سی پیک سے بلوچستان کیا مانگتا ہے؟

تاریخ ہے ماہ اکتوبر کی اٹھارہ ،مقام ہے یونیورسٹی کا کانفرنس روم ، منظر ہے مکالمے کا ،مباحثے کا دلیل کے سننے اور سنانےکا۔ شرکا میں مہمانان کا تعلق جامعہ پنجاب لاہور کے شعبہ صحافت سے وابستہ اساتذہ اور طلبا وطالبات کا۔ جبکہ میزبانوں میں ہماری فیکلٹی کے ڈین محترم ڈاکٹر محمد جان ، شعبہ صحافت کی چئر پرسن محترمہ سمیرا ذاکر سمیت کئی اور محترم اساتذہ کرام اور یہ ناچیز شامل تھا۔ موضوع بحث بلوچستان ، سی پیک اور قومی ترقی سے متعلق تھا۔ مہمانوں اور میزبانوں میں بہت بہترین انداز میں مکالمہ ہوا۔ یہ چونکہ ایک علمی بحث تھی ۔ شریک گفتکو لوگوں کا تعلق علم وکتاب سے تھا لہذا لفظ لفظ انمول تھا اسی لئے لکھنے کا ارادہ کیا

سی پیک یا پاک چائنہ اقتصادی راہداری ابھی تک ایک زیربحث مقدمہ ہے۔ کچھ لوگوں کی نزدیک جن میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے یہ راہداری پاکستان کی معاشی ، اقتصادی اور سلامتی کی ضمانت ہے۔ برخلاف جن لوگوں کا تعلق خیبر پختونخواہ ، بلوچستان یا گلگت بلتستان سے ہے، ان کا خیال ہے کہ اس راہداری کا بنیادی فائدہ پنجاب کو ہوگا۔لہذا جب تک باقی صوبوں کو کما حقہ حصہ نہیں ملتا اس منصوبے کا کامیاب ہونا مشکل لگتا ہے۔

اس محفل میں جب مہمانوں کی طرف سےسوال کیا گیا کہ بلوچستان کے لوگ ترقی مخالف ہیں تو بہت ٹھوس دلایل کے ساتھ میزبانوں نے یہ بات سامنے رکھی کہ نہ ہم ترقی مخالف ہیں اور نہ ملک بیزار مگر مسئلہ یہی ہے کہ گوادر میں ابھی تک مقامی لوگوں کو پینے کا پانی نہیں مل رہا ہے جبکہ باقی ملک میں سی پیک پر شادیانے بج رہے ہیں اب جب تک مقامی آبادی کی محرومی ختم نہیں ہوتی آپ کس طرح سوچ سکتے ہیں کہ آپ وہاں کوئی ارضی جنت تعمیر کرسکتے ہیں۔کئی حضرات کو سننے کی بعد جو کچھ راقم نے کہاوہ کچھ یوں ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ سی پیک چین کے اس لائحہ عمل کا حصہ ہے جیسے اوبر یا ون روڈ ون بیلٹ یعنی ایک سڑک ایک خطہ کہا جاتا ہے ۔ یہ نئی ابھرتی چینی عالمی طاقت کا خفیہ اعلان ہے ۔ ساٹھ کی دہائی میں جب امریکہ نے دنیا کی ترقی کےلئے غالب ماڈل یعنی صنعتی ماڈل کا منصوبہ پیش کیا تھا ،وہاں چین نے کیوبا اور تنزانیہ کیساتھ مل کر متبادل یا زرعی نظام پیش کیا تھا جس کے بعد چین میں گرین یا سبز انقلاب آیا تھا۔ سی پیک بھی اسی گرین انقلاب کی ایک مثال ہوسکتا ہے۔

میرے لئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چین نے ترقی تو کردی مگر کیوبا اور تنزانیہ ابھی تک اسی حال میں جی رہے ہیں۔ لہذا خدشہ یہ ہے کہ سی پیک کے بعد کہیں پنجاب چین نہ بن جائے اور بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کیوبا اور تنزانیہ ، جو لوگ سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی قرار دے رہے ہیں ،وہ یہی دلیل استعمال کرتے ہیں ،اگرچہ حکومت پاکستان اس دلیل کی شدت کیساتھ مخالفت کررہی ہے اور ظاہر ہے کہ انہیں کرنا بھی چاہیے۔

المیہ یہ نہیں کہ بلوچستان یا خیبر پختونخواہ کے لوگ مرکز گریز اور ترقی مخالف ہیں بلکہ اس سے بڑا المیہ یہ ہےکہ سی پیک کے تحت پہلے سے ترقی یافتہ صوبہ یعنی پنجاب کو پہلے ترقی دی جارہی ہے جبکہ باقی دوصوبوں کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ جو زیادہ پسماندہ ہیں انہیں زیادہ حق ملتا ہے جیسا کہ چین نے ارومچی اور سنکیانگ کےپسماندہ علاقوں کو پہلی ترجیح دے کر اس منصوبے کی تحت ترقی یافتہ بنانا شروع کیا ہے۔

یہاں میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ہمیں قطعا پنجاب سے نفرت ہے نہ جلن بلکہ یقین کی حد تک سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہم سب کا ہے اور پنجابی ہمارے اپنے ہی خاندان کے لوگ ہیں۔ مگر افسوس اس ذہنی کیفیت پر ہے جو درسی کتب تک میں بچوں کو پڑھا رہے ہیں کہ بلوچی لٹیرے اور پختون گل خان یا بیوقوف ہیں۔ میرے خیال میں جنوبی پنجاب کی وسائل بھی ایک خاص شہر کی نذر ہورہے ہیں لہذا سی پیک کی کامیابی سے پہلے بنیادی بات اس ملک کی وحدت کی ہے۔ اگر ہم پاکستانی نہ بنے اور نہ رہے تو کوئی سی پیک ہمیں نہیں بچا سکتا

ہمیں نفرتوں کا کاروبار کو بند کرنا ہوگا ، محبتوں کا بازار سجانا ہوگا۔ پالیسی ساز قوتوں کےلئے لازم ہے کہ وہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کےساتھ مل کر اس ملک کی وحدت اور سی پیک کی عملیت پر بات کرے۔تب معلوم ہوجائے گا کہ کون ترقی مخالف ہے اورکون ترقی چاہتا ہے۔ بات مگر یہ ہےکہ ابھی تک تو کسی نے ہمیں پوچھا نہیں بس شہر اقتدار میں چند لوگ جن کا تعلق ایک خاص صوبے سے ہے، اکٹھے ہوکر پورے ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے لگے ، ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے۔

ترقیاتی صحافت کی فلسفے کی رو سے جب تک آپ مقامی آبادی کی مسائل ان کے ذریعے حل نہ کریں، انہیں شریک فیصلہ نہ بنائیں، تب تک آپ اس علاقے کو ترقی یافتہ نہیں بناسکتے ہیں۔لہذا عرض یہ ہےکہ سی پیک کو کامیاب بنانا ہے یا ملک کی وحدت کو مضبوط بنانا ہے تو آپ کو پسماندہ نظر آنے والے بلوچوں اور پختونوں سے بات کرنی ہوگی ۔یہ محب وطن اور وفاشعار لوگ ہیں ، ایک بار تو بات کر کے دیکھو کس طرح یہ آپ کےلے جان تک دیتے ہیں جس طرح کہ باقی ملک کی بقا کےلئے آج بھی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں یہ لوگ خون دے رہے ہیں۔ سو ست بسم اللہ آو مل کر اس ملک اور اس منصوبے کو مضبوط اور کامیاب کرتے ہیں مگر دلیل ، محبت اور برابری کے اصول پر کیونکہ زور دھونس اور نفرت کی اب گنجائش ختم ہوچکی ہے۔

مہمانوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ مکالمے اور مباحثے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں، وہ رخصت ہوئے تو ڈین صاحب ، چیر پرسن اور دیگر ساتھیوں نے حوصلہ افزائی کی، جس کےلئے میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور آپ لوگوں کا بھی شکریہ کہ میرے ان کمزور لفظوں کو پڑھ کر میر احوصلہ بڑھا رہے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے