سررہ گزر انتہائے عشق ہے، اللہ جانے کیا ہوگا آگے!

ایک مردِ مجذوب دریائے ٹیمز کے کنارے ٹھیک اس جگہ جہاں رومیو جولیٹ مل کر گاتے تھے؎
ٹیمز دے کنڈے بیہہ کے، بیہہ کے
آ کریئے پیار دیا گلاں
یہ گیت گنگنا رہا تھا؎
کجرا حکومت والا آنکھوں میں ایسا ڈالا
پاناما نے لے لی میری جان
ہائے رے میں تیرے قربان
یہ دنیا ہموار نہیں، نظر آتی ہے اسی لئے لوگ چلتے چلتے یا د وڑتے دوڑتے ایسے گرتے ہیں کہ گرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہ دنیا بڑی بیوفا ہے۔ اس کا نہ کرنا اعتبار کوئی! اب ریاض پیرزادہ ہی کو دیکھ لیں ، ان کے بیان کا متن ہے: ’’شہباز شریف آگے بڑھیں، پارٹی سنبھالیں، نواز شریف نااہل ہوچکے۔ 3بار وزیراعظم بن کر بھی ملک ٹھیک نہ کیا۔ عدلیہ اور فوج کو کچھ کرنا پڑے گا۔ میرا ایسی جمہوریت سے کیا واسطہ جس نے ہمیں دہشت گرد بنا دیا۔ وقت آگیا ضمیر کی آواز سننا ہوگی ۔ فرد ِ جرم عائد ہونے سے ابھی تو کام شروع ہوا ہے۔‘‘ پیرزادہ صاحب کا ضمیر چار سال میں ایک بار بھی نہ جاگا جونہی ان کا نام آئی بی کی جعلی فہرست میں آیا وہ بلبلا اٹھے اور سنا ہے انہوں نے بقول ایک نجی ٹی وی ان کے ساتھ 5 وفاقی وزرا اور 66ایم این ایز بھی ہیں۔ اچھا کیا کہ نواز شریف نے واپسی کی ٹکٹ کٹوا لی کیونکہ ن لیگ پکار رہی ہے
چھیتی بوڑیں وے طبیبا نئیں تاں میں مر گیاں
تیرے عشق نچائیا کرکے تھیا تھیا
اقتدار ہو یادولت بری چیز نہیں بشرطیکہ یہ فقط اپنی ذات کے لئے نہ ہو، بہرحال میاں صاحب کے اچھے کاموں پر خط ِ تنسیخ پھیرنا درست نہیں بالخصوص وہ افراد جن کے وہ محسن ہیں۔ انہیں تو حق نمک ادا کرنا چاہئے۔ ن لیگ نواز شریف کے بغیر کچھ نہیں کیونکہ شہباز شریف کا نام تو’’ شین‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
کیا یہ جوڑا سی آئی اے نے جوڑا؟
ٹرمپ کی حالیہ تعریفوں پر اس وقت سی آئی اے چیف نے پانی پھیر دیا جب انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا کہ کینیڈین جوڑا اغوا کے بعد پانچ سال پاکستان میں مقیم رہا۔ یہ کینیڈین جوڑا جو کہ دراصل امریکی جوڑا ہے خود سی آئی نے تو نہیں جوڑا۔ کیونکہ اتنا بڑا الزام کہ یہ بعد از اغوا پانچ سال پاکستان میں رہائش پذیررہا، بہت سے خدشات و مضمرات سے خالی نہیں۔ ممکن ہے حقیقت کا پتا جوڑے کے والدین کو بھی نہ ہو۔ سی آئی اے کی تاریخ ایسے دام ہمرنگ زمین ڈراموں سے بھری پڑی ہے۔ اس لئے ہم اپنی وزارت ِ خارجہ سے کہیں گے کہ مشتری ہوشیارباش! ڈونلڈ ٹرمپ جیسا مودی نما پاکستان کے ہرزہ سرا نے جب پاکستان کی تعریفیں کیں تب ہی دل لرزا تھا کہ کہیں سی آئی اے نے ٹرمپ کو لائنیں لکھ کر تو نہیں دی ہیں۔ اب تو ہمیں خود طالبان، القاعدہ اور داعش کے امریکی نژاد ہونے کا بھی شک ہونے لگا ہے۔ ہم آخر ایک مفلس بے بس گھرانے کا کردار کیوں ادا کر رہے ہیں کہ ایک جابر و ظالم اسے تباہ کرنے کے بعد وہاں جاکر افسوس کا اظہار کرے اوروہ غریب گھرانے کے افراد خوشی سےباغ باغ ہوکر اس کےپائوں دبانے بیٹھ جائیں۔ الحمد للہ پاکستان ایک خودمختار نظریاتی اسلامی ایٹمی ملک ہے پھر کیوں 20کروڑ پاکستانیوں کی انا کو امریکہ پرست حکمران اپنے غلامانہ رویوں سے مجروع کرتے آئے ہیں۔ ہم اپنے آج کے نہیں ہر دورکے حکمرانوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے وزراامریکہ جا کر کیوں صرف دم ہلا کر واپس آ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات برابر ی کی سطح پر ہیں جبکہ امریکہ کو آسمان پر اور خود کو پاتال پہنچا رکھا ہے۔ اگر یہاں اللوں تللوں پر قومی وسائل ضائع نہ کئے جاتے بلکہ مزید وسائل پیدا کئے جاتے تو آج پاکستان کے ساتھ امریکہ یوں ظالمانہ مذاق نہ کرتا۔ کمائو اداروں کو درست تو نہ کرسکے انہیں ایک دھکا اور ضرور دیدیا۔ آج پی آئی اے جیسا مثالی ادارہ تباہ حال ہے اور اس قابل نہ رہا کہ امریکہ کی جانب اڑان بھر سکے۔ ایسے نظام والے ملک کا امریکہ کیوں احترام کرے گا؟
٭٭٭٭٭
ارکانِ اسمبلی کیلئے بے ایمانی کا معیار کیا ہے؟
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دیکھنا ہے ارکان اسمبلی کے لئے بے ایمانی کا معیار کیا ہوگا۔ عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کریں۔ قومی مفاد میں صبر و حوصلے سے کام لے رہا ہوں۔ جس ملک میں ایک عام شہری بن جانے والے اشرافیہ کے کسی فرد کو سرکاری پروٹوکول میں پوری حکومتی مشینری کے کاندھوں پر سوار بڑے طمطراق سے عدالت میں پیشی کے لئے لایا جائے گا وہاں ظاہر ہے عام غریب آدمی ہی تھر تھر کانپے گا اور سابق ہو جانے والے کے بچوںکوبھی وہ عزت دی جائے گی کہ سپریم کورٹ کی عزت ماند پڑ جائے گی۔ ہمارے ہاں عوام جل کر راکھ ہو کر فنا ہوجائیں کیا پروا اور طبقہ ٔ خواص کسی الزام کے حوالے سے عدل و احتساب کوبھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی دھمکی دی جائے تو کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ فرعونوں جیسے لہجے تو بالآخر خاموش ہو جاتےہیں۔ چاہئے تھا کہ صبر و تحمل کے ساتھ ریمارکس دیئے بغیر پیشیاں بھگتتے اور اپنے حواری وزرا کو بھی اپنے کام کی جگہوں پر رہنے کا پابند بناتے مگر کوئی پوچھے بالخصوص دو تین وزرا کو کہ کیا کسی کے ساتھ ساتھ رہنے، پیچھے پیچھے بھاگنے اور غیرضروری غیرمتعلقہ حیثیت میں عدالتوں کے باہر بھاشن دینے کے لئے تو وزیر نہیں بنایا گیا۔ آج یہ وقت بھی آیا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ارکان اسمبلی کے لئے بے ایمانی کا معیار قائم کرنے کی ضرورت پڑگئی کہ اتنی کرلو مگر اتنی نہ کرو کہ اس کا شمار مشکل ہوجائے اس کے وزن سے ترازو ٹوٹ جائے۔ یہ نہ ہو کہ
میں اتنے زور سے ناچی آج
کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے
٭٭٭٭٭
پاپا، پاپی اور آپا دھاپی
O۔ فواد چوہدری :ثابت ہوگیا پاپا ہی پاپی ہیں۔
چوہدری صاحب خان صاحب کے ترجمان نہ بنیں پارٹی کی ترجمانی کریں۔ یہ زبان یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
O۔ شیخ رشید:فرد ِ جرم سے ثابت ہو گیا ابھی انصاف اور قانون زندہ ہے۔
انصاف اور قانون خود کو زندہ ثابت کرنے کے لئے فردِ جرم عائد کرنے کا محتاج نہیں ہوتا۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
O۔ ڈاکٹر یاسمین راشد:شریف برادران نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا۔
اور تحریک انصاف حسن اخلاق کی دیوالی جاتی رہی۔ باقی ملک کا دیوالیہ تو حکومت در حکومت چل رہا ہے۔ بیچاری ن لیگ نے بھی ایک ٹچ دیدیا مگر ابھی آخری ٹچ باقی ہے۔
O۔ معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب:سیاست الزام تراشی نہیں خدمت ہے۔
آپ کاموقف درست ہے خادم پنجاب کی خدمت ذرا اور جم کر کریں یہ آپ کی عبادت ہے۔
O۔ مہنگائی کے تابوت کا پھٹا اکھیڑ کر مہنگائی کے مردے کو نکال کر اس میں وزیر صاحب نے اپنے مخصوص معاشی پمپ سے نئی جولانی بھر دی ہے۔ سارے خسارے حکمرانوں کے راج دلارے عوام سے پورے کیوں نہیں کرنے دیتے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے