تعویزات و عملیات

اب تک ہم جتنی بھی صوفی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کر چکے ہیں سب کے سب کسی فارمولا ٹائپ فلم کی طرح تھے۔ چند مقررین فلسفہ بیان کرتے ہیں، کچھ سجادہ نشین اپنے سلسلوں کے بزرگوں کی کرامات اور کارناموں کا ذکر کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ اگر کسی نے علمی علاقے میں قدم رکھا تو مولانا روم، شیخ سعدی، عطار اور حلاج کی چند باتیں کہیں۔ ہر سال، ہر کانفرنس ،ہر سیمینار اور تقریر و تحریر میں کچھ صاحبان مزار اور ان کی کرامتوں اور ملفوظات کا بار بار لگا تار ذکر ہوتا ہے۔ اور آخر میں تناول ماحضر۔
حقیقت یہ ہے کہ سارے سجادے، گدیان، سلسلے اور پیری مریدی کا جو آجکل چلن ہے ، یہ تصوف کی روح کے قطعی خلاف بلکہ متضاد ہے۔ ہم ابتدا سے عرض کرتے آئے ہیں کہ تصوف کی روح ’’ہم‘‘ ہے اور جہاں کہیں ’’میں‘‘ آگیا تصوف ختم ہوا۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ’’میں‘‘ کی بنیاد کیا ہے۔ ابلیس کی ’’میں‘‘ تو آگ تھی لیکن یہ ’’میں‘‘چاہیے عبادت، بزرگی یا پیری کسی بھی بنیاد پر ہو تصوف کے منافی ہے۔ آدم اور ابلیس میں یہ ’’میں‘‘ ہی وجہ نزاع ہے۔
اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ’’میں‘‘ کبھی بھی انسان کی اپنی کسی صفت یا خاصت یا صلاحیت پر نہیں ہوتی بلکہ کوئی بیرونی اور قطعی عارضی چیز یا موجودگی کو ’’میں‘‘ کی بنیاد بنا لیا جا تا ہے۔

ابلیس نے اپنے ناری ہونے کو ’’میں‘‘ کی بنیاد بنا کر غرور و تکبر کا مظاہرہ کیا۔ انسانوں میں کوئی دولت کو برتری کی بنیاد بنا رہا ہے، کوئی جائیداد کو، کوئی اپنے خاندانی شرف یا اور کسی پرہیز گاری کو لے کر ’’میں ‘‘ کا عویٰ کر دیتا ہے۔ مطلب یہ کہ میں اور برتری کے جتنے بھی دعوے ہیں وہ ایسی چیزوں پر ہیں کہ اگر آج اس کے پاس توکل دوسرے کے پاس بھی جا سکتی ہیں۔ ایسے میں برتر تو وہ چیز ہوئی نہ کہ انسان یا اس کا عارضی مالک۔ اور اسی زمرے میں عبادت و ریاضت ،گوشہ گیری، خلوت نشینی اور اونچی گدی پر بیٹھنا اور دوسروں سے ہاتھ پیر دبوانا، خدمت لینا شکرانے وصول کرنا اور خود اپنے آپ کو ایک بڑا ’’میں‘‘ بنانا بھی شامل ہے۔
سب سے پہلے معاشرے سے کٹ کر کسی ایک مقام پر متمکن ہونا ہی ’’میں‘‘ ہے کیونکہ رب جلیل تو ہر انسان کی شہ رگ سے قریب ہے جب بھی جی چاہیے اس سے رابطہ کر سکتا ہے گویا
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
بشرطیکہ کسی کے پاس دیکھنے والی نگاہ اور محسوس کرنے والا دل ہو۔ یہ بھی ایک لطیفہ ہے کہ شور وغل سے ہٹ کر قوی ہو اور لگن مکمل ہو تو خلوت و جلوت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وہ مجنون کا قصہ تو ہر کسی نے سنا ہوگا کہ ایک دن صحرا میں دوڑتے ہوئے کسی نمازی کے آگے سے گزر گیا، نمازی نے سرزنش کی کہ دیکھ نہیں رہے ہو، میں نماز پڑھ رہا ہوں، مجنون نے کہا، لیلیٰ کی قسم اگر میں نے تجھے دیکھا ہو، میں تو اپنی لیلیٰ کی دھن میں ایسا مست تھا کہ تجھے دیکھ نہیں پایا لیکن یہ تم کیسے خدا کی عبادت کر رہے تھے کہ تم نے مجھے دیکھ لیا۔
حالات ایسے ہیں کہ ہم ڈر بھی رہے ہیں کیونکہ دین کو دوسروں پر نافذ کرنے والے بہت ہوگئے ہیں۔ اس لیے ڈرتے ڈرتے عرض کرنا چاہتے کہ جہاں کسی نے کسی نام، کسی نشانی، کسی پہناوے، کسی رنگ، کسی طرے و سجادے کو اپنا امتیازی نشان بنا دیا، وہ شاید سب کچھ ہو لیکن صوفی اور آدم نہیں رہا کہ خصوصیت امتیاز، انفرادیت اور برتریت تصوف اور آدمیت کے ’’ہم‘‘ کو کاٹ دیتا ہے۔ اب تھوڑی بات عملیات تعویذات وغیرہ پر بھی ہو جائے تو ایک اور بڑی غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے۔ رب ذوالجلال نے اپنی اس کائنات کی ہر چیز میں ایک طاقت اور ایک تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ کائنات کا یہ نظام سنتہ اللہ یعنی ایک بے عیب اور مکمل قانون کے تحت چل رہا ہے۔
اس نے زہر میں مارنے کی صلاحیت رکھی ہے اس طرح ہر مرض اور بیماری کے بعد اپنے اپنے جراثیم وائرس اور اسباب رکھے ہوئے ہیں۔ اب اگر کوئی زہر کھا لیتا ہے یا اسے کھلا دیا جاتا ہے تو زہر تو اپنا کام ضرور سرانجام دے گا۔ ایسے میں اگر تعویذ یا عملیات نہیں علاج کی ضرورت ہے کیونکہ یہی قدرت کا درست راستہ ہے ۔ہمارے ہاں طب نبوی میں سیکڑوں دوائیں اس لیے بتائی گئی ہیں کہ دنیا کا سب سے برتر انسان بھی قدرت کے طریقے یعنی علاج پر چلتا ہے۔ کیونکہ اگر زہر کی اپنی تاثیر ہے تو تریاق کی بھی اپنی تاثیر ہے۔ اس سے زیادہ ہمیں اور نہیں کہنا ہے کہ اس صورت میں دکانداریوں اور دھندوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
ان عملیات ،تعویذات کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا ، بس اصل بات یہ ہے کہ مرض کی تشخیص اور علاج ہی اصل راستہ ہے اور یہی قدرت کا قانون ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے