شیو کرنے کے عمل پر بہت عرصہ قبل میں نے ایک کالم لکھا تھا، مگر چونکہ اس عمل سے روزانہ گزرنا پڑتا ہے، چنانچہ جی تو یہ چاہتا ہے روزانہ اس پر کالم لکھوں، مگر ظاہر ہے یہ ممکن نہیں۔ میرے لئے یہ عمل بہت تکلیف دہ ہے، یہ کوئی شرفا کا طریقہ نہیں کہ صبح صبح امن کا سفید پرچم لہرانے کی بجائے انسان ایک بلیڈ یا پانچ بلیڈوں والا سیفٹی ریزر ہوا میں لہرائے اور پھر چہرے کے بالوں کا قتل عام شروع کردے۔ اس کے علاوہ یہ عمل مجھے دھوکہ دہی بھی لگتا ہے۔ بالوں کے قتل عام سے پہلے بالوں پر خوشبودار شیونگ فوم سے ہلکا ہلکا مساج کرنا اور ان معصوم بالوں کو یہ تاثر دینا کہ ان سے اظہار محبت ہورہا ہے اور اس کے بعد ہاتھ میں ’’استرا‘‘ پکڑ کر ان کا قلع قمع کردینا، آخر کہاں کی شرافت ہے، مگر دوسری طرف یہ حالت ہے کہ جب تک شیو نہ کروں، اس وقت تک ایک سستی سی چھائی رہتی ہے، کبھی یہاں جا بیٹھتا ہوں کبھی وہاں بیٹھ جاتا ہوں، کبھی دوبارہ بستر پر لیٹ کر کروٹیں لینے لگتا ہوں، مگر جوں ہی شیو کرتا ہوں اس کے ساتھ ہی دنیا کا ہوجاتا ہوں اور اپنے معمول کے کام شروع کردیتا ہوں جو ایک الگ عذاب ہے کہ روز ایک جیساہی کام کرنا یہ تو ایک مشین کا سا عمل ہے۔اس میں خود انسان کہاں ہے؟
تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ گالوں کے بال اپنے’’قاتلوں‘‘ کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہم جن کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں وہ ایک بار پھر ہمارے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ مزاحمتی مخلوق ہے، یہ کشمیری ہے، یہ فلسطینی ہے، جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے لڑنے والے طبقوں سے اس کا تعلق ہے، آپ انہیں جتنی بار چاہیں قتل کریں، انہیں غائب کردیں مگر آپ ان کے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتے۔ یہ ان پھولوں کی طرح ہیں جنہیں آپ نوچ لیتے ہیں لیکن اسی شاخ پر نئے پھول کھل رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح جب ہم ان بالوں کا قتل عام کرتے ہیں اگلے ہی روز ان کی نئی نسل آپ کے ظلم کا مقابلہ کرنے کھڑی ہوجاتی ہے۔ کچھ اچھے لوگ اس ظلم سے بچنے کے لئے داڑھی رکھ لیتے ہیں مگر آپ داڑھی زیادہ سے زیادہ کتنی بڑھاسکتے ہیں، کتربیونت یہاں بھی کرنا پڑتی ہے، استرے اور قینچی کا استعمال تو یہاں بھی ہوتا ہے۔ نہیں کریں گے تو تیز ہوا کے چلنے یا موٹر سائیکل پر سواری کے دوران آپ کی داڑھی دو حصوں میں بٹ جاتی ہے ا ور جھالر سی بن جاتی ہے۔ داڑھی رکھنے کی صورت میں معاشرہ آپ سے بہت سی توقعات بھی وابستہ کرلے گا، جس پر پورا اترنا اتنا آسان نہیں
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
دراصل یہ جو بال ہیں نا، یہ بہت ہی’’خطرناک مخلوق‘‘ ہیں خواہ چہرے کے ہوں یا سر کے دونوں صورتوں میں یہ آپ کا پیچھا کرتے ہیں مثلاً یہ جو سر کے بال ہیں کبھی کبھی جوانی ہی میں اور کبھی عمر ڈھلنے کے ساتھ سفید ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سمجھدار لوگ انہیں سفید ہی چھوڑ دیتے ہیں، کچھ کو یہ سفید بال بہت اچھے لگتے ہیں مگر اکثر کو ان سے کم عمر کے لوگ بھی باباجی ، چاچا جی اور بزرگو وغیرہ کہنا شروع کردیتے ہیں، جس سے ان کا خون کھول اٹھتا ہے اور اپنا خون جلانے کی بجائے وہ بالوں کو رنگنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بالوں کی ایک اور چال ہے کہ وہ آپ کو ایکسپوز کرنا چاہتے ہیں، ان کی اس خواہش کی تکمیل میں چہرے کی جھریاں اپنا مکمل کردار ادا کرتی ہیںاور یوں کلر اصلیت چھپانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ بالوں کی مزاحمتی کردار کا یہ ایک اور پہلو ہے، وہ انسان کو ویسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسا وہ ہے، انہیں چہروں پر چڑھے خول اچھے نہیں لگتے۔ یہ تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں، آج کا انسان یہ بے ساختہ پن کہاں سے لائے، اس کو تو ’’شیونگ‘‘ کی اتنی عادت ہوچکی ہے کہ وہ اپنے دل کی بات بھی’’سیو‘‘ کرکے رکھتا ہے، اس نے کسی سے کچھ اور کسی دوسرے سے کچھ اور بات کرنا ہوتی ہے، اس کا کردار کسی کے سامنے کچھ اور کسی دوسرے کے سامنے کچھ اور ہوتا ہے۔
بات لمبی ہوتی جارہی ہے اور مجھے یہ لگ رہا کہ آج کے دور میں بالوں کی اتنی تعریف و توصیف چنداں مناسب نہیں، کہ یہ مزاحمت کار بھی ہیں، منافقت بھی پسند نہیں کرتے، ہمیں آئینہ دکھاتے رہتے ہیں، خود مجھے بہت زہر لگتے ہیں کہ میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں جن کے خلاف یہ صف آراہیں، یہ میرا ہی حوصلہ ہے کہ اس کے باوجود میں نے انہیں اتنی لفٹ دی ہے۔ چلیں صبح ایک بار پھر ان سے حساب صاف کرلوں گا۔
وضاحت: میرے ایک گزشتہ کالم میں طفر محمود کے افسانوی مجموعہ کا نام غلطی سے’’دائروں کا سفر‘‘ شائع ہوگیا ہے جبکہ اصل نام’’دائروں کے درمیان‘‘ ہے۔