سر رہ گزر اُٹھو کہ کوئی چال قیامت کی چل گیا!

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی یہ بات اہم اور قابل صد غور ہے کہ ایشیا کو انتشار کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، اس انتشار کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی تھی جب سوویت یونین کو تڑوایا گیا تھا، اب ترازو کا ایک پلڑا آسمان کو چھو رہا ہے دوسرا زمین پر من مانی نہ کرائے تو کیا ہمارے من کی خواہش پوری کرے گا، تمام ایشیائی ممالک کو سر جوڑ کر کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا اور اس امکان پر غور کرنا ہو گا کہ کہیں اصلاح احوال کے پردے میں کوئی واقعی اس براعظم کو منتشر تو نہیں کر رہا اور اس نقطے پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کہیں ایشیا کو مذموم مقاصد کے لئے اس انداز میں استعمال تو نہیں کیا جا رہا کہ بظاہر سب اچھا ہی لگتا ہو، رضا ربانی سینیٹ کے دانشور چیئرمین ہیں، ان کی نظر عالمی سیاسی سیناریو پر ٹکی رہتی ہے، کیونکہ بالخصوص وہ خطہ جس میں ہم رہتے ہیں اسے اس حال میں رکھا جا رہا ہے کہ یہاں تنازع اور کھچائو میں اضافہ ہو، یہاں کے بڑے بڑے حل طلب مسائل ہی کو نہیں دہشت گردی کے عفریت کو بھی دانہ پانی ڈالا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ایشیا سے کوئی یک قطبی سپر پاور نمودار ہو کر دنیا میں طاقت کا گیا ہوا توازن واپس لے آئے، تفصیلات سے آگاہی تو ہر ایک کو ہے، ان میں پوشیدہ عزائم خطرناک ہیں، 36 اسلامی ملکوں کا عسکری اتحاد تمام 52اسلامی ملکوں کا عسکری اتحاد کیوں نہیں؟ کیا یہ کہیں اسی انتشار کا ایک حصہ تو نہیں جس کی طرف رضا ربانی اشارہ کر رہے ہیں، اگر کوئی خود ہی چور پیدا کرے اسے طاقت دولت سے لیس کرے پھر اسے ختم کرنے کے لئے ایشیائی زمین استعمال کرے اور یہاں کسی انسان کے ناک پر بیٹھی مکھی کو توپ کا گولہ مارے تو کیا یہ انسانیت کی خدمت ہو گی؟
٭٭٭٭
کیا سارا نقصان عوام نے پورا کرنا ہے؟
عوام سے محبت کے زور پر ہر دور کے حکمرانوں نے سو سو گناہ کئے، اب ان کا کفارہ بھی پاکستان کے عوام ہی ادا کریں آخر کیوں؟ کیا مہنگائی پہلے کم تھی کہ اب ایک نیا منی بجٹ لایا گیا ہے، نرخوں، ٹیکسوں میں اس قدر اضافہ کہ عام آدمی کا جینا دو بھر ہو جائے، اور وہ جب فریاد کرے تو کہا جائے ہم نے اب آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا عوام کے پاس جانا ہے، کسی کو اچھا لگے برا لگے اس ملک کے تمام 70برسوں کے حکمران ہر خسارہ عوام کی جیبوں سے کیوں پورا کرتے ہیں، آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضے اگر عام آدمی کی حالت بدلنے پر خرچ کئے جاتے تو آج اس کی معاشی درگت یہ تو نہ ہوتی کہ مہنگائی میں روزانہ کی بنیادوں پر اضافے کے باعث اب غریب کی بیٹی اپنے ہونٹ بھی سرخ نہیں کر سکے گی، خون کی کمی کیا پورا کرے گی یہ درآمدی کے علاوہ ملک میں پیدا ہونے والی اشیاء پر جو ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے اس نے غریب آدمی کیلئے قبر کھود دی ہے، یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے غریب لوگ زیر انتقام ہیں، اور چونکہ ان ہی کی اکثریت ہے اسلئے ووٹ بھی ان ہی سے چھینا جاتا ہے، کیا ایلیٹ کلاس جس میں اکثریت حکمرانوں سیاستدانوں کی ہے اسے اس مہنگائی کی اس نئی زور دار آندھی سے فرق پڑے گا؟ ہرگز نہیں، بجلی گرتی تو بیچارے ناداروں پر، سو گرتی رہے گی، نظام کا یہ عالم ہے کہ ایک غریب حاملہ عورت نے رائیونڈ ڈسٹرکٹ اسپتال سے دھکے کھائے اور سڑک پر بچے کو جنم دے دیا، بے یارومددگار سڑک پر پڑی عورت ہماری حقوق نسواں کی تنظیموں اور حقوق نسواں کیلئے جھوٹ موٹ کا واویلا کرنے والوں سے ایک سوال کر رہی ہے جو دراصل یہاں کے غریبوں بیکسوںکیلئے جواب ہے، شاید یہ ملک غریبوں کی اکثریت نے چند خاندانوں کی عیاشیوں اور لوٹ مار کیلئے بنایا تھا، اللہ ہی اس وسائل سے مالا مال ملک کے کروڑوں محروموں کی دادرسی فرمائے ورنہ یہاں حالات جوں کے توں رہیں گے۔
٭٭٭٭
ہر درد کی دوا ہے قہقہہ!
کہتے ہیں کالا جادو ہو یا سفید، غربت ہو یا بیماری، مہنگائی ہو یا بیروزگاری، ہر درد کا علاج ایک قہقہے کی مار ہے، ہنسی آئے یا نہ آئے ہنسنا چاہئے فقط ایک مسکراہٹ سے چہرے کی سلوٹیں لمحہ بھر کو غائب ہو جاتی ہیں، جن کروڑوں ووٹرز کی بات کی جاتی ہے وہ سب مفلس ہیں کہ امراء تو کروڑوں میں نہیں ہوتے البتہ چند لوگ ہیں جو نہ جانے کیسے کروڑوں کیا اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں اس لئے بلیک میجک کے ماہرین کہتے ہیں جب کالا جادو ہو جائے تو زور زور سے قہقہے لگائیں جادو کافور ہو جائے گا۔ غالب نے طنزیہ کہا تھا سنجیدگی سے نہیں؎
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
اگر ایک عدد قہقہہ بردار جلوس ہر روز ہر شہر سے نکلے تو کالے جادو (غربت) کا جنازہ نکل جائے گا، اس لئے ذرا ہنس کے روئو ذران پھنس کے روئو؎
ایک شخص سے تھی رونق حیات
جب وہ نہیں رہا تو کچھ بھی نہیں رہا
اور جب وہ ہنستا تھا تو غربت بھی ہنستی تھی مگر اب یہ عالم کہ وہ بھی نا اہلی کا اہل قرار پا گیا؎
ہنستا ہوا نورانی چہرہ
خیالی زلفیں رنگ سنہرا
تیری جوانی دلربا دلربا
وطن عزیز میں ماشاء اللہ کسی چیز کی کمی نہیں، نہ کھانے والوں کی نہ کھلانے والوں کی، یہی غربت زدگان ہی شاہی خاندانوں کو جنم دیتےہیں، اور خود پھر سے جنم لینے کے مشن پر روانہ ہو جاتے ہیں، ہمارا منتر تو یہی ہے ہر خاص کے لئے نہیں ہر عام کے لئے کہ درد کی لے تیز ہو تو ہنسو اور زور سے ہنسو، کہ اسی طرح ہی ہنس کی چال چل سکو گے اور جی سکو گے نہ مر سکو گے، مرنے جینے کا جھگڑا ہی نہیں رہے گا۔
٭٭٭٭
نو ڈو مور
….Oکہتے ہیں نئے حکومتی آرڈر کے مطابق ڈو مور مہنگائی اور امریکہ کو جواب کہ تیرے لئے نو ڈو مورلڑائی،
….Oحمزہ شہباز:پاکستان کو کچھ ہوا تو اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکیں گے، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مرتبہ پہلے بھی پاکستان کو کچھ ہوا اور ہم نے اپنے آپ کو معاف کر دیا۔
….Oڈرون حملے پھر سے شروع ہو گئے ہیں، اگر ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو ٹرمپ کے ہنس کر پاکستان سے بات کرنے کا مفہوم سمجھ آ جائے گا۔
….Oعمران خان اور طاہر القادری کو فوری گرفتار کر کے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے،
اور اگر کوئی پیش نہ چلے تو ڈمی میوزیم سے مطلوبہ افراد پیش کر دیئے جائیں؟
….Oاداروں سے ٹکرائو کی پالیسی بھی ڈو مور نوعیت کی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے