سر رہ گزر ہمیں چین سے رہنے دو ورنہ ۔۔۔

امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے کہا ہے:پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو ہم کریں گے، دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، مسٹر ٹلرسن، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا اتنا ہی جذبہ ہے تو اپنے بغل بچے بھارت میں مقبوضہ کشمیر جا کر وہاں دنیا کی بدترین بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کیجئے، پاکستان اپنا نفع نقصان خوب سمجھتا ہے، اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے آخری دور میں داخل ہو چکا ہے باقی یہ کہنا کہ پاکستان میں محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، تو گدلا پانی آپ کی آپ کے بھائیوال بھارت کی جانب سے آ رہا ہے، ہمارا پانی گدلا کرنے کی ضرورت نہیں، پاکستان ایک آزاد خود مختار ایٹمی ریاست ہے، امریکہ ہو یا کوئی اور کسی کو ہماری جغرافیائی حدود میں کارروائی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں، بعض تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ آپ مودی کی زبان بول رہے ہیں، حالانکہ مودی کے منہ میں آپ کی زبان ہے، یہ جو بھارت ایک عرصے سے کنٹرول لائن پر منہ کی کھا رہا ہے یہ مار بھی اسے آپ کے توسط بلکہ آپ کے گود لینے پرپڑ رہی ہے، مسٹر ٹلرسن جب بھارت گئے تو مقبوضہ کشمیر کی سیر نہیں کی جہاں جنت نظیر وادی کے مالکوں کے منہ میں، آنکھوں میں گولی ماری جاتی ہے، جہاں بھارت کے سفاک فوجی گھروں میں گھس کر عصمتیں لوٹتے ہیں، اور بھارتی نیتا اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ظالمانہ مذاق پائوں تلے روند کر اُڑا رہے ہیں، پاکستان میں نام نہاد ٹھکانے ڈھونڈنے اور قرار دینے والا کلبھوشن آج بھی پاکستان میں ہے، اور اس کا محفوظ نیٹ ورک بھی، پاکستان کے ساتھ یہ امریکی دوغلا پن نہیں چلے گا، اب ڈرون مودی کا ہو یا آپ کا گرایا جائے گا۔
٭٭٭٭
پہلے خوشحالی پھر خوش اخلاقی
تجزیہ کار کہتے ہیں:گالم گلوچ، بدتمیزی، زبان درازی ملک کو کس جانب لے جایا جا رہا ہے۔ حسن اخلاق ایک ایسی فضیلت ہے کہ جس میں یہ نہیں اس کے پاس کچھ بھی نہیں، لیکن یہ امر بھی غیر اہم نہیں کہ پہلے معیشت گئی پھر اخلاقیات بھی جاتی رہی، اسی لئے حضور ختم الرسل ﷺ نے فرمایا ’’مجھے خدشہ ہے کہ کہیں محرومیاں لوگوں کو کافر نہ بنا دیں‘‘ آج جن قوموں میں حسن اخلاق ہے وہاں غربت، افلاس، محرومی کا پہلے تدارک کیا گیا، اور جب لوگ فکر معاش سے آزاد ہوئے تو مسکراہٹیں ان کے چہروں کی رونق اور لازمہ بن گئیں، ہمارے ہاں ہر شعبے میں ترجیحات کی ترتیب غلط ہے، تنگدستی دیکر حسن اخلاق کی تلقین کرتے ہیں، اگر غریب عوام خوشحال ہوتے تو جو لیڈران گالم گلوچ کا کلچر عام کرنا چاہتے ہیں ان کی سرے سے کوئی بات ہی نہ سنتا، ایک نوخیز مزدور میرے محلے کا میرے پاس آیا کہ آپ کی گلی میں فلاں شخص نے مجھ سے رات گئے تک کام لیا اور بہت تھوڑی مزدوری دی میں نے کہا یہ ناکافی ہے، تو اس نے گالیاں دے کر دھکے مار کر مجھے رخصت کر دیا، اب میں اگرچہ بے بس تھا لیکن نہ جانے کیسی غیبی قوت مجھ میں آ گئی کہ میں نے اسے کہا آئو میرے ساتھ اس کے پاس چلتے ہیں، میں نے دستک دی وہ بندہ باہر نکلا، میں نے مزدور سے کہا تمہاری کتنی مزدوری بنتی ہے اس نے کہا 700روپے تمہیں کتنی مزدوری ملی اس نے کہا 300روپے میں نے اس شخص سے کہا اس کے باقی 400روپے اسے دے دو، اس نے میرے چہرے کے تاثرات دیکھ لئے تھے اندر گیا اور 400روپیہ مزدور کی ہتھیلی پر رکھ دیئے، میں مزدور کو لے کر وہاں سے خاموشی کے ساتھ واپس آ رہا تھا تو وہ 15سالہ مزدور مجھ سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، میں ایک شدید کرب میں تھا جسے کم کرنے کے لئے میں نے اسے 500کا نوٹ دینا چاہا مگر اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا میری مزدوری مجھے مل گئی یہی کافی ہے، اور میں اس کی اخلاقیات کو دیکھ کر حیران ہوا۔
٭٭٭٭
ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی
اس وقت مہنگائی کی قیامت برپا ہے، اس کے باوجود بھی سرکاری، غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ساڑھے سترہ فیصد انکم ٹیکس کاٹا جاتا ہے، یہ ٹیکس، جب یہ حکومت آئی تھی سات فیصد تھا، پہلے اسے 15فیصد کیا گیا اس کے بعد ساڑھے 17فیصد، ہم ان کالموں میں تنخواہ دار طبقے کے پُر زور مطالبے پر کئی بار لکھ چکے ہیں کہ یہ انکم ٹیکس 7فیصد کر دیا جائے مگر زمین جنبد نہ جنبد گل محمد سارے ملازمین اوپر کی کمائی کھانے والے نہیں ہوتے بلکہ ان کی اکثریت ہے، جو افراد ماہانہ گنی چنی تنخواہ پر ہی گھر چلاتے ہیں ان کے لئے نئے منی بجٹ کی آمد کے بعد گزارہ کرنا مشکل ہو گیا ہے، وزارت خزانہ اس سلسلے میں ہمارے ان الفاظ کو محدود آمدنی والے ملازمین کا پُر زور احتجاج سمجھ کر تنخواہوں پر انکم ٹیکس 7فیصد کر دے، بازار میں نرخ اب دسترس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، ہم ان کی بات کر رہے ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور لگی بندھی حق حلال کی ماہانہ تنخواہ پر ہی گزر بسر کرتے ہیں، بلاشبہ حکومتیں ٹیکس سے چلتی ہیں لیکن یہ ٹیکس تنخواہ دار ملازمین کی اوقات کے مطابق ہوں تو بسر و چشم، اور اگر ملازمین ہی نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے قرضے اتارنے ہیں اور تہہ در تہہ ٹیکس دینا ہیں تو یہ پھر مزدورکے ساتھ ذیادتی ہو گی، نجی اور سرکاری ملازمین کی جانب سے حکومت وقت کی خدمت میں درخواست ہے کہ تنخواہوں پر ٹیکس 7فیصد ہی مقرر کیا جائے کہ اس سے زیادہ ظلم ہے، اگر محلاتی زندگی گزارنے والے خدا خوفی کریں تو بندہ ملازم کی اوقات کا بھی خیال رکھیں، اتنا نہ نچوڑیں کہ ملازمین کو کاٹو تو بدن میں لہو نہ ہو، اور اتنا نہ توڑو کہ وہ آئین اخلاقیات کی شق ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
٭٭٭٭
سچ تو سچ ہے اثر رکھتا ہے!
….Oمصدق ملک:حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی انتخابات 2018میں ہوں گے۔
مصدق، تصدیق کر دیں تو پھر شک و شبہ کی کیا گنجائش؟
….Oکوٹ مٹھن میں تنخواہ مانگنے پر چار افراد نے ڈرائیور کی زبان کاٹ دی۔
اگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے تو قرآن کی آیت قصاص کے حکم کے مطابق ان چاروں کی زبانیں کاٹ دی جائیں پھر کبھی کوئی اس ملک میں کسی کی زبان نہیں کاٹے گا، مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ہم قرآن حکیم کے واضح قوانین پر عملدرآمد نہیں کراتے، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے آئین میں لکھ دیا ہے کہ قرآنی تعلیمات سے متصادم فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔
….Oکشمیریوں کی مظلومیت دنیا کو کیوں نظر نہیں آتی۔
دراصل دنیا نابینا ہو چکی ہے، قیامت کو ٹٹول رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے