یہ ’’بیانیہ‘‘ کون ہے کیا ہے ؟

ہم جیسے پرانے زمانے اور اگلے وقتوں کے کالم نگار یا بوڑھے طوطے ہمیشہ کسی نہ کسی مشکل میں گرفتار ہوتے رہتے ہیں کیونکہ صحافت اور پھر خاص طور پر کالم نگاری اور کالم نگاری میں خصوصی طور پر ’’دانشور انہ کالم نگاری‘‘ میں روزانہ نئی نئی اصطلاحات پھوٹتی رہتی ہیں۔ ایک کے بارے میں جان کاری حاصل کرتے ہیں تو اس وقت تک کوئی نئی ’’ایجاد‘‘ ہو چکی ہوتی ہے یعنی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

کافی عرصہ پہلے ایک اصطلاح ’’ڈاکٹرائن‘‘چلتی تھی جو ہر دانشور کے قلم اور منہ سے اگل رہی تھی، اس بارے میں جانا تو فیشن بدل چکا تھا اور نیوورلڈ آرڈر کا سامنا تھا۔ اس طرح نئی اصطلاحات کے پیچھے ہانپتے ہوئے چلے تو کچھ عرصہ پہلے ’’پیج‘‘ کا غلغلہ ہوا، ہر بات کو کسی نہ کسی ’’پیج‘‘ پر لایا جاتا ہے فلاں فلاں ایک ’’پیج‘‘ پر ہیں اور فلاں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ بڑی کوشش کی کہ کسی طرح اس کتاب یا صفحے کا پتہ لگائیں جن میں ہیں یہ ’’پیج بندی‘‘ پائی جاتی ہو۔ دراصل ان دنوں ہم اپنی کنڈولیزارائس کے ساتھ ایک ’’پیج‘‘ پر ہونے کے تمنائی تھے، لیکن افسوس کہ جب تک ہم وہ کتاب اور پیج تلا ش کرتے
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا حاصل
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
خدا اس چھوٹے بش کو بھی ویسا ہی رسوا کرے جیسا کہ ایک تازہ ترین خبر کے مطابق اس کے بڑے ’’بش‘‘ کو ایک ہالی وڈ اداکارہ کو چھیڑنے پر رسوائی نصیب ہوئی ہے اور بڈھے کو اپنے پوپلے منہ سے معافی مانگنا پڑی کہ میں تو مذاق کر رہا تھا۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی یہ کوئی عراق یا افغانستان تھا کہ تم مذاق کر رہے تھے بڑھوا کہیں کا۔ خیر یہ بات چھوڑئیے۔ جلے دل کا ایک پرانا پھپھولہ تھا جو ہم نے پھوڑدیا۔ لیکن اس ’’بیانیہ‘‘ کا کیا کریں گے کہ ہر دانشور اور کالم نگار کے قلم کی نوک پر ہے بلکہ ایک طرح سے کان پر رکھا ہوا ہے۔
مگر لکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
جسے دیکھو’’بیانیہ‘‘ بیانیہ پکار رہا ہے۔ اس کا بیانیہ اس کا بیانیہ مسلم لیگ کا بیانیہ، پی ٹی آئی کا بیانیہ ، پی پی کا بیانیہ جماعت اسلامی کا بیانیہ اور حضرت مخقطات والے کا بیانیہ۔ بلکہ اس دن تو ایک کالم نگار +دانشور+تجزیہ نگار نے تو نریندر مودی کا ’’بیانیہ‘‘ بھی گلے سے پکڑ لیا تھا۔
ایسا لگتا ہے ’’بیانیہ‘‘ نہیں ڈینگی مچھر ہے جو ہر کسی کو کاٹ رہا ہے اور وہ بیانیہ بیانیہ کر رہا ہے۔
اپنے ایک دانشور بھائی کالم نگار سے پوچھا ہاں یہ وضاحت پہلے ہو جائے کہ ہم تو اسے بھائی، دانشور اور کالم نگار سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف سے ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ ان کا بیانیہ ہمارے بارے میں کیا ہے۔ لیکن چونکہ تازہ تازہ ’’مشرف بہ بیانیہ‘‘ ہوئے ہیں اور اپنی تحریر کے تقریباً ہر جملے میں دو چار بار ’’بیانیہ‘‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔لیکن اس کے جواب سے ہم سمجھ گئے کہ وہ ہمیں اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ ہم ’’بیانیہ‘‘ کو سمجھ پائیں گے اس لیے ویسا ہی جواب دیا جیسا کہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو اکثر اپنے خطبات میں بتاتا ہے کہ اے لوگوں نیکی کرو اور برائی مت کرو اس لیے کہ نیکی جو ہوتی ہے وہ نیکی ہوتی ہے اور اور برائی ہمیشہ برائی ہوتی ہے برائی کبھی نیکی نہیں بن سکتی اور نیکی کبھی برائی۔اس لیے نیکی کرو اور برائی مت کرو کیونکہ نیکی نیکی ہوتی ہے اور برائی برائی ہوتی ہے جو نیک ہوتے ہیں وہ نیکی کرتے ہیں اور جو برے ہوتے ہیں وہ برے ہوتے ہیں ایک مرتبہ ہم نے پوچھا بھی تھا کہ ان دونوں میں فرق کیا ہے تو بولے کہ جو نیکی اور برائی میں ہوتا ہے۔
مزید پوچھا نیکی کیا ہے بولے جوبرائی نہیں ہے اور برائی؟ وہ نیکی نہیں ہے۔بیانیہ کے بارے میں بھی ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا حالانکہ اس دانشور+کالم نگار+نجزیہ نگار+ بیانیہ نگارنے تقریباً آدھا گھنٹہ ہمیں سمجھایا تھا لیکن اس آدھے گھنٹے کے ’’بیانیہ‘‘ میں کہیں بھی ’’بیانیہ‘‘ نہیں تھا گویا مقصد کا پنچھی رہ گئے ہر ہاتھ میں۔جس طرح کہتے ہیں ملا کی دوڑ مسجدتک ہوتی ہے ہماری دوڑ بھی لغتوں تک ہوتی ہے۔ بہت ساری لغات دیکھیں اردو کے بعد فارسی اور عربی لغات بھی چھان ڈالیں لیکن ’’بیانیہ‘‘ کا کوئی پتہ نہیں چلا ہر جگہ صرف ’’بیان‘‘ کا ذکر تو تھا لیکن ’’بیانیہ‘‘ کا سراغ کہیں بھی نہیں ملا۔ حیرت ہوتی کہ آخر یہ ’’بیانیہ‘‘ کا سرخاب آیا کہاں سے بیان اور بیانات تو عرصے سے سن رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ زندگی بھر ہم نے صرف ’’بیانات سنے اور پڑھے ہیں اور بیانات کے سوا کم از کم پاکستان میں تو اور کچھ پڑھنے کے لیے دستیاب ہی نہیں ہے لیکن یہ ’’بیانیہ‘‘؟
اپنے ٹٹوئے تحقیق کو دوڑایا لیکن تجھ کو کہیں نہ پایا۔ البتہ یہ ہم نے معلوم کر لیا کہ ’’بیان‘‘ نے نہ تو کہیں شادی کی ہے اور نہ ہی اس کی بیوی یا بیٹی اس نام کی کبھی پیدا ہوئی ہے تو پھر یہ ’’بیاہ‘‘ ہے کون؟ جو آج کل پوری اخباری اور چینلائی دانش پر سوار ہے۔ دراصل یہ لفظ یعنی ’’بیانیہ‘‘ اتنا خوبصورت گول مٹول اور گل گوتنا سا ہے کہ ہم بھی اسے گود لینا چاہتے ہیں لیکن جب پتہ ہی نہیں کہ کون ہے کیا ہے اس کا ویراباؤٹ کیا ہے تک کیسے کر پائیں گے؟
صرف ایک ہی واہ دکھائی دے رہی ہے کہ ہم بھی بغیر سوچے سمجھے دیکھے بھالے اس کا استعمال شروع کردیں۔ تو کل علی اللہ
در طریقت ہر کہ بیش سالک آئد خیر اوست
در صراط مستقیم اے دل کے گمراہ نیست
تو ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ یہ جوبیانیہ ہے یہ بہت ہی اچھا بیانیہ ہے جس کا جو بھی بیانیہ ہے وہ اپنی جگہ بیانیہ کیونکہ بیانیہ کچھ بھی کرلے ہمیشہ بیانیہ ہی رہتا ہے اس کا الٹا سیدھا بھی کوئی نہیں ہے گڑ کی ڈلی ہے جس طرف سے بھی چکھو بیانیہ ہی ہوگا۔ تقریباً ہر پارٹی اور لیڈر کے پاس جو بھی بیانیہ ہے اچھا بیانیہ ہے اور جس سی دانشور کالم نگار تجزیہ کار اینکر تھنکر نے جسے بھی بیانیہ کہا وہی بیانیہ ہوتا ہے اور بیانیہ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے