خان میں کیا رکھاہے؟

ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ان کا کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام تھا۔ وہاں میرے ایک دوست ملازم تھے، میںنے ان کے نام رقعہ لکھ کر انہیں دیا اور ان کا کام ہو گیا۔ یہ صاحب میرے پاس واپس تشریف لائے۔ میں سمجھا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں لیکن انہوں نے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنےکے بعد اٹھتے ہوئے کہا ’’میرے لائق کوئی اور خدمت؟‘‘
اگر میں ان صاحب کو نہ جانتا ہوتا تو میں ان کے اس جملے کو ان کی معصومیت یا ان کی نادانی پر محمول کرتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں انہیں جانتا ہوں۔ ان صاحب کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کے سب لوگ ان کی خدمت پر مامور ہیں چنانچہ اپنے لاکھوں کروڑو ں خدام میں سے اگر وہ کسی خوش نصیب کو خدمت کا موقعہ دیتے ہیں تو یہ دراصل اس کو اورسفارش کنندہ کو ممنون فرماتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح علم نہیں کہ ان صاحب کی اپنے علاقے میں کتنی عزت ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کے اپنے دل میں اپنی بے پناہ عزت موجود ہے چنانچہ یہ صاحب اپنی سالگرہ پر اپنے والدین کو مبارکباد کا تار بھیجتے ہیں۔ ان صاحب نے خود تشخیصی اسکیم کے تحت اپنا مرتبہ خود متعین کر رکھا ہے چنانچہ اپنے اس مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ کسی کے سلام کا جواب سر کی ہلکی سے جنبش سے، کسی کا مسکراہٹ کے ساتھ اور کسی کے سلام کا جواب اپنی زبان کو حرکت دیتے ہوئے وعلیکم السلام کہتے ہوئے دیتے ہیں۔ انہوں نے کسی سے ہاتھ ملانا ہو تو وہ بھی اس کے اور اپنے مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملاتے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں اپنی ایک انگلی پھنسا دیتے ہیں، کسی کے ہاتھ میں دو انگلیاں دے کر اس کی عزت افزائی کرتے ہیں اور کسی کے ہاتھ میں اپنےمرے ہوئے چوہے ایسا ڈھیلا ہاتھ گھما کر اس کے درجات بلند کرتے ہیں۔
موصوف کچھ لوگوں سے معانقہ بھی کرتے ہیں۔ یہ معانقہ بھی ان کی ترجیحات کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی کے کاندھے سے اپنا کاندھا معمولی سا ٹچ کرتے ہیں اور اسے معانقہ قرار دیتے ہیں۔ بہت خوش نصیب ایسے ہیں جن سے یہ پورا معانقہ کرتے ہوں البتہ کوئی مرگ وغیرہ ہوگئی ہو تو اس موقع پر یہ اپنے اصول سے دستبردا ہو کر سوگوار خواتین سے معانقہ کرتے ہوئے بہت دیر تک انہیں دلاسے دیتے ہیں۔ اس معاملے میں اتنے ’’رکیک القلب‘‘ واقع ہوئے ہیں کہ ناواقفوں کے ہاں بھی پرسا دینے چلے جاتے ہیں۔
یہ صاحب اپنی نظروں میں صرف معزز ہی نہیں، بلکہ ان کے خیال میں ان کا شمار دنیا کے حسین ترین انسانوں میں ہوتا ہے۔ اکثر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آئینے سے سوال کرتے ہیں ’’تم نے دنیا میں مجھ سے زیادہ کوئی حسین دیکھا ہے؟‘‘ جب انہیں آئینے کی طرف سے ہاں یا ناں میں کوئی جواب نہیں ملتا تو وہ اسے اس کی مصلحت اندیشی تصور کرتے ہوئے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ چونکہ انہیں اکثر آئینوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لہٰذا ایک آئینہ ساز نے ان کے گھر کے برابر دکان کھول لی ہے۔ اس درجہ حسین ہونےکے باوجود وہ احباب کی محفل میں اکثر کہتے ہیں’’خوبصورتی اللہ کی دین ہے۔ میں نے اس پر کبھی غرور نہیں کیا‘‘ایک دفعہ ایک بچے کی نظر ان کی بٹن ایسی آنکھوں، طوطے ایسی ناک اور چٹیل میدان ایسے سر پرپڑی تو وہ نادان ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا۔ ان صاحب نے فوراً اپنی جیب سے ٹافیاں نکالیں جو انہوں نے غالباً ایسے ہی مواقع کے لئے رکھی ہوئی تھیں اور بچے کو تھمادیں۔ بچے کا باپ اٹھ کر کمرے سے باہر گیا تو انہوں نے بچے کی کمرپر اتنی تیز چٹکی لی کہ اس نے روتے روتے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بچے کا باپ گھبرا کر واپس کمرے میں آیا تو انہوں نے بتایا کہ بچے کو کیڑا کاٹ گیا ہے۔ یہ زندگی میں پہلا موقع تھا جب انہیں اپنے حوالےسے صحیح عرفان ِ ذات ہوا۔
موصوف اختلاف رائے کو پسند نہیں کرتے۔ اپنی عقل، اپنی فہم اور اپنی رائے کو اٹل جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ڈرائنگ روم میں سامنے والی دیوار پر لکھ کر لگایا ہوا ہے ’’دیکھو گدھا اختلاف کر رہا ہے۔‘‘ اس کے باوجود اگر کوئی گدھا برسر محفل ’’اختلاف‘‘ کرنے سے باز نہ آئے تو یہ اسے اندر سے ’’نیپی‘‘ لا کر دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک اختلاف ایک نجس چیزہے۔ ایک دفعہ کسی دوست کے گھر گئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے ’’معاشرے میں برائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔‘‘ دوست جانتا تھا کہ یہ صاحب اختلاف کو ایک نجس چیز سمجھتے ہیں چنانچہ اس نے اختلاف سےاجتناب کرتے ہوئے کہا ’’جی ہاں، واقعی معاشرے میں برائیاں بہت بڑھتی جارہی ہیں۔‘‘اس پر موصو ف نے میز پر مکامارتے ہوئے کہا ’’معاف کرنا، مجھے آپ سے اختلاف ہے۔‘‘ دوست حیران ہوا، اس نے کہا ’’جناب میں نے بھی تو وہی کہا ہے جو آپ نے ارشاد فرمایا ‘‘۔ بولے ’’نہیں، میں نے کہا تھا معاشر ےمیں برائیاں بڑھ رہی ہیں۔ آپ نے کہا معاشرے میں برائیاں بہت بڑھ رہی ہیں۔ میں کہتا ہوں صرف بڑھ رہی ہیں۔ بہت نہیں بڑھ رہیں۔‘‘ اس پر دوست اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس نے اندر سے اپنے بچے کی ’’نیپی‘‘ لا کر انہیں پیش کردی۔
موصوف مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ایسے مسائل کو پاکستان کے لئے انتہائی اہم اور تشویشناک قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ جس طرح ہر زہر میں تریاق موجود ہوتا ہے اس لئے ان تمام مسائل پر قابو پانے کے لئے آبادی میں بے پناہ اضافہ کیا جائے تاکہ اس کے نتیجےمیں مہنگائی اور بیروزگاری میں اس درجہ اضافہ ہو کہ لوگ جینے پر مرنےکو ترجیح دینے لگیں چنانچہ جب خودکشیوں کی تعداد میں معقول اضافہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں آبادی کم ہوگی اور آبادی کم ہو گی تو مہنگائی اور بیروزگاری بھی خودبخود کم ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنا یہ تھیسز ایک اخبار میںبہت تفصیل اور بہت دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
انگریزی کے بار ےمیں ان صاحب کا خیال ہے کہ انگریزی صاحبوں کی اور اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو وغیرہ مصاحبوں کی زبانیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان انگریزی میں بات کرتے ہوئے دوسروں کے علاوہ خود کو بھی معزز محسوس کرتاہے۔ کچھ اس طرح کے خیالات ان کے انگریزی کھانوں کے بارےمیں بھی ہیں تاہم انگریزی کھانا وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے پرہجوم ڈائننگ ہال میں اور دیسی کھانا اپنے باورچی کے کوارٹر میں اندر سے کنڈی لگا کر کھاتے ہیں۔ باورچی کئی دفعہ ان سے شکایت کرچکا ہے کہ جناب کوئی گھٹیا آدمی اکثر میری عدم موجودگی میں میرا کھانا کھا جاتا ہے۔ یہ واحد موقع ہے جب باورچی کو ڈانٹتے ہوئے شرف ِ انسانیت کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’کبھی کسی کو گھٹیا نہ سمجھو سب انسان برابر ہیں۔‘‘
اوپر کی سطور میں جن صاحب کا میں نے خاکہ لکھا ہے ان کا آپ کوئی بھی نام رکھ لیں لیکن اس نام کے ساتھ اگر ’’خان‘‘ آیا تو نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے