سر رہ گزر سیاست کا جنازہ راستے میں گر سکتا ہے

بلاول زرداری نے کہا ہے:میاں صاحب کی ترقی دھوکہ، عمران کی تبدیلی جھوٹ ہے دونوں نے سیاست کا جنازہ نکال دیا (اور ہمارے لئے سیاست میں سے کچھ کشید کرنے کا چانس ہی نہیں چھوڑا) بلاول کے بیان کو مکمل کرنے کے لئے ہمیں ایک عدد بریکٹ بند جملہ ساتھ لگانا پڑا تاکہ پیپلز پارٹی (ز) کا تعارف ناتمام نہ رہ جائے، عمران خان نے سندھ میں خطاب کرتے ہوئے کہا قوم احتساب چاہتی ہے ، نواز کی وکٹ گر گئی، اب زرداری کی باری ہے، اور مزید یہ کہ شہباز قلندرؒ مزار کی انتظامیہ نے عمران خان کو درگاہ پر حاضری سے روک دیا۔ سیاسی انتخابی اسٹیج لگ چکا ہے، یہ انتخاب سیاستدانوں کا نہیں ووٹرز کا امتحان ہو گا کہ وہ تین سوالوں کے پرچے میں سے کس سوال کا جواب ٹِک کرتے ہیں، تینوں بڑی جماعتوں کے قائدین بہت کچھ کہیں گے لیکن اب پاکستان کے عوام نے اپنے دل دماغ سے پوچھ کر فیصلہ کیا تو ممکن ہے ان کے حق میں کوئی اچھا نتیجہ برآمد ہو، لیکن ہم ساتھ یہ بھی کہہ دیں بشرطیکہ ان شاء اللہ انتخابات ہوئے تو کیونکہ تاحال تو افراتفری ہے، احسن اقبال نے بھی بڑھک لگا دی کہ مائنس ون نہیں ون پلس ہو گا، ہمیں حیرانی ہے کہ ’’شہباز قلندرؒ ان پالیٹکس‘‘ کی صورت پیدا کر کے عمران خان کو مزار پر حاضری سے روک دیا گیا۔ صوفیہ کی تعلیمات کو تو کم از کم سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ وہ سب کے ہوتے ہیں، سندھ حکومت تعصب کوہوا نہ دے، سیاستدانوں کو مزار پر جانے، اور ان کی خانقاہوں کو سیاست میں نہ گھسیٹے، میڈیا کا بھلا ہو کہ اس نے ووٹر کے لئے فیصلہ آسان بنا دیا، کیونکہ تینوں بڑی پارٹیوں کی ٹی پارٹیاں سامنے رکھ دیں، تبدیلی پہلے خان صاحب کی ملکیت تھی اب ملک میں دو مزید تبدیلیاں بھی فلوٹ کر دی گئی ہیں، اور چوتھی ایک نمبر تبدیلی کے ابھی آثار نظر نہیں آتے، تبدیلی اس دن آئے گی جب لیڈران اپنے اندر تبدیلی لائیں گے ابھی تو شرمیلی ہی آ سکتی ہے اس لئے کہ تبدیلی خود بڑی شرمندہ ہے، سیاست کا جنازہ نکالا نہیں گرا دیا گیا ہے کیونکہ کاندھا دینے والے تین ہیں۔
٭٭٭٭
وہ جو کترا کے نکلتا تھا!
خیبر پختونخوا کی ریپڈ بس سروس پر تبصرہ کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا ؎
وہ جو کترا کے گزرتا تھا مرے سائے سے
اب سنا ہے مرے نقش قدم ڈھونڈتا ہے
شاعری اور موسیقی جسے پسند ہو وہ کامیاب حکمران ثابت ہو سکتا ہے، اس کی دلیل تاریخ سے ملتی ہے جب کسریٰ انتقال کر گیا تو تخت کا وارث دودھ پیتا بچہ تھا، تمام وزراء نے میٹنگ کی کہ اب ایران کی عظیم سلطنت کو کون سنبھالے گا، اور یہ بچہ کیا بالغ ہونے پر اس قابل ہو گا کہ زمام حکومت تھام سکے تاکہ اس کی بلوغت تک سینئر وزراء ہی حکومت چلاتے رہیں، اس مخمصے کو حل کرنے کے لئے مشہور فلسفی ’’بیدیا‘‘ سے مشور ہ لیا گیا، اس نے کہا بچے کے پیچھے کسی سازندے کو ساز بجانے کے لئے کھڑا کر دیں اگر ساز کی آواز پر بچہ متوجہ ہو تو سمجھ لیں کہ یہ ایران کا کسریٰ بن سکتا ہے، ایسا ہی کیا گیا اور جونہی ساز چھڑا بچے نے گردن موڑ کر دیکھا، اس طرح بالغ ہونے پر اسے کسریٰ ڈیکلیئر کر دیا گیا اور وہ کامیاب حکمران ثابت ہوا، شاعری بھی فنون لطیفہ میں شمار ہوتی ہے، شہباز شریف شعر و شاعری سے اچھا خاصا شغف رکھتے ہیں، جب سے وہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں بالغ ہوئے ہیں، کیونکہ ریپڈ بس سروس خیبر پختونخوا پر انہوں نے عمران خان کو کل تک میٹرو بس کو جنگلہ بس کہنے پر اور بعد میں خود بھی ایسی ہی سروس شروع کرنے پر جو برمحل اور بہترین شعر سنایا اس سے ثابت ہو گیا کہ وہ بہادر شاہ ظفر ثابت نہیں ہوئے البتہ ایک کامیاب وزیر اعلیٰ ضرور ثابت ہوئے اور مارکیٹ میں ان کی بڑی مانگ ہے، دیکھیں جی ہمیں اب حکمرانی کے لئے کوئی عمر بن عبدالعزیز تو ملنے سے رہے ہاں کوئی شعیب بن عزیز بھی دستیاب ہو جائیں تو غنیمت ہے، اور اگر ایسا ہو گیا تو اپنے وقت کا شعیب بن عزیز اپنا ہی ضرب المثل شعر سڑکوں پر گنگناتا ہوا دکھائی دے گا؎
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ہاں اگر کسی وزیر اعلیٰ کو وزیراعظم بنایا تو پھر یہ صدا بھی بلند ہو سکتی ہے مجھے کیوں نکالا؟ میں پوچھتا ہوں کیوں نکالا؟
٭٭٭٭
بمعہ اور بغیر وزیراعظم حکومت
جیسے سردار جی نے اپنے بنگلے میں دو سوئمنگ پول بنوائے، ایک پانی سے بھرا ہوا اور ایک پانی سے خالی، کسی نے پوچھا سردار جی پانی بھرے پول کی تو سمجھ آتی ہے مگر یہ پانی سے خالی کی کیا منطق ہے، سردار جی نے کڑک کے کہا دیکھیں ناں کبھی نہانے کو دل نہیں بھی چاہتا۔ اسی طرح ہم دو سسٹم رکھیں ایک وزیراعظم سمیت حکومت اور ایک اس کے بغیر، کہ کبھی سرکاری خزانہ بھرنے کو بھی تو دل چاہتا ہے۔ بہرحال یہ تو سب مذاق کی باتیں ہیں اور ’’قلم آئی بات نہ رہندی اے‘‘ کے مصداق مذاقیہ بات بھی تو نکل جاتی ہے، جیسے بعض دو شیزائوں کی ہنسی نکل جاتی ہے بہرحال بات سے بات نکلنے کی بری عادت ساری قوم کو پڑ چکی ہے ہم کیسے بچ نکلتے، وزیراعظم کے ذکر سے یاد آیا کہ اس ملک میں سارا ’’رولا‘‘ ہی یہی ہے، کیوں نہ اس کا نام بدل کر فقیر اعظم رکھا جائے اس طرح ممکن ہے غریب لوگ امیر اعظم بن جائیں۔ وزیراعظم کو ہم نے کیوں اسم اعظم بنا لیا ہے کہ؎
عمران ہوئے بلاول ہوئے نواز شریف ہوئے
سب اسی کی زلف کے اسیر ہوئے
قلم کو بھی دل کی طرح کبھی کبھی عقل سے دور رکھنا چاہئے کہ کبھی کبھی قلم قتلے کھانے کو بھی جی چاہتا ہے، ایک ’’کھودے‘‘ (جس کی داڑھی نہیں اُگتی) نے اپنی ماں سے کہا میری شادی کب ہو گی، ماں نے کہا بیٹا جب تیری داڑھی آ جائے گی، اور وہ دوڑ کر بازار سے نقلی داڑھی لے آیا اور کہنے لگا ماں یہ ڈسپوزایبل داڑھی ہے، اگر شادی ناکام کرنا پڑی تو اتار پھینکوں گا، اور کامیاب ہو گئی مگر بیوی کے ہاتھ آ گئی تو بھی کوئی بات نہیں؎
اصلی داڑھی سے تو مری نقلی داڑھی اچھی ہے
اور لے آئے بازار سے اگر کہیں گر بھی گئی
٭٭٭٭
پنکی، ڈولی، ببلی ٹریفک پولیس
….Oعبدالعلیم (پی ٹی آئی) لندن محلات والے خدا کا خوف کریں۔
پاکستانی محلات والے بھی خدا کا خوف کریں، اور جن کے دونوں جگہ محلات ہیں وہ ڈبل خدا خوفی کریں۔
….Oچوہدری محمد سرور:کرپشن ملک کے لئے بوجھ بن چکی،
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔
….Oاویس نورانی:احتساب کی سازشی سوچ خطرناک
کیا آپ نے ن لیگ جوائن کر لی ہے؟
….Oخواجہ سرا پنکی، ڈولی، ببلی ٹریفک کنٹرول کریں گی،
جس کا کام اُسی کو ساجھے
….Oواویلا کے باوجود سبزیاں مہنگی، شہری حکومت سے مایوس۔
واویلا سے سبزیوں کی اہمیت میں اضافے کے باعث اس کے نرخ بڑھتے ہیں، اور جب حکومت سے لوگ مایوس ہو جائیں تو حکومت کامیاب ہو جاتی ہے، کیونکہ مایوس لوگ مطالبہ ہی نہیں کرتے۔
….Oسردار آصف احمد:زرداری کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ پی پی بھگت رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی، زرداری پیپلز پارٹی سے الگ کر دیں خمیازہ ٹل جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے