احتساب کا دائرہ

ملک میں ایک بارپھر ہرطرف احتساب کی بازگشت سنائی دے رہی ہے،گزشتہ سات دہائیوں میں دیگر وجوہات کے ساتھ اسی احتساب کا راگ الاپتے ہوئے جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا گیا اور منتخب وزرائے اعظم کو رسوا کیا جاتا رہا ہے۔ عموماً عام انتخابات کے انعقاد سے قبل احتساب کی ایسی دھول اڑائی جاتی ہے کہ اہم سیاست دانوں کے چہرے اس سے اٹ جائیں ،احتساب کی آڑ میں ٹیکنو کریٹ حکومت یا صدارتی نظام حکومت کے قیام کے وہی گھسے پٹے فارمولے یاد کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت کے باوجود مرضی کی تشریح جاری ہے، ہمیشہ کی طرح افواہ ساز فیکٹریاں اپنے بھونپوئوں کے ذریعے چیخ پکار کر کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ملکی سیاست کو بد عنوان سیاست دانوں سے پاک کرنے کے بعد ہی حقیقی جمہوریت کا قیام ممکن ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کرسات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کرنے والے آمر کی طرز پر احتساب کی لانڈری میں ایک بار پھر گندے عوامی نمائندوں کے تمام داغ دھو کر پیٹریاٹ اور ق لیگ کی صورت میں صاف ستھرے سیاست دان جنم دینے جیسی منصوبہ بندی کے راز افشاںکئے جا رہے ہیں۔ جعلی دستاویزات لہرا لہرا کر لاکھوں ووٹ لینے والے عوام کے حقیقی نمائندوں کو انہی کی نظروں میں گرانے کیلئے تمام حدود پار کی جا رہی ہیں۔ جن کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا نا ممکن ہے انہیں عدالتوں کے ذریعے نا اہل کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے،کبھی اقامے تو کبھی ایل این جی معاہدے کو اسکینڈل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے،کچھ نہ بن پائے تو نعوذ باللہ ختم نبوت کے قانون میں متنازعہ ترمیم جیسی تسلیم کردہ غلطی پر کفر کے فتوے لگا کر ہمیشہ کیلئے راستہ صاف کرنے جیسے حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ احتساب کے اسی نعرے کو بلند کرتے ہوئے اگرچہ منتخب جمہوری وزیر اعظم کو اقتدار سے بے دخل کیا جا چکا لیکن انا کی تسکین ہونا ابھی باقی ہے اس لئے احتساب عدالت میں ملزمان سے بلا امتیاز سلوک روا رکھنے کیلئے ناممکن کو ممکن بنایا جا رہا ہے۔

اقتدار والوں کو اختیار نہ دے کر حق حکمرانی عوام کودینے کا مطالبہ کرنے والوں کو ان کی اوقات یاد دلائی جا رہی ہے۔ اورتو اور ملکی معیشت پر ماہرانہ آرا دیکر سیاست دانوں اور سویلین حکومت کے ازلی نا اہل ہونے کا پرچاربھی کیا جا رہا ہے جس کی سخت ردعمل کے بعد وضاحت کر دی گئی ہے جو یقیناً خوش آئند ہے۔ قارئین کی یاداشت کیلئے انہی صفحات پربارہا نشان دہی کی ہے کہ… تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ جب سیاست دان سالوں گزر جانے کے بعد بھی ملک میں احتساب کا آزاد،غیر جانب دار،شفاف اور منصفانہ نظام وضع نہیں کر پائیں گے تب کٹہرے میں صرف وہی کھڑے ہوتے رہیں گے، بدعنوانی کا لیبل انہی کے ماتھے پر چسپاں کیا جاتا رہے گا، احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ انہیں ہی بنایا جاتارہے گا ، کرپشن کے الزام پر انہی کا بازو مروڑ کر مرضی سے ہانکا جاتا رہے گا، بلیک میلنگ کے ذریعے فارورڈ بلاک بنتے رہیں گے ،ہارس ٹریڈنگ ہو تی رہے گی اور قومی خزانہ لوٹنے کے الزامات پر منتخب وزیر اعظم گھر بھیجے جاتے رہیں گے۔ جمہوری حکومتیں ڈانواں ڈول ہوتی رہیں گی اور جمہوریت کی نائو ہچکولے کھاتی رہے گی۔ جرم ضعیفی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ جس وقت جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بطور چیئرمین قومی احتساب بیورو کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پارلیمنٹ کے باہرکھڑے یہ عزم ظاہر کررہے تھے کہ اب ملک میں بلاتفریق سب کا احتساب ہو گا،عین اسی وقت عوام کے اس نمائندہ ادارے کے اندر نیب کے نئے قانون کی تشکیل کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی میں بعض جماعتیں مجوزہ مسودہ قانون کومحض اس لئےمسترد کر رہی تھیں کہ اس میں سیاست دانوں اور سرکاری ملازمین سمیت اعلی عدلیہ کے ججز اور مسلح افواج کے افسران کو بھی احتساب کے دائرہ کار میں لانے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس تجویز کی سب سے بڑی حامی پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کا موقف ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کرتا ہے وہ پبلک آفس ہولڈر کے زمرے میں آئے گا اور وہ بھی ویسے ہی جواب دہ ہو گا جیسے سیاست دان یا سول بیوروکریسی کے افسران جواب دہ ہیں۔

میری اطلاعات کے مطابق دیگرچھوٹی جماعتوں سمیت ملک کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اس تجویز کی حامی تھیں کہ ججز اور جرنیلوں سمیت سب کواحتساب کے دائرے میں لایا جائے گا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے باعث اب حکمراں جماعت اپنے پائوں پیچھے کھسکا رہی ہے اور اس کا یہ حال ہے کہ سانپ کی ڈسی رسی سے بھی ڈررہی ہے،دوسری طرف گزشتہ ایک درجن سے زائد اجلاسوں میں مجوزہ مسودے کی ہر شق پر اتفاق رائے کرنے والی تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے قانونی مسودے کوحتمی شکل دینے کے مرحلے پراختلاف رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے، ان دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج میں احتساب کا اپنا طریقہ کار اور میکانزم موجود ہے اس لئے ان دونوں اداروں کو احتساب کے دائرہ کار میں لانیکی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی اسی موقف کی تائید کر دی ہے۔ جبکہ یہ دونوں ادارے خود بھی کسی بھی بیرونی احتساب پر تیار نہیں ہیں، ماضی میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے عدالت عظمیٰ کے اکاونٹس کی چھان بین کی حتی المقدور کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی،ادارے کے حسابات کی جانچ پڑتال تو دور کی بات پی اے سی رجسٹرار کوطلب تک نہیں کرسکی جس کے بعد پارلیمان اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو گئی۔ اعلیٰ عدلیہ کے اندورنی احتساب پر تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج نے بھی سوالات کھڑے کردئیے ہیں جن کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں تحقیقات کی گئی تھیں۔اسی طرح این ایل سی اسکینڈل ہو یا رائل پام کنٹری کلب اسکینڈل،ڈی ایچ اے بد عنوانی کا معاملہ ہو یا گزشتہ سال سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف سے چھ اعلی فوجی افسران کو کرپشن الزامات پر ملازمت سے برطرف کرنے کا معاملہ، داخلی معاملہ قرار دے کرعوام کو اس احتساب کی بھنک تک نہیں پڑنے دی گئی۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی نے 2009 میں این ایل سی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے کی کوشش کی تھی جس میں اسٹاک ایکسچینج میں 4 ارب 30 کروڑ روپے کی غیر قانونی سرمایہ کاری کی گئی تھی لیکن پیغام بھیجا گیا کہ وہ خود احتساب کریں گے جس پر چوہدری نثار جیسا چیئرمین پی اے سی بھی مٹی پاو فارمولے پر عمل کر کے وفاقی وزارتوں کے اکاونٹس کی چھان بین میں مصروف ہو گیا تھا۔

این ایل سی کیس میں دو اعلیٰ افسران کو سزا سنائی گئی تھی جس میں سے ایک کو سخت ناپسندیدگی کی سزا شامل تھی۔اسی طرح پرویز مشرف کے دور میں سال 2001 ءمیں پاکستان ریلویز کی 141 ایکڑ زمین غیر قانونی لیز معاہدے کے تحت رائل پام کنٹری کلب کو دے دی گئی اس میں چار اعلی افسران پر بد عنوانی کے الزامات عائد ہوئے ،نیب نے تحقیقات کیں اوردائر کرنے کیلئے ریفرنس بھی تیار کر لیا لیکن داخلی احتساب کے نظام کی وجہ سے وہ نوبت آج تک نہ آسکی۔ اب برس ہا برس بعد انہی سیاست دانوں کو جنہیں ہمیشہ ملک کا بد عنوان طبقہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے یہ موقع حاصل ہوا ہے کہ وہ احتساب کا ایسا قانون وضع کریں جو بلا امتیاز ہولیکن وہ ذاتی مصلحتوں اور مفادات کا شکار ہو کر اس نادر موقع کو گنوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ نو سال گزرگئے احتساب کا شفاف اور غیر جانبدار نظام کبھی سیاست دانوں کی ترجیح نہیں رہا جس کی قیمت پہلے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے وزرائے اعظم نے چکائی اور اب میاں نواز شریف چکا رہے ہیں۔ قانون سازوں نے اب بھی اگر ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سب کو احتساب کے دائرہ کار میں لانےپر اتفاق نہ کیا توکرپشن کا لیبل صرف سیاست دانوں پرچسپاں ہوتا رہے گا،احتساب کی چکی میں وہی پستے رہیں گےاورمنتخب وزیر اعظم گلے میں بد عنوانی کا طوق لٹکائے رخصت ہوتے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے