پرانی قبروں میں نئی کہانیاں

(دوسری قسط)
گزشتہ روز ‘‘پرانی قبروں میں نئی کہانیاں” کے زیر عنوان کالم کی پہلی قسط لکھی تھی’ اس میں وہ سب کچھ موجود تھا’ جسے میڈیا نے چھپانے کی کوشش کی۔ میاں نواز شریف کے دونوں بڑے صاحبزادوں کا رجحان’ سیاست یا حاکمیت کی طرف نہیں تھا۔ خود نواز شریف نے بھی اپنے بچوں کی تربیت سیاسی ماحول میں نہیں کی تھی۔ میاں صاحب سب کچھ خود کرتے اور کاروبار بچوں کے نام پر چلاتے ۔ ڈگریاں انہیں سیاسی اختیارات کے حوالے سے ملتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ تو بچے ‘ کاروبار سیکھ سکے اور نہ ہی علم حاصل کر پائے ۔ میاں نواز شریف کو اہل سیاست نے کبھی سیاست دان نہیں سمجھا لیکن جنرل جیلانی جو پنجاب کے گورنر تھے ‘ ان کے ساتھ میل جول ہو گیا۔ جن دنوں یہ رسم و راہ بنی’ گورنر صاحب نے اپنا مکان بنانا شروع کر دیا۔ درمیانہ درجے کے سرمایہ دار’ بااختیار لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش حاصل کرتے ہیں۔ یہی کچھ بڑے اور چھوٹے میاں صاحب یعنی میاں نواز شریف اور ان کے والد محترم میاں شریف نے کیا۔ بڑے میاں صاحب بااختیار لوگوں کو خوش کرناجانتے تھے ۔ انہیں جب پتہ چلا کہ جنرل صاحب اپنا گھر بنا رہے ہیں تو میاں شریف صاحب نے دونوں طرف کی ضرورتوں کو سمجھ لیا۔ سریا اور گھر کی تعمیر کے لئے ضروری سامان جنرل صاحب کو بطور تحفہ فراہم کرنا شروع کر دیا۔ جن خوش حال تاجروں کو میں نے دیکھا ہے ‘ ان کی اکثریت اپنے بچوں کو کاروبار کرنا سکھاتی ہے جبکہ میاں شریف کا رجحان اپنے بچوں کو پڑھانے کی طرف تھا۔ دونوں طرف کی ضرورتیں پوری ہونے لگیں۔ جنرل صاحب کا گھر بنتا گیا اور میاں شریف کے دونوں صاحبزادے تعلیم حاصل کرتے گئے ۔ جنرل جیلانی اور میاں شریف صاحب نے ایک دوسرے کو خوش رکھنا سیکھ لیا۔ جنرل صاحب کا گھر بنتا گیا اور میاں صاحب کی تجارت نشوونما پانے لگی۔اس کہانی کو زرا یہاں روک کر برصغیر کی تقسیم پر نظر ڈالتے ہیں جہاں سے ہماری اشرافیہ نے جنم لیا
تقسیم کے جس فارمولے پر’ ہندو مسلم قیادت متفق ہوئی’ اس میں مسلمانوں کے حصے میں آنے والا علاقہ جو کہ مسلم اکثریت پر مبنی تھا’ پاکستان بنا۔ اس میں نہ معاشرے کے برتر طبقے ‘ نہ صنعت کار اور نہ ساہوکار تھے ۔ اس فارمولے کے تحت پاکستان کے دو جغرافیائی حصے ‘ مسلم اکثریتوں کے مالک بنے ۔ مغربی پاکستان میں زرعی محنت کش’ فصلوں کی دیکھ بھال اور پیداوار کے شعبوں سے منسلک تھے ۔ جبکہ مشرقی پاکستان کی آبادی’ جاگیرداروں اور ان کے پڑھے لکھے بچوں پر مشتمل تھی۔ تجارت اور درمیانے درجے کے تاجر اور دکاندار مسلمانوں میں بھی شامل تھے ۔ مسلمانوں کا مالدار طبقہ نوے فیصد زمیندار اور جاگیردار تھا۔ زمیندار سے مراد درمیانے درجے کے زرعی رقبے کے مالکان ہوتے ‘ جو زرعی مزدوروں کے ساتھ مل کر اچھی خاصی پیداوار سے اپنا گھر چلاتے ۔
بڑے زمیندار مغربی پاکستان میں زرعی مزدوروں کا استحصال کرتے ۔ کھیتی باڑی وہ کرتے اور پیداوار کا بھاری ملکیتی حصہ’ جاگیردار لے جاتے ۔ ایک جاگیردار طبقہ ایسا تھا’ جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتا۔ پہلے اعلیٰ تعلیم کا مطلب برطانیہ ہوتا تھا’ جہاں جاگیردار’ بھاری خرچ سے اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے اور درمیانے درجے کے مسلمانوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے بچے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں
داخل کرانا شروع کر دئیے ۔ یہیں پر مسلمان نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور تحریک پاکستان کے ہراول دستہ میں شامل ہو جاتے اور انگریزی کی متوسط تعلیم سے فیض یاب ہوتے ۔ ہندو تاجر’ صنعت کار اور ساہوکار بھی تھے اور متوسط طبقے کے کاروباری بھی۔ ایسے مسلمان بہت کم تھے جو اپنے بچوں کو قائد اعظم’ سردار شوکت حیات’ میاں افتخارالدین کی طرح برطانیہ میں پڑھاتے ۔ اگر ہم آزادی سے پہلے کے دور میں اعلیٰ سیاسی اور علمی قیادت کرنے والے نوجوانوں کو دیکھیں تو ان میں ہندوئوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جبکہ مسلمانوں کی کم۔ اسی نسبت سے متحدہ ہندوستان میں جب مذہب کی بنیاد پر قومی تصورات پیدا ہوئے تو ظاہر ہے مسلمانوں کو ملنے والا پاکستان جغرافیائی’ مالیاتی’ علمی اور صنعتی اعتبار سے تعداد میں کم تھا۔ پاکستان اور بھارت کی جغرافیائی تقسیم کرنے والے بھی بیشتر انگریز تھے ۔ حد یہ ہے موجودہ پاکستان میں حد بندی کا ذمہ دار ایک انگریز تھا جو ہندوئوں کے زیر اثر جغرافیائی حد بندیاں کرنے کا ذمہ دار ٹھہرا۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ پنجاب کی تقسیم کے لئے حتمی فیصلہ ریڈ کلف نامی ایک انگریز نے کیا۔ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہ ہوئے ۔ مسلم لیگ کی نمائندگی کے لئے قائد اعظم نے سر ظفراللہ خان کا انتخاب کیا اور جب انہوں نے لاہور آ کر پنجاب کی تقسیم کا فارمولا دیکھا تو اپنی معاونت کے لئے مقامی زمینداروں اور جاگیرداروں سے مدد لی۔ فارمولے کے مطابق پورے کا پورا ضلع گورداس پور’ پاکستان کو ملنا تھا لیکن یہاں پر ہندو کی چالاکی کام آئی اور اس نے گورداس پور کی ایک تحصیل کو بھارت میں شامل کر دیا۔ اگر پنجاب کے تعلیم یافتہ اورجغرافیائی مہارتیں رکھنے والے مسلمان نمائندے ‘ ہندو مسلم کی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم کرتے تو کشمیر کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ جس کی سزا اب تک کشمیر اور گورداس پور کے مسلمان بھگت رہے ہیں۔ (جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے