لوگو! کچھ سوچو!

سمجھ نہیں آتی مسلم لیگ ن کے عوامی بھیس میں آمر طبیعت جاہلوں پرہنسوں یا قیادت کے بھیس میں نظر آنے والے اس جماعت کے سربراہان کی نااہلیوں پر رووٴں؟

سائبر کرائم کے قانون میں مسلم لیگ نواز کے وزرا،خصوصاً محترمہ انوشہ رحمان اور اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان ایف آئی اے کے ڈائریکٹروں کے توسط سے دنیا جہاں کا گند داخل کراتے رہے جن کے حوالے سے سول سوسائٹی کےنمائندوں کے بے شمار تحفظات تھے، متعدد این جی اووز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے پارلیمانی کمیٹیوں میں اپنے تحقیقاتی مقالے بھی جمع کرائے، اور عملاً بحث کا حصہ بھی رہے-

اُس وقت خصوصاً جن شقوں پر بہت زیادہ تحفظات کا اظہار کیا گیا ان میں آن لائن اور سوشل میڈیا کے ذریعے آزادئ اظہار رائے، ٹیکنالوجی کی مدد سے احتجاجی مہم جوئی، طنز و تنقید، شہریوں کے موبائیل اور انٹرنیٹ کمیونیکیشنز میں غیرضروری اور غیر موزوں طریقوں سے مداخلت اور انکی پرائیویسی میں دراندازی اور اس کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی صحافت اور ریسرچ کے سلسلے میں روکاوٹیں ڈالنےوالی شقیں شامل تھیں۔

میں خود اس مرحلے کا حصہ رہا ہوں مگر افسوس اس وقت ہمیں ملک دشمن عناصر، غیرملکی ایجنڈے پر کام کرنے والا موم بتی مافیا اور ناجانے کیا کیا القابات مسلم لیگ نون کے وزراٴ کی جانب سے دئیے گئے-

ہم نےاس وقت بھی یہی جواب دیا کہ یہ کالا قانون سب سے زیادہ سیاسی جماعتوں اورحکومتی اداروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف استعمال ہوگا۔ اورآج یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے۔ اس وقت ملک میں آزادئ اظہارِ رائے پر بدترین پابندیاں لگائی جارہی ہیں-

جس کی مختلف شکلیں ہیں جیسا کہ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والے سیاسی کارکنان کے خلاف ایف آئی اے کا کریک ڈاون، کچھ لوگوں کو بغیر عدالتی وارنٹ کے تحقیقات کے بہانے انوسٹی گیشن آفسز میں بلا کر انہیں ہراساں کرنا، لاکھوں کی تعداد میں ویب سائیٹس کی بندش، سوشل میڈیا پر سائبر آرمیز اور سائیبر ٹروپرز کا متحرک ہونا اور انکی جانب سے ٹوئٹر اور فیس بک پر لوگوں کو دھمکی آمیز پیغامات بھیج کر انہیں خاموش کر دینا شامل ہیں۔

اس سلسلے میں متعدد کیسز مختلف عدالتوں میں سنے جارہے ہیں، عدالتوں کااس سلسلے میں کردار بہت اہم ہے، اگر عدالتوں نے اس قانون میں مختلف اداروں کو دی جانے والی غیرضروری اور غیر متناسب پاورز کو ختم نہ کیا تو یہ قانون ملک میں شہری حقوق کہ دھجیاں ادھیڑ کر رکھ سکتا ہے-

سوشل میڈیا پر احتجاج اور تنقید کرنے والے چودہ چودہ سال تک دہشتگردی کا مرتکب قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے بھیجے جا سکتے ہیں، لاکھوں کے جرمانے، اوریہاں تک کہ بدترین اور مخصوص حالات پیدا کر کے لوگوں کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ جس کی ما ضی قریب میں مثالیں موجود ہیں -اسلئے لوگو! کچھ سوچو!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے