میرا ووٹ کسی کے لئے بھی نہیں

جیسے جیسے الیکشن قریب آتا جا رہا ہے اسی طرح سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور الیکشن کی گہما گہمی ہر محلے چوک اور پارک میں نظر آنے لگی ہے۔

جب مئی 2013 کا الیکشن ہونے جا رہا تھا۔ خیبر پختونخوا میں بلا کافی چوکے چھکے مار رہا تھا ماحول بہت گرم تھا۔ ہر کسی کے زبان پر ایک ہی نام تھاعمران خان اور اس کا انتخابی نشان بلا-

میں صحافتی کوریج میں مصروف تھا کہ گاوں کے دوست آئے اور گاڑی میں بٹھا کر ووٹ ڈالنے کے لیے لے گئے کہ ووٹ ڈال کر واپس آپکو مطلوبہ مقام پر چھوڑ آئیں گے۔

وہ مجھے جس امیدوار کا ووٹ ڈالنے کے لئے کہہ رہے تھے میں اسکے حق میں میں بالکل نہیں تھا ۔ سارے جانتے بھی تھے کہ یہ اس سیٹ کے لئے اہل نہیں ہے لیکن بلے کے نشے میں کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ کون کیا ہے؟ کیسا ہے؟ بس بلے پر ٹپہ لگاتے گئے۔

کاغذی کاروائی کے بعد میں پولنگ بوتھ گیا پرچی سامنے رکھی اور ٹپہ لگانے سے پہلے سوچا نشانات تو سارے پارٹیوں کے تھےلیکن جو جو امیدواران اس نشانات پر نامزد ہوئے تھے وہ اسکے اہل نہیں تھے۔ بہت دیر تک کھڑا سوچتا رہا کہ میں کیسے اپنی آواز اٹھاوں ان سیاسی لوٹوں اور ٹھیکیداروں کے خلاف۔ مگر افسوس میرے پاس کوئی ایسا موقع نہیں تھا کہ میں ایسا کرتا۔

اگر ہم ووٹ ڈالنے میں خودمختار ہیں تو پھر ہمیں یہ حق بھی دے دیا جائے کہ نشانات کے ساتھ ایک خانہ ایسا بھی ہو جس پر لکھا گیا ہو کہ "میرا ووٹ کسی کے لئے بھی نہیں۔”

ووٹ کا اصل مقصد تو اپنی پسند کا اظہار کرنا ہے تو جب ایک انسان کو میدان میں اترے ہوئے امیدواران میں سے ایک بھی پسند نہیں ہے تو چاہیے یہ کہ ہمیں پورا پورا یہ حق بھی دیا جائے کہ انتخاب میں ایسا خانہ بھی رکھا جائے جس میں یہ لکھا ہو کہ میرا ووٹ کسی کے لئے بھی نہیں۔

پاکستان کے آئین میں یہ کہا گیا ہے کہ اس ملک کا شہری اس معاملے میں خود مختار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی سیاسی پارٹی میں شمولیت اور جلسے جلوس میں شرکت کر سکتا ہے اور اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکتا ہے۔

آئین پاکستان کے تناظر میں ہم بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں خودمختاری کا یہ حق دے دیا جائے تاکہ ہمیں موقع مل سکے کہ ہم بھرپور طریقے سے اپنی را ئے کا اظہار کر سکیں۔

موجودہ ووٹ کی پرچی میں صرف وہ انتخابی نشانات پرنٹ ہوتے ہیں جسکے امیدواران میدان میں الیکشن میں اترے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں پر صرف ایک نقطہ ہے کہ اگر ووٹ میں ایک شہری خودمختار ہے تو بالفرض اگر ایک شہری کو میدان میں اترے ہوئے امیدواران میں سے کوئی بھی پسند نہ ہو تو اس صورت میں وہ کیا کرے گا۔

ووٹ ضائع کرنا بھی تو حب الوطنی اور اچھے شہری ہونے کا منافی ہے۔ تو ایسی صورتحال میں کم از کم شہری کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ حکومت اور الیکشن کمیشن کو بذریعہ ووٹ یہ بتا سکے کہ نامزد امیدواران انکے حلقے کے لئے ٹھیک نہیں ہیں۔

اگر ایک حلقے میں ٹوٹل ٹرن آوٹ کا 10 فیصد ووٹ "کسی کو بھی نہیں ” کے حصے میں آجاتے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ اس حلقے کے الیکشن کو کینسل کرے اور تمام امیدواران کی حثیت کو ختم کرے اور اس حلقے سے نئے امیدواران کو میدان میں آنے کا حکم نامہ جاری کرنا چاہیے۔ نئے امیدوارں کی تقرری کے بعد مطلوبہ حلقے میں الیکشن دوبارہ کرانا چاہیے۔

اس اقدام سے پاکستانی عوام کو فائدے ملیں گے ۔ پہلا یہ کہ پاکستانی شہریوں کو یہ موقع میسر آجائے گا کہ وہ ان ڈائریکٹ طریقے سے ان لوگوں کو مسترد کر دیں جو پاکستانی سیاست کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔

دوسرا یہ کہ اس اقدام سے عوام براہ راست سیاسی دباو سے بچ جائیں گے۔ مثال کے طور پراگر کچھ شہری اپنے حلقے میں کھل کے کسی امیدوار کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں تو پارٹی والے ان کے علاقے کے سارے ترقیاتی فنڈز بند کر دیتے ہیں۔ ان کے سارے کام تقریبا روک دیئے جاتے ہیں اسی وجہ سے بہت سارے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی دباو میں کسی نہ کسی کو ووٹ ڈال ہی دیتے ہیں۔ اسلئے میرا ووٹ کسی کا نہیں کا خانہ بہت ضروری ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے