آزادی صحافت کے "نامعلوم” قاتل

اب تک دنیا بھر میں آج تک ہزاروں صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے جن میں اکثریت کے قاتل نامعلوم ہیں، اسی طرح پاکستان میں سو سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں ایک دو کے سوا باقی کے نامعلوم قاتل اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں، جو آئے روز ایک اور صحافی پر حملہ کرکے برائے نام طاقت ور میڈیا اور برائے نام بااختیار حکومت کو للکارتے کہ اگر آپ میں ہمت ہے تو ہمیں پکڑ کر دیکھاو؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس میڈیا کے ایک خبر پر وزیراعظم نااہل ہوجاتے ہیں کیا وہ اپنے قاتلوں کو بےنقاب کرپائےگا، یا حکومت انہیں پکڑ پائے گی؟

احمد نورانی پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ سے منسلک ہیں جنہوں نے جہانگیر ترین اور علیم خان کی آف شور کے حوالے سے سب سے پہلے خبر دی جبکہ سابق صدر مشرف کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک خریدیں گئیں جائیدادوں کے حوالے سے ایک تفصیلی خبر بھی دی جس میں اہم سوالات اٹھائے گئے تھے پھر چاہے نیب میں چلنے والے کیسز ہوں یا خلاف ضابطہ تقرریو ں کا معاملہ ہو احمد نوارنی کی خبریں ہمیشہ ہیڈلائنز کا مرکز رہیں، آحمد نوارانی نے عمران خان کی آف شور کمپنیز کے بارے میں سب سے پہلے خبر بریک کی تھی جبکہ نواز شریف کی آف شور کمپنیوں سے متعلق بیرون ملک جائیدادوں اور منی ٹریل کے حوالے سے 13سوال بھی انہی نے ہی اٹھائے تھے جو جے آئی ٹی کی تفتیش میں بعد میں انتہائی اہمیت اختیار کر گئے تھے۔

احمد نورانی پر حملہ کیوں کیا گیا؟ یا پھر اسکے اصل مقاصد کیا ہیں یقینا مزکورہ صحافی اور ان کے دوست حملہ آوروں کو جانتے ہیں مگرسی میں یہ ہمت تک نہیں کہ کوئی سرعام ان کا نام لے سکے آخرایسا کیوں؟ احمدنورانی پر حملہ کسی ایک صحافی یا کسی ایک میڈیا گروپ پر حملہ نہیں اصل میں یہ حملہ آزادی اظہاررائے پرہے جو پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو فراہم کرتا ہے مگر جو لوگ پاکستان کے آئین کے برعکس چلتے وہ ہمیشہ سے اس بےچارے آئین کی دھجیاں اڑاتے آئے ہیں اور شائد تب تک یہ ناگزیر عمل جاری و ساری رہے گا جب تک پاکستان میں میڈیا اور پارلیمنٹ مکمل آزاد اور بااختیار نہیں بن جاتے

رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہو جس سے اختلاف اسے مار ڈالیۓ!

تبھی تواسلام آباد جیسے پاکستان کے درالخلافہ”زیرو پوئینٹ” پر پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ معروف صحافی احمد نورانی غیر محفوظ رہا اور تشدد کا نشانہ بن گیا، پھر زرا ان صحافیوں کے بارے میں بھی سوچیئے جو خیبرپختونخواہ اور بلوچستان جیسے غیر محفوظ علاقوں میں آزادی اظہار رائے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگر میں اپنی بات بتاوں تو جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو میرا سارا دن لمحہ بہ لمحہ اپنی خیر و آفیت سے متعلق اپنے بھائی اور باپ کو ٹیلی فون پر بتاتے گزر جاتا ہے، اور بھی کئی میری طرح کے غیر معروف اور چھوٹے میڈیا گروپ سے وابستہ لوگ کس قدر غیر محفوظ ہونگے اور کن کن مسائل کا سامنا کررہے ہیں جس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔

جس رفتارسے پاکستان اور دیگر ممالک میں دن بدن حقیقت کہنے والے صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سچ بولنے والے صحافیوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے، اگر صحافی برادری ‘ایک پر حملہ سب پر حملہ” کے نعرے کیساتھ ایک سو یکجاء نہ ہوئی تو یہ آزادی صحافت کے دشمن ہمیں ایک ایک کرکے یوں ہی کاٹتے چلے جائیں گے، اور خدا نہ خواسطہ کہ کبھی کوئی وقت ایسا بھی آئےکہ پروفیشنل صحافیوں کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے!

جب کبھی بھی طاقتور "نامعلوم” لوگوں کیطرف سے پاکستانیوں کونشانہ بنایا جاتا ہے تو پاکستان کے دشمنوں کو ریاست پاکستان اور اسکے عسکری اداروں کو بدنام کرنے کا جواز مل جاتا ہے اور یہ موقع دشمنان پاکستان کو ہم صحافی نہیں بلکہ وہ نام نہاد محب وطن پاکستانی "نامعلوم افراد” فراہم کرتے ہیں لہذا ہمارے اداروں کے سربرہان کو چاہئے کے ایسے عناصر کا خاتمہ کریں جو اپنی نا اہلیوں اور غیر آئینی حرکتوں سے ہمارے دشمنوں کو پاکستان اور اسکے عظیم اداروں کو بدنام کرنے کا موقع دیتے ہیں، اور پھر جب ہم ان ”نامعلوم” مافیاء کو بےنقاب کرتے ہیں تو ہمیں غدار وطن، قرار دے دییا جاتا ہے۔

آخر میں ایک شعرآزادی صحافت کے قاتلوں کے نام۔

بند کمروں کی صحافت میرا منشور نہیں
جو بات کہوں گا سرے بازار کہوں گا۔
تم رات کی سیاہی میں مجھے قتل کروگے؟
میں صبح کی اخبار کی سرخی میں ملوں گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے