قارئین محترم! میں نے اردو ادب کے مشاہیر کے حقیقی ناموں کا جو ایک سلسلہ شروع کیا تو میرے چاہتے والوں نے میری توقعات سے بڑھ کر حوصلہ افزائی کی۔ ہمارے مشاہیر کی اکثریت کے حقیقی ناموں سے لوگ بالکل نا بلَد ہیں۔ میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں کہ ان مشاہیر کے اصل ناموں سے لوگوں کو روشناس کرواؤں۔ اس سلسلے میں چند مزید نام میرے احباب اور اردو ادب کے رسیا لوگوں کے لیے حاضر ہیں امید کرتا ہوں کہ اب کے بھی میری اس کاوش کو پسند یدگی کا خلعت بخشا جائے گا۔
ملا واحدیؔ :
اردو دنیا میں ملا واحدی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ واحدی مرحوم ہی تھے جو علامہ راشد الخیری کو کمرے میں بند کرتے اور ان سے زبردستی لکھواتے تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ملا واحدی کا اصل نام’’ سید محمد ارتضیٰ واحدی‘‘ ہے۔ آپ ۱۷، مئی، ۱۸۸۸ء کو دلی کے محلے کوچہ چیلدں میں سید محمد مصطفی کے گھر پیدا ہوئے۔ تقسیمِ برصغیر کے بعد کراچی آ گئے جہاں ۲۴، اگست ۱۹۷۶ء کو آپ کی زندگی کا چراغ گل ہوا۔
بہزاؔ د لکھنوی:
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
اس ضرب المثل شعر کو اکثر لوگ علامہ اقبالؔ اور کچھ جگرؔ مراد آبادی کا سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ بہزادؔ لکھنوی کی مشہور غزل کا مطلع ہے جس کو نیرہ نور نے اپنی خوب صورت آواز میں گا کر امر کردیا۔ بہزاؔ دلکھنوی کا حقیقی نام’’ سردار حسین خان‘‘ تھا۔۳۰ سے زائد شعری مجموعہ کے خالق نے یکم جنوری ۱۹۰۰ء کو لکھنو میں جنم لیا۔ ۴۵ سے زائد فلموں کے گیت لکھے۔ تقسیم کے بعد کراچی کا رخ کیا اور ۱۰، اکتوبر ۱۹۷۴ء کو اسی شہر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
اے دست کرم میرا ذمہ، اے دست سخا میرا ذمہ
اس در پہ ترے گر کوئی بھی، بہزادؔ سا سائل آ جائے
حسنؔ عابدی:
حسن ؔ عابدی کے نام سے شہرت پانے والے شاعر و ادیب کا حقیقی نام’ ’سید حسن عسکری عابدی‘ ‘تھا۔ وہ ۰۷، جولائی ،۱۹۲۰ء کو ظفر آباد ضلع جون پور میں پیدا ہوئے۔ صحافتی دنیا میں بھی آپ نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں اورنوشتِ نے وغیرہ جیسی تصانیف کے خالق نے ۰۶،ستمبر، ۲۰۰۵ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور شہرِ قائد میں سپرد خاک ہوئے۔
کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے
ماجدؔ صدیقی:
ضلع اٹک کے گاؤں نورپور میں محمد خان سیال کے ہاں یکم جون ۱۹۳۸ء کو ایک بچے کی ولادت ہوئی۔ اس بچے کا نام’ ’عاشق حسین سیال‘‘ تجویزکیا گیا۔ آگے چل کر اسی بچے نے ’ماجدؔ صدیقی‘ کے نام سے شہرت سمیٹی۔ بے شمار تصانیف کے خالق ماجدؔ صدیقی ۱۹، مارچ ۲۰۱۵ء کو راول پنڈی میں وفات پائی اور ریس کورس گراؤنڈ سے ملحقہ قبرستان میں منوں مٹی تلے ڈیرا جمالیا۔
فیصلہ کرنے کو ماجدؔ کون منصف آئے گا
مسئلہ الجھا ہوا ہے سر پھروں کے درمیاں
وقارؔ انبالوی:
علامہ اقبالؔ کے نام سے کئی ضرب المثل اشعار غلط طور پر منسوب ہوئے۔ انھی اشعار میں ایک شعر جس کو لوگ علامہ اقبالؔ سے منسوب کیے بیٹھے ہیں:
اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب ید اللھی اک سجدۂ شبیرہ
بھی ہے۔ بتاتا چلوں کہ یہ مشہور اور معروف شعر ایک ایسے شاعر کا ہے جس کو اردو دنیا وقارؔ انبالوی کے نام سے جانتی ہے۔ وقارؔ انبالوی ۲۲، جون، ۱۸۹۶ء کو چنار تھل ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام’ ’ ناظم علی‘‘ تھا۔ اپنے دور کے ایک اعلیٰ صحافی تھے۔ طویل عرصے تک روزنامہ نوائے وقت لاہور سے وابستہ رہے۔ڈراما نگاری ، کالم نگاری اور افسانہ نگاری بھی کی۔ نوائے وقت کا مقبول ترین کالم ’سرائے‘ وقارؔ انبالوی کے ہی قلم کا شاہکار تھا۔ وقار ؔ انبالوی ۲۶، جون ۱۹۸۹ کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے مل گئے۔
حسرتؔ عظیم آبادی:
عظیم آباد کی مِٹی کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس مٹی سے راسخؔ عظیم آبادی اور شادؔ عظیم آبادی سمیت کئی نام ور شعرا نے جنم لیا۔ عظیم آباد سے تعلق رکنے والے ایک معروف شاعر حسرتؔ عظیم آبادی بھی تھے۔ حسرت ؔ عظیم آبادی کا اصل نام’ ’ میر محمد حیات‘‘ تھا جب کہ ہیبت قلی خان کے خطاب سے نوازا گیا۔۲۸ ۔۱۷۲۷ء میں عظیم آباد میں پیدا ہوئے اور قریباً ۱۷۸۶ء میں واصل بہ حق ہوئے۔
حسرتؔ مرے احوال سے پروانہ کرے یار
خاطر میں کہاں فکرِ گدا شاہ کو گزرے
ظہیرؔ کاشمیری:
اردو کے ممتاز نقاد، شاعر اور صحافی ظہیرؔ کاشمیری کا جنم بہت بعد میں ہوا۔ ۲۱، اگست، ۱۹۱۹ء کو امرت سر میں’ ’ غلام دستگیر‘‘ کی ولادت ہوئی۔ظہیر ؔ کاشمیری کا کلیات’’ عشق ا نقلاب‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ اس کے علاوہ شیخ چلی ،آس پاس، غیرت مند وغیرہ سمیت کچھ فلمیں بھی لکھیں ۔’ روزنامہ مساوات‘ لاہور کے مدیر بھی رہے۔ ظہیرؔ کاشمیری نے بھرپور ادبی زندگی بسر کی اور بالآخر ۲،۱ دسمبر ۱۹۹۴ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔
آج اس شوخ کی چتون کا یہ عالم ہے ظہیرؔ
حسن اپنی ہی اداؤں سے خفا ہو جیسے
میر کلو عرشؔ :
خدائے سخن کے چھوٹے صاحب زادے میر کلو ۱۷۹۰ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام ’ ’میر حسن عسکری‘ ‘تھا۔ ابتدا میں اپنے لیے ’زار‘ تخلص کیا لیکن بعد ازاں ’عرش‘ سے بدل دیا۔ اپنے والد میر تقی میرؔ کے انتقال کے وقت عمر بیس برس تھی۔ میر کلو نے ۱۸۶۷ء میں لکھنو میں وفات پائی اور رکاب گنج میں دفن ہوئے۔
شہر یوسف کا خریدار نظر آتا ہے
لکھنو مصر کا بازار نظر آتا ہے
لاکھ تقلید کیجئے اے عرشؔ !
پر کب انداز میر آتی ہے
مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں