سات دن

الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیوں اورانتخابی فہرستوں کی تیاری کو یقینی بنانے کے لئے آئین میں ترامیم کی جو تازہ ترین ڈیڈ لائن وفاقی حکومت کو دی ہے وہ صرف سات دن پر محیط ہے۔اگر ان سات دنوں میں ہفتہ وار تعطیلات کو شمار نہ کیا جائے تو بھی اس انتہائی اہم مشق کے لئے شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے پاس صرف سات نومبر تک کا وقت باقی ہے۔ الیکشن کمیشن اس سے قبل بھی متعدد بار حکومت کو خبردار کر چکا ہے کہ اگر اس نے متعلقہ قوانین میں بروقت ترامیم نہ کیں تو آئندہ عام انتخابات کا شیڈول کے مطابق انعقاد خطرے میں پڑسکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا کی سربراہی میں منعقد ہونیو الے حالیہ اہم اجلاس میں ایک بار پھر واضح کیا گیاہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق نئی حلقہ بندیاں تشکیل دینے اور انتخابی فہرستیں مرتب کرنے کا کام صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وفاقی حکومت حالیہ مردم شماری کے حتمی نتائج شائع کرے جوکہ شماریات ڈویژن کے حکام کے مطابق اپریل 2018 تک ہی ممکن ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام سر انجام دیا جائے چناچہ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے آئین میں فوری ترمیم ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تک ضروری نقشے اور ڈیٹا فراہم نہ کئے جانے پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی باور کر ادیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اگر یکم نومبرسے بھی حلقہ بندیوں کا کام شروع کرے تو اسے بمشکل 30 اپریل تک ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح انتخابی فہرستوں کی تیاری بذات خود جان جوکھوں کا کام ہے جس میں ابتدائی فہرستوں کے اجرا سے اعتراضات دور کر کے حتمی اشاعت تک تقریبا تین ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور موجودہ قوانین کے مطابق یہ کام نئی حلقہ بندیوں کے بعد کیا جاسکتا ہے اس طرح اگر ’پنجاب اسپیڈ ‘کے تحت اپریل تک نئی حلقہ بندیاں ممکن بنا لی جاتی ہیں تو بھی انتخابی فہرستوں کی تیاری جولائی تک ممکن ہو سکے گی۔دوسری طرف حالیہ انتخابی اصلاحات کے مطابق لاگو کئے گئے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق قانونی اورانتظامی امور پر مبنی جامع الیکشن پلان چار ماہ پہلے نہ صرف تیار کرنا ہوگا بلکہ اسے سیاسی جماعتوں کو فراہم بھی کرناہوگا۔ آئین کے تحت اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے بعد ساٹھ دن میں عام انتخابات منعقد کرانا لازم ہوتا ہے۔ موجودہ اسمبلیوں کی مدت چونکہ جون کے پہلے ہفتے میں پوری ہو رہی ہے اس لئے اگر عام انتخابات اگست کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوتے ہیں تو بھی الیکشن کمیشن کے پاس جامع ایکشن پلان مرتب کرنے کے لئے اپریل تک کی ہی ڈیڈ لائن ہے۔ طویل عرصے تک قیمتی وقت ضائع کرنے والی حکومت کے لئے سپریم کورٹ کے احکامات پرکرائی گئی مردم شماری اب وبال جان بن چکی ہے کیوں کہ اگر نئی حلقہ بندیوں کے بغیر عام انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں تو ان کی آئینی حیثیت پرسوالات کھڑے ہو جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 51 کی ذیلی شق 5 کے مطابق آخری مردم شماری کے شائع کردہ حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستیں آبادی کے تناسب سے صوبوں ،بشمول فاٹا اور وفاقی دارالحکومت میں تقسیم کی جائیں گی۔ حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج کو جاری کئے ہوئے بھی دو ماہ کا وقت گزر چکا ہے لیکن مختلف امورمیں اپنی بے بسی کا ماتم کرنے میں مصروف وفاقی حکومت کو اتنی فرصت بھی نہیں مل پائی کہ وہ وفاقی کابینہ سے منظورہ کردہ جنرل اسٹیٹسٹکس ری آرگنائزیشن ایکٹ 2011 میں ترمیم کو ہی پارلیمنٹ سے منظور کرا لیتی تاکہ کم از کم اب تک عبوری نتائج کوشائع کیا جا سکتا اور پھر آئین میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن انہی عبوری نتائج کی روشنی میں حلقہ بندیاں اورانتخابی فہرستیں مکمل کرنے کا کام سر انجام دے سکتا۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری بھی سنہری موقع تھا کہ اسی دوران اتفاق رائے سے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق درکار قانون سازی بھی کر لی جاتی تاکہ الیکشن کمیشن کوعام انتخابات کے انعقاد تک تمام امور نمٹانے کے لئے مناسب وقت مل جاتا۔ اب وفاقی کابینہ کے گزشتہ بدھ کو منعقد ہونیو الے اجلاس میں اگرچہ نئی حلقہ بندیاں کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے اور یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا لیکن حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج کے بعد پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم،پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،قومی وطن پارٹی سمیت بعض سیاسی جماعتوں کے سخت تحفظات کے بعد کیا حکمراں جماعت کو یہ ادراک نہیں کہ جن جماعتوں کو اب تک مردم شماری کے عبوری نتائج پر مکمل مطمئن نہیں کیا جا سکا وہ نئی حلقہ بندیوں پر کیسے آسانی سے قائل ہو جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی حکومت کی طرف سے نئی حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ سامنے آیا اپوزیشن جماعتوں نے فوری ردعمل ظاہر کیا جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نےحکومت کو مشورہ دیا کہ اس اہم معاملے پراتفاق رائے کے لئے پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کا اجلاس طلب کیا جائے ورنہ یک طرفہ فیصلے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اکتیس اکتوبر کو پارلیمانی رہنماوں کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ نئی حلقہ بندیاں کس فارمولے کے تحت کی جائیں اور یہ فیصلہ بھی کیا جائے گا کہ قومی اسمبلی کی موجودہ جنرل نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے یا نہیں۔ وزیر اعظم شاہد خا
قان عباسی کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے لئےآئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے لائی جائے اور قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کے لئےکوئی فارمولا مسلط نہ کیا جائے کیوں کہ وفاقی وزارت قانون و انصاف نے اس ضمن میں وفاقی کابینہ کو تین فارمولے تجویز کئےتھے۔ ان مجوزہ فارمولوں میں پہلا یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی موجودہ 272 جنرل اور خواتین کی 60 نشستیں برقرار رکھتے ہوئے صوبوں میں آبادی کے تناسب سے نشستیں تقسیم کردی جائیں،دوسرا فارمولا یہ تجویز کیا کہ فاٹا کی موجودہ 12 نشستیں برقرار رکھتے ہوئے باقی نشستیں تقسیم کی جائیں جبکہ تیسری تجویز یہ ہے کہ جنرل نشستیں 272 سے بڑھا کر 300 کر دی جائیں اور پھر آبادی کے تناسب سے نئی تقسیم عمل میں لائی جائے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان کی اکثریت جنرل نشستوں کی تعداد بڑھانے کی مخالف ہے اس لئے پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے زور دیا جائے گا کہ قومی اسمبلی کی موجودہ 272 نشستیں اور فاٹا کی 12 نشستیں برقرار رکھتے ہوئے آبادی کے تناسب سے صوبوں میں نشستیں تقسیم کر دی جائیں۔قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم جس بھی فارمولے کے تحت ہو سب سے زیادہ فائدہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کوہوگا اور سب سے زیادہ خسارے میں پنجاب رہے گا کیوں کہ حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق کل آبادی میں پنجاب کی آبادی کا حصہ پچپن اعشاریہ باسٹھ فیصد سے کم ہو کر باون اعشاریہ چورانوے فیصد ہو گیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کا مجموعی آبادی میں حصہ تیرہ اعشاریہ چالیس فیصد سے بڑھ کر چودہ اعشاریہ انہتر فیصد اور بلوچستان کا چار اعشاریہ چھیانوے فیصد سے بڑھ کر پانچ اعشاریہ چورانوے فیصد ہوچکا ہے۔ آبادی کے تناسب سے صوبوں میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم پر مکمل اتفاق رائے کاحصول اس وقت حکومت کودرپیش سب سے اہم چیلنج ہے۔ وقت تیزی سے گزررہا ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت کے پاس اب صرف سات دن باقی ہیں جس میں اسے نہ صرف متحد ہو کرنئی حلقہ بندیوں کے لئےآئینی ترمیم کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے متفقہ طور پہ منظور کرانا ہے بلکہ عوام کو یہ یقین بھی دلانا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹری پر گامزن رکھنے کے لئے عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوں گے۔ ان سات دنوں میں جمہوری قوتوں کو پارلیمان کے ذریعے یہ پیغام بھی دینا ہے کہ عام انتخابات کا التوااور کوئی عذر کسی صورت قبول نہیں کیا جائےگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے