے یہ سانحہ روایت کیا اور کسی ندامت کے بغیر یہ بھی لکھ دیا کہ وہ خود کمک کے طور پر آنے والے دستے میں شریک تھے۔ گویا موقع ملتا تو ان کا ہاتھ بھی مولانا کی ریش مبارک تک پہنچتا، افسوس! صد افسوس۔ جولائی 1946ء میں ہندوستان کے موعودہ دستور کے لئے جو اسمبلی منتخب ہوئی اس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 73 ارکان تھے۔ مسلم لیگ نے دستوریہ کا بائیکاٹ کر دیا۔ مولانا آزاد کانگریس کے رہنما تھا۔ اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔ بائیکاٹ کرنے والے ارکان برآمدے میں بیٹھ جاتے تھے۔ ایک صاحب مولانا کی آمد پر التزام سے آوازہ کستے تھے، ’میں تھوکتا ہوں‘۔ مولانا تحمل سے نظر انداز کرتے تھے۔ ایک روز جب یہی بے ہودہ جملہ دہرایا گیا تو ایک لمحے کو رکے اور بالکل سیدھ میں دیکھ کر فرمایا، ’اور میں تھوکتا بھی نہیں‘۔ سیاست میں جو تھوک پھینکا جاتا ہے وہ تاریخ کے دامن پہ جم جاتا ہے۔ ٹھیک پچیس برس بعد پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاؤالدین صدیقی پر ایک گستاخ نے ہاتھ اٹھایا تھا۔ مولانا سید مودودی نے اس پر معذرت کی تھی۔ نواز شریف آج کے پاکستان میں رہنما ہیں۔ عدالت کے باہر ہڑبونگ نواز شریف کے حامیوں نے کی ہے۔ میاں نواز شریف کو معذرت کرنی چاہئے۔
جمہوریت کی جدوجہد ریاست کے بے پناہ جبروت کے مقابل نہتے شہری کی دلیل ہے۔ ریاست مقدمہ قائم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ تفتیش کا بندوبست ریاست کے دائرہ اختیار میں ہے۔ الزام کی سماعت عدالت کو کرنا ہے۔ عدالت فیصلہ سنا سکتی ہے۔ انصاف کا احساس مسلط نہیں کر سکتی۔ فیصلہ سننے والے کمرہ عدالت سے نکل کر بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوا یا نہیں۔ ناانصافی طے شدہ معاملہ نہیں۔ عدالت مقدمے کا فیصلہ کر سکتی ہے، انصاف کا فیصلہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ انصاف مانگنے والے دھینگا مشتی، ہڑبونگ، فساد اور تشدد پر اتر آئیں گے تو انصاف کا چشمہ گدلا ہو جائے گا۔
معلوم نہیں کہ اگرتلہ سازش کیس کے حقائق اب ہم میں سے کتنوں کو یاد ہیں؟ مئی 1968ء میں اگرتلہ سازش کیس کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس ایس اے رحمان کو ننگے پاؤں عدالت سے نکلنا پڑا تھا۔ کمرہ عدالت سے ڈھاکا ائیرپورٹ تک کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ پاکستان کی عدالت عظمی کے چیف جسٹس کو جوتا پہنا دے۔ کراچی پہنچ کر جہاز میں چپل پہنچائی گئی اور جسٹس صاحب بخیر و عافیت گھر واپس پہنچے۔ ہم نے سانگھڑ کی عدالت میں قائد اعظم کی تصویر کے سائے تلے جج کو ہتھکڑی لگائی تھی۔ نومبر 1997ء میں جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں شریک کچھ چہرے اپریل 2002ء کے ریفرنڈم میں پرویز مشرف کے جلسوں کی نظامت کیا کرتے تھے۔ دیکھنے والی آنکھوں نے یہ دکھ بھوگا۔ سننے والے کانوں نے یہ اذیت سہی۔ تاریخ کی کتاب پر جو سیاہی گرائی جاتی ہے اس کے دھبے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ مارچ 2007ء میں عدالت عظمی کے باہر سڑک پر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بال نوچے گئے تھے۔ اسلام آباد میں شاہراہ دستور نے ہماری تاریخ میں ندامت کے بہت سے منظر محفوظ کر رکھے ہیں۔ یہ شرمندگی اب ختم ہونی چاہئے۔ شاہراہ دستور کو ریاست پاکستان کے شہریوں کا حساس اثاثہ قرار دینا چاہیے۔ شاہراہ دستور کی میراث لاہور کی ان تاریخی عمارتوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے جن کے تحفظ کے لئے اورنج ٹرین کا منصوبہ تعویق میں ڈال دیا گیا ہے۔ وکیل انصاف کے فریق نہیں ہیں، عدالت کے افسر ہیں۔ عدل کی کہانی سے تکبر اور تشدد کا عنصر نکال باہر کرنا چاہئے۔ احتساب عدالت کے دروازے پر کھڑے وزیر داخلہ احسن اقبال کے مجروح وقار کا تقاضا ہے کہ عدالت کی حفاظت پر متعین پولیس افسر کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ہماری تاریخ میں ایک شرم ناک باب ایزاد کیا گیا ہے۔ ہم کیسے عقل مند لوگ ہیں کہ پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر اشتعال بھرے نعرے بلند کرتے ہیں۔ عدالت کی دہلیز پر لام کاف کرتے ہیں۔ تس پر یہ کہ ووٹ کا تقدس مانگتے ہیں۔ ہم معتوب لوگ ہیں اور تاریخ کے عتاب کو آواز دیتے ہیں۔ مقدرات کی تقسیم میں جو دکھ بچ گئے تھے، انہیں بازار سے مول لاتے ہیں۔ آفرین ہے ہماری دانش پر، حیف ہے ہماری تہذیب پر۔