کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے

کھلے آسمان تلے سوتے تھے، تارے گن گن رات گزارتے تھے، سوچتے تھے ہر آنے والا کل آج سے بہتر ہوگا، ہر نئی صبح ایک سپنے کے ساتھ طلوع ہوتی، خواب تھا کہ اپنا دیس بھی ترقی کی منزلیں طے کرے، دعا تھی کہ یہاں وہ فصل گُل ہو جسے اندیشہ زوال نہ ہو، اپنے ملک کے شہر آباد رہیں، ہر سُو نئے چراغ جلیں، امیدیں کبھی دم نہ توڑیں، ہر بُری خبر کے ساتھ خود کو حوصلہ دیتے ابھی کچھ نہیں بگڑا، مایوسی گناہ ہے، ادارے شکستہ ہوتے رہے پر ہم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا، اِس خوش گمانی کے ساتھ کہ ہمارے مقدر کی اچھی خبریں بھی ہمیں ملیں گے، خوشی دستک دے گی….گزشتہ روز مگر ایک چھوٹی سی خبر نے ایک مرتبہ پھر ناامیدی کی فصل بو دی، دل بوجھل ہو گیا، آنکھیں مرجھا گئیں….ٹی وی نے مژدہ سنایا کہ لاہور سے نیویارک جانے والی پی آئی اے کی پرواز جو 1961سے مسلسل جاری تھی، بند کر دی گئی ہے، اتوار کو اِس پرواز نے آخری مرتبہ اڑان بھری….دل ہی ٹوٹ گیا، یوں لگا جیسے مقدر ہی روٹھ گیا ہے۔ بلوچستان کے دور افتادہ گاؤں میں غربت کی لکیر سے نیچے ’’زندہ‘‘ رہنے والوں کے دکھ کے مقابلے میں بظاہر اِس خبر کی حیثیت مونگ پھلی کے دانے جتنی بھی نہیں، سرحدوں پر جان دینے والے محافظوں کے ورثا کے کرب کو دیکھیں تو اِس خبر کی ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں، مگر یہ خبر پی آئی اے کے بارے میں نہیں ہے، یہ خبر پاکستان کے بارے میں ہے۔ کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے۔ سائیکل سوار کا چالان ہوا کرتا تھا اگر اُس کی سائیکل پر بتّی نہ لگی ہوتی، کراچی شہر کو روزانہ صبح باقاعدہ دھویا جاتا تھا، سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بس چلا کرتی تھی، سرکاری سکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے تھے، لاتعداد ممالک کا سفر بغیر ویزے کے ممکن ہوا کرتا تھا، شہر کراچی میں ٹرام چلا کرتی تھی، ہاکی میں کوئی ثانی نہیں تھا، گائیکی میں کوئی مقابل نہیں تھا، قہوے خانوں میں ادبی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں، سب رنگ نکلا کرتا تھا، فنون میں چھپنا اعزاز ہوا کرتا تھا، شہروں کا حسن ابھی پامال نہیں ہوا تھا، دیہات کے اخلاص میں ابھی ملاوٹ نہیں ہوئی تھی، دور افتادہ ریلوے اسٹیشنوں کا رومانس ابھی ختم نہیں ہوا تھا، دریاؤں کا پانی ابھی سوکھا نہیں تھا، پہاڑوں سے برف ابھی پگھلی نہیں تھی، شہر ابھی آلودہ نہیں ہوئے تھے، کراچی کا ہوائی اڈہ ابھی اجڑا نہیں تھا، لاہور کے فلمی دبستان ویران نہیں ہوئے تھے، پی آئی اے کی لاہور نیویارک پرواز بند نہیں ہوئی تھی….کہاں سے چلے تھے، کہاں آ گئے۔
یہ ایک دن کی کہانی نہیں، یہ سات دہائیوں کی داستان ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ان ستّر برسوں میں ہم نے ترقی کی جست نہیں لگائی، موٹر ویز بنی ہیں، ہائی ویز سے ملک کے گاؤں اور اضلا ع جُڑ گئے ہیں، ٹیلی کام سیکٹر کا حجم کئی گنا بڑھ گیا ہے، بینکنگ اور انشورنس سیکٹر کی کارکردگی اچھے خاصے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر ہو گئی ہے، میٹرو بس بن گئی ہے، اورنج ٹرین تیار ہے، آٹو انڈسٹری کی ترقی بھی متاثر کن ہے، میڈیا چینلز کی بہتات ہو گئی ہے، انٹرنیٹ نے انقلاب برپا کر دیا ہے….یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہے مگر کوئی دن ایسا بھی ہوتا ہے جب ایک بری خبر تمام مثبت اشاریوں پر غالب آ جاتی ہے، لاہور نیویارک فلائٹ کا بند ہو جانا بھی ایسی ہی خبروں میں سے ایک ہے۔ ماتم پی آئی اے کا نہیں، ماتم اِس بات کا ہے کہ بے شمار مثبت اشاریوں کے باوجود ہم آخر کیوں اُس طرح سے ترقی نہیں کر پائے جیسے دوسرے ایشیائی ممالک ترقی کر رہے ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے مفید شہری نہیں ہیں، ہم نظام پر تنقید کرتے ہیں، بغیر تحقیق کیے ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں، راست بازی کا لبادہ اوڑھ کر وعظ کرتے ہیں مگر حقیقت میں کوئی مفید کام نہیں کرتے۔ کہیں پڑھی ہوئی ایک بات یاد آئی۔ ستّر کی دہائی سے پہلے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنا بے حد مشکل کام تھا، تقریباً ناممکن، پھر ایک مرد عاقل نے ہلکے وزن کے آکسیجن سلنڈر بنائے، اِن سلنڈرز کا فائدہ یہ ہوا کہ قریباً سو لیٹر آکسیجن اِس ایک سلنڈر میں بھری جا سکتی تھی جس کا وزن تین یا چار کلو سے زیادہ نہ تھا، گویا ایک مفید شخص نے ایک چھوٹی سی مفید چیز بنائی جس نے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا۔ یہی افادیت ہمیں بھی بطور قوم درکار ہے، ہمیں مفید شہری چاہئیں جو مسائل کا حل ممکن بنا سکیں، جو کامن سینس کو بروئے کار لائیں، جن کی ذات بابرکت جمہوریت پر تبرّیٰ کرنے کی بجائے کسی ایسے کام میں استعمال ہو جس کا ملک کو کوئی فائدہ پہنچ سکے، جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایجادات کریں، جو میڈیکل سائنس میں تحقیق کریں یا جو اپنے شعبے میں کوئی چھوٹا موٹا initiativeلے کر نظام کو درست کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ایسے لوگوں کی راہ میں ایک رکاوٹ یہ آتی ہے کہ جب دوسرے لوگ انہیں کام کرتا دیکھتے ہیں تو حسد میں مبتلا ہو کر اِن کے خلاف منفی باتیں پھیلاتے ہیں کیونکہ اِن لوگوں کو یہ احساس جرم ہوتا ہے کہ وہ خود ملک کے لئے کوئی کام نہیں کر سکے سو کیسے مان لیں کہ کوئی دوسرا خلوص نیت سے مفید کام کر سکتا ہے لیکن ان loosersسے گھبرانا نہیں چاہئے، رکشوں کے پیچھے ایسے ہی لوگوں کے لئے لکھا ہوتا ہے ’’محنت کر، حسد نہ کر۔‘‘
دوسری وجہ بھی دلچسپ ہے۔ بطور قوم ہم ہر وقت تباہی کے موڈ میں رہتے ہیں، ہمارا مزاج تعمیری نہیں ہے، ہر وقت ہم دنیا میں تباہی بربادی کے خواب دیکھتے ہیں، مثلاً ہم نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، عنقریب امریکہ بھی تباہ ہو جائے گا، ایک صاحب کی خواہش تھی کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ ایٹم بم باندھ کر بھارت میں پھٹ جاتے، ویسے ایٹم بم کی خواہش تو انہوں نے یونہی کر دی اگر وہ اکیلے بھی پھٹ جاتے تو بھارت کے لئے کافی تھا۔ ہمیں اِس مزاج کو تبدیل کرنا ہوگا، دنیا میں ہر کسی کو اپنا دشمن سمجھ کر نیست و نابود کرنے کی کوشش ترک کرکے تعمیری مزاج اور مثبت رویہ اپنانا ہوگا۔ اسی کے ساتھ تیسری وجہ بھی جڑی ہے، سازش میں ناکامی اور نالائقی کا جواز تلاش کرنا، ہم چونکہ دنیا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ہمیں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ہے کہ پوری دنیا ہمہ وقت ہمارے خلاف ہی سازشوں میں مشغول رہتی ہے سو ہم اپنی تمام تر ناکامیوں کا ذمہ دار دشمن دنیا کو ٹھہراتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے انفرادی سطح پر اگر ہم ناکام ہوں تو پولے سے منہ کے ساتھ اِس کی وجہ کرپشن اور سفارش بتا کر یوں بری الذمہ ہو جاتے ہیں گویا اپنی نالائقی تو کوئی وجہ ہی نہیں۔
پی آئی اے کی فلائٹ نے کچھ زیادہ ہی جذباتی کر دیا وگرنہ اس سے زیادہ بُری اور مایوس کُن خبریں ہم آئے دن پڑھتے ہیں اور بغیر کسی جذباتی تغیر کے اخبار کا ورق پلٹ کر اسپورٹس پیج پر جا پہنچتے ہیں۔ کچھ باتیں مگر اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوتی ہیں، پی آئی اے کی یہ خبر بھی ایسا ہی تنکا ثابت ہوئی، کم از کم مجھ ایسے شخص کے لئے جسے کچھ کچھ عرصے بعد ناسٹلجیا ہو جاتا ہے۔ دل کرتا ہے کوئی ٹائم مشین ایجاد کر کے ماضی میں واپس چلا جاؤں۔ کاش کبھی ایسا ممکن ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے