اشتعال انگیز تقریر: فاروق ستار اور عامر خان کے خلاف ضمنی چارج شیٹ پیش

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی قائد الطاف حسین کی جانب سے 22 اگست 2016 کو کی جانے والی پاکستان مخالف اشتعال انگیز تقریر سننے اور میڈیا کے دفاتر پر ہونے والے حملوں سے متعلق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت دو کیسز میں پولیس نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں فاروق ستار اور عامر خان کے خلاف ضمنی چارج شیٹ پیش کردی۔

آئی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ تفتیش کے دوران دونوں رہنماؤں کے بیانات میں تضاد موجود ہے اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے الطاف حسین کی اس اشتعال انگیز تقریر کی حمایت کی تھی جس کے بعد پارٹی کے کارکنوں نے مشتعل ہو کر میڈیا کے دفاتر پر حملے کیے۔

ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر سننے اور میڈیا کے دفاتع پر حملوں کے کیسز کی سماعت انسداد دہشت گردی ٹو کی عدالت میں ہوئی جہاں سینئر سپرنٹینڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) عدیل حسین چانڈیو نے دونوں کیسز میں ضمنی چارج شیٹ جمع کرائی۔

رپورٹ کے مطابق 7 ستمبر کو دونوں رہنماؤں کی جانب سے کیس کی تفتیش میں شمولیت کے بعد ان سے مختلف سوالات پوچھے گئے اور تحریری طور پر یہ سوالات دونوں رہنماؤں کو بھجوائے گئے تھے۔

پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ تاہم دونوں رہنما ان سوالات کے مکمل اور تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے جبکہ رہنماؤں نے اشتہاریوں کے نام بھی نہیں بتائے۔

پولیس کو بھیجے گئے جوابی بیان میں دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پارٹی کے بانی قائد کی 22 اگست کی تقریر نا قابل قبول اور نا قابل یقین ہے اور دعویٰ کیا کہ اس موقع پر ہونے والی پارٹی کارکنوں کی بھوک ہڑتال کے انتظامی معاملات میں وہ ملوث نہیں تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ لیکن دونوں رہنماؤں کے بیانات اس روز کی حاصل کی جانے والی فوٹیج کے خلاف ہیں جس میں عامر خان نے نہ صرف بھوک ہڑتالی کیمپ سے خطاب کیا بلکہ مبینہ طور پر الطاف حسین کی ہدایات پر عمل کرنے کا اعلان کیا۔

عدالت میں پیش کی گئی ضمنی چارج شیٹ کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار بھی بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود تھے اور عامر خان کی تقریر پر داد دے رہے تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں کے خلاف مبینہ جرم میں ملوث ہونے کے حوالے سے کافی شواہد چارج شیٹ میں موجود ہیں۔

عدالت نے ضمنی چارج شیٹ منظور کرتے ہوئے کیسز کی سماعت 25 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی جس میں عدالت مذکورہ رپورٹ کی کاپی ملزمان کو فراہم کرے گی۔

یاد رہے کہ 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کارکنوں سے خطاب کے دوران الطاف حسین نے ملک مخالف نعرے لگوائے تھے، جس کے بعد کارکن مشتعل ہوگئے اور انھوں نے ریڈ زون کے قریب ہنگامہ آرائی کی، اس دوران کچھ کارکن نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر میں گھس گئے اور وہاں نعرے بازی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جب کہ فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔

بعدازاں کراچی پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے حراست میں لے لیا، جبکہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو اور شہر کے مختلف علاقوں میں قائم متحدہ کے سیکٹر اور یونٹ آفسز کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔

عامر لیاقت حسین کو بھی ان کے دفتر سے حراست میں لیا گیا تھا، جنھیں بعدازاں رہا کردیا گیا، جس کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔

دوسری جانب اگلے ہی روز یعنی 23 اگست کو الطاف حسین نے اپنی تقریر میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بشمول آرمی چیف، ڈی جی رینجرز میجر اور پاکستان کے خلاف الفاظ استعمال کرنے پر معافی مانگ لی تھی۔

اس واقعے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی معاملات پاکستان سے چلانے کا اعلان کیا، جبکہ پارٹی منشور میں بھی تبدیلی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی جانب سے پاکستان مخالف تقریر اور میڈیا ہاؤس پر حملوں میں سہولت کاری پر فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی اور عامر لیاقت حسین سمیت دیگر پر کراچی کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے اور عدالت نے متعدد رہنماؤں کے گرفتاری وارنٹ بھی جاری کیے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے