سر رہ گزر لسے دا کی زور!

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تو ریمارکس دیئے کہ ملازمین کو دھر لیا جاتا ہے کسی میں وزیر پکڑنے کی مجال ہے؟ مگر ہمارے سوئے ہوئے درد جگا گئے۔ ان کی بات میں تو صرف سچائی ہے مگر کاش سچائی صرف ان تک نہیں سارے ملک پوری قوم تک عام ہوتی۔ جب کسی معاشرے کے حکمراں انسانی معاشرت کو اپنی ہوسِ اقتدار پر قربان کر دیں تو صرف زور و زر والے ہی معزز ٹھہرتے ہیں باقی بیچارے ہر جگہ دھکے دے کر نکال دیئے جاتے ہیں۔ غربت کی ماری تھکی ہاری خواتین سڑکوں پر تڑپ کر بچہ جنم دیتی ہیں؎
ثنا خوانِ تقدیس عورت کہاں ہیں؟
آج کتنے ہی کرسیوں والے گرفتنی ہیں مگر واقعی بقول چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کسی میں اتنی جرأت کہاں کہ انہیں ہتھکڑی لگائے، جب ظلم مظلوم کو طاقت دے گا تو یاد رہے کہ کچھ بھی نہیں رہے گا۔ مغلوب بلی بھی جب کوئی فرار کا راستہ نہیں پاتی تو خونخوار کتے پر حملہ کر کے اس کی آنکھیں نکال دیتی ہے۔ ایسا ہو گا، اب زیادہ دیر نہیں ہو گی، آنکھوں کی پٹیاں اتر جائیں گی جو گٹروں میں ہیں وہ کرسیوں پر اور جو تخت پر بیٹھے ہیں گٹروں میں ہوں گے۔ جب کسی سے دولت طاقت چھین لینے کے بعد اس کے پاس جہالت، ڈھٹائی اور بددیانتی کے سوا کچھ باقی نہ رہے تو یہ ہے وہ نااہلی جس کا حکم ہر ایسا شخص خود اپنی ذات پر جاری کرتا ہے اور آواز آتی ہے یہ سب تمہارے ہاتھوں کا کمایا ہوا ہے، کیا حکمرانی انتہا پسند، جاہ پرست، خودستا اور گمراہ نہیں ہو گئی؟ کیا خراج کے گدا اس قدر بدمست ہو گئے ہیں کہ اپنی اصل وقعت ہی بھول گئے؟ مفلس سے ووٹ مانگا، عالمی مالیاتی اداروں سے مرکب سود پر قرضے لئے اور تخت طائوس پر بیٹھ کر اپنی اور اپنوں کی زندگی جنت بنا دی، کیا منگتے کی اس جنت کو حکمرانی کہتے ہیں؟ الحذر اے چیرہ دستانِ وطن الحذر! اس دھرتی کا ایک خدا جس کی آنکھ میں نیند نہیں جس کی لاٹھی کی آواز نہیں، ایک سیاہ بادل عیش کوش اور ظلم پرمست طبقے کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
عدل کی راہ ہموار
اب فقیر، سرِ رہگزر نہیں بیٹھے رہیں گے، سریر آرائے حکومت ہوں گے۔ ایک عورت، ایک فتویٰ، ایک قاتل، کیا قرآن کی اس صدا کو دبا پائیں گے کہ اب بتا تیرے لئے جائے فرار کہاں ہے؟ اس دھرتی کا ایک ہی خدا ہے، وہ آزماتا، ڈھیل دیتا اور ڈور کھینچتا ہے۔ کہتے ہیں کہ روم کی عظیم سلطنت کی تباہی کا اصل سبب چرچ اور حکمرانوں کا گٹھ جوڑ تھا، وہ دل دہلا دینی والی سزائیں جن کے لئے رومن ایمپائر مشہور تھی اور جو بے گناہوں، کمزوروں کو دی جاتی تھیں ان کے حکم نامے پر پہلے پادری کی مہر لگتی پھر شاہِ روم دستخط کرتا اور آخر یہ سندیسہ آسمانوں سے آ ہی گیا کہ ’’غلبت الروم‘‘ (روم مغلوب کر دیا گیا)۔ ظلم، گناہ، بے انصافی کا کوئی نام نہیں ہوتا نہ ہی اس کا فاعل کوئی ایک فرد ہوتا ہے، یہ ایک طبقہ ہوتا ہے جو احسن تقویم سے اسفل السافلین کی طرف سفر کرتا ہے، اس کے کان، آنکھیں اور عقل نہیں ہوتی، یہ صرف اپنے لئے زندہ رہنے کے لئے اوروں کو مارتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ چوروں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے چوروں کی ماں کو تلاش کیا جائے، نظام اگرچہ ایک لفظ ہے مگر گناہ اور نیکی کو ساری دنیا کی زمینوں پر جنم دیتا ہے، اگر یہ درست ہے تو سارے مسائل حل یہ غلط ہے تو پورا گھر تباہ۔ ہمیں جو بھی نقصان پہنچتا ہے اس کے سہولت کار ہم خود بھی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مقتول کا بھی اپنے قتل میں کوئی ایک فیصد ہاتھ ہوتا ہے۔ بہرحال کسی کا کسی کو زندگی سے محروم کر دینا ایک ایسا گناہ ہے جو قتل کے اسباب و وجوہات کو کالعدم کر دیتا ہے۔ سیشن جج ملتان کی عدالت میں قندیل قتل کیس زیر سماعت ہے، اگر عدالت گناہ مذہب گٹھ جوڑ پر عدل کی کاری ضرب لگائے تو کافی حد تک یہاں قاتلوں کے مختلف گیٹ اپ بے نقاب ہو جائیں گے، دیکھتے ہیں قانون کس طرح عدل کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ؕ
جی ایم فون! بس ایک نگاہِ التفات
ایک فقیر سر رہگزر جو اتفاق سے ایک سینئر موسٹ صحافی بھی ہے، اپنے دو سال سے بیمار انٹرنیٹ کے شافی علاج کے لئے محکمہ ٹیلی فون کے حضور تمام مروجہ طریقوں سے اپنی فریاد پہنچا چکا ہے مگر بیمار ہے کہ اس کے نصیب میں مرنا ہے نہ جینا، اس کی چال بحال ہو بھی تو کام نہیں آتا جبکہ ایک صحافی کا سارا دارومدار انٹرنیٹ پر ہوتا ہے جو اسے اپ ڈیٹ رکھتا ہے وہ اطلاعات وصول بھی کرتا ہے اپنی تحریریں ای میل بھی کرتا ہے، اس کا کمپیوٹر رواں ہے نہ اسمارٹ ٹی وی، بس فون کر سکتا ہے، ممکن ہے یہی حال اور بھی کئی لوگوں کا ہو مگر اس بیچارے کے آس پاس پورے علاقے میں سب کے انٹرنیٹ برق رفتار ہیں صرف اسی کا یہ پرابلم ہے کہ کبھی بند کبھی جاری اور اگر جاری تو رفتار چیونٹی کی چال سے بھی کم۔ جنرل منیجر فونز لاہور سے گزارش ہے کہ اگر ہمارا یہ مسئلہ حل کر دیں تو ہم دعا دیں گے ورنہ میاں محمد کا یہ شعر گنگنا کر خاموش رہیں گے؎
ڈاہڈے دے ہتھ قلم محمد تے وس نئیں کوئی چلنا
لسے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا
یہ دور آئی ٹی کا ہے، اس کے بغیر ایک سینئر ترین صحافی بھی فقط ترین ہے۔ اس کی آواز بڑی مہین ہے۔ ہماری رائے میں محکمہ ٹیلی فون لاہور نہایت کامیاب چاق و چوبند اور فعال ہے سب کے لئے میرے سوا، اگر مجھے بھی تگڑا انٹرنیٹ عطا کیا جائے تو عین نوازش ہو گی کہ میں بڑی باقاعدگی سے پورا پورا بل ادا کرتا ہوں۔ میرا ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اطمینان بخش کلمات
٭ اسپیکر:شریف فیملی میں کوئی اختلاف نہیں۔
وہ تو الحمد للہ نہیں ہے مگر کیا اسمبلی میں بھی کوئی اختلاف نہیں؟ آپ سے تو اسمبلی ہی کی خیریت دریافت کی جا سکتی ہے، ویسے شریف فیملی نے بھی کیا اعلیٰ قسمت پائی ہے کہ اسپیکر سے لے کر ووفر تک اور ایمپلی فائر سے لے کر فائر بریگیڈتک سب کو اس کی فکر ہے، جبکہ قوم مطمئن ہے کہ شریف فیملی بالکل خیریت سے ہے اور اس کے لئے ہمہ وقت دعاگو ہے۔
٭ نیب:وزیرخزانہ کو جیل بھیج دیں، وکیل خود پیش ہو جائے گا۔
نیب میں جرأت آتی جاتی ہے
مردے میں حرکت آتی جاتی ہے
٭ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو معیشت پر فوج کی تشویش سے آگاہ کر دیا۔
’’ہن آرام ایں‘‘
٭ سپریم کورٹ:عمران خان اور جہانگیر ترین کا فیصلہ ایک ساتھ صادر کریں گے۔
ہم تو ڈوبے تھے صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے
انصاف سب کیلئے، کوئی امتیازی رویہ نہیں، خان صاحب سے جہانگیر ترین کی یاری آزمائش سے گزر رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے