جنگ ختم ہوگئی لیکن جنگ کے اثرات ابھی باقی تھے‘ فرانس کے ہر شہری نے جنگ میں زخم کھائے تھے‘ لوگ بے روزگار ہوئے‘ عمارتیں ڈھے گئیں‘ لاشیں بھی گریں اور ہزاروں لاکھوں لوگ اپنے جسمانی اعضاء سے بھی محروم ہوئے‘ پورا فرانس زخمی تھا‘ میتھیو ریکرڈ نے اس فضا میں آنکھ کھولی۔
وہ 15 فروری 1946ء کو مشرقی فرانس کے قصبے ’’ایکس لے بینز‘‘میں پیدا ہوا‘ والد فلاسفر بھی تھا اور حساس بھی‘ والد کے دماغ پر جنگ نے گہرے اثرات چھوڑے‘ وہ ہر وقت اداس رہتا تھا‘ فرانس میں اس وقت شاید ہی کوئی شخص خوش ہو‘ لوگ اداسی کی چادر تلے زندگی گزار رہے تھے‘ میتھیو ریکرڈ کا پورا بچپن اس اداسی میں گزرا‘ وہ اسکول جاتا تھا‘ ماں کے ساتھ بازار میں خریداری کرتا تھا‘ وہ لائبریری اور تھیٹرز میں بھی جاتا تھا اور وہ کافی شاپس اور ریستورانوں میں بھی بیٹھتا تھا مگر اسے کسی جگہ خوشی دکھائی نہیں دیتی تھی‘ لوگ اس وقت یوں چلتے تھے جیسے اندھے دھند میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوں۔
فرانس کے دس بڑے شہر قہقہے کو ترس گئے تھے‘ موسیقی سے بھی شوخی اڑ گئی تھی‘ میتھیو اس ماحول میں پروان چڑھتا رہا یہاں تک کہ اس نے 1972ء میں ’’مالیکیولر جینیٹکس‘‘ میں پی ایچ ڈی کر لی‘ وہ اس کے بعد عملی زندگی میں آ گیا‘ وہ فوٹو گرافی کے جنون میں مبتلا تھا‘ وہ فری لانس فوٹو گرافر بن گیا‘ وہ اداس چہرے اور غم زدہ فضا کو کیمرے کی فلم پر منتقل کرتا تھا‘ اس نے اس دوران دوست بھی بنائے‘ گرل فرینڈز بھی بنائیں‘ روپیہ پیسہ بھی اکٹھا کیا‘ گھر بھی بنایااور گاڑی بھی خریدی‘ وہ ایک نارمل زندگی گزار رہا تھا۔
اس کے پاس سب کچھ تھا‘ گھر‘ گاڑی‘ روپیہ‘ گرل فرینڈز‘ کام اور دوست احباب لیکن میتھیو ریکرڈ کی زندگی میں اس کے باوجود کسی چیز کی کمی تھی‘ وہ اپنی ذات میں ایک مہیب خلاء محسوس کرتا تھا‘ وہ خوش نہیں تھا‘ وہ محسوس کرتا تھا وہ کسی قیمتی چیز سے محروم ہے‘ کوئی ہے جو اس کی ذات میں شامل نہیں‘ کوئی چیز ہے جو وہاں نہیں جہاں اسے ہونا چاہیے‘ میتھیو وہ چیز تلاش کر رہا تھا‘ وہ اس تلاش میں چرچ بھی گیا۔
سینا گوگا بھی‘ مسجد بھی اور مندر بھی‘ وہ نفسیات دانوں کے زیر علاج بھی رہا اور اس نے جادو ٹونے بھی کیے‘ وہ جوگیوں سے بھی ملا اور وہ جنگلوں‘ ویرانوں اور صحراؤں میں بھی مارا مارا پھرتا رہا لیکن اس کے اندر کا خلاء‘ اندر کی کمی پوری نہ ہوئی‘ میتھیو نے تنگ آ کر فوٹو گرافی چھوڑی اور ’’بودھ ازم‘‘ جوائن کر لیا‘ وہ بھکشوؤں کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا‘اس نے شروع میں سادگی اختیار کی‘ پھر یوگا کلاسز اسٹارٹ کیں اور آخر میں اس نے بھکشوؤں کے کپڑے اور لکڑی کے جوتے پہننا شروع کر دیے۔
وہ بھکشوؤں کے ساتھ بھارت بھی چلا گیا‘ وہ ہمالیہ کے غاروں میں بھی رہا اور وہ بودھ راہبوں کی درس گاہوں میں بھی داخل رہا‘ یہ تپسیا کام آئی اور میتھیو ریکرڈ آہستہ آہستہ پرسکون ہوتا گیا‘ وہ اندر سے بھرتا چلا گیا‘ وہ اس زمانے میں بنگال کے قصبے دارجیلنگ پہنچ گیا‘ اس نے مضافات میں ایک پہاڑی گاؤں تلاش کیا اور وہ وہاں گوشہ نشین ہو گیا‘ وہ پانچ سال جدید معاشرے سے کٹا رہا‘ وہ صرف ضروریات زندگی کے لیے باہر نکلتا تھا اور جلد واپس آ جاتا تھا۔
وہ اپنی ضروریات بھی کم کرتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ دو دو‘ تین تین دن بغیر کچھ کھائے پئے گزار دیتا تھا‘ وہ ہمہ وقت مراقبے میں رہتا تھا‘ وہ سانس روکتا اور اپنے من کی دنیا میں چھلانگ لگا دیتا تھا‘ مراقبہ اسے اندر سے نہال کرتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ پانچ سال بعد باہر نکلا تو وہ مکمل طور پر ایک مختلف انسان تھا‘ مطمئن‘ مسرور اور صحت مند۔میتھیو ریکرڈ نے تپسیا کے ان برسوں میں محسوس کیا وہ دراصل خوش نہیں تھا۔
خوشی وہ کھوئی ہوئی میراث تھی جسے وہ برسوں سے تلاش کر رہا تھا‘ یہ میراث سماجی آلودگی‘ مفادات کے نہ ختم ہوتے کھیل اور مادیت کے گدلے پانیوں میں گم تھی‘ وہ جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکل کھڑا ہوا‘ وہ جب بدن سے نکل کر من کی دنیا میں اتر گیا تو وہ خوشی تک پہنچ گیا‘ اس نے نروان پا لیا۔
میتھیو ریکرڈ نے اس کے بعد کتابیں لکھنا شروع کر دیں‘ وہ اس وقت نوکتابوں کا مصنف ہے‘ یہ آج بھی فوٹو گرافی کرتا ہے‘ اس نے بودھوں کی قدیم تحریروں کا ترجمہ بھی کیا‘ اس نے1998ء میں اپنے والد کے ساتھ مکالمے پر ’’دی مونک اینڈدی فلاسفر‘‘ کے نام سے ایک معرکۃالآراء کتاب لکھی‘ یہ کتاب بیسٹ سیلر رہی‘ یہ اب تک 21 زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور یورپ میں اس کی ریکارڈ سیل ہوئی‘ میتھیو ریکرڈ کتابوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے فری میڈیکل کلینکس‘ اسکول اور یتیم خانے بنا رہا ہے۔
یہ ’’مائینڈ لائف انسٹی ٹیوٹ‘‘ کا بورڈ ممبر بھی ہے‘ یہ ادارہ بودھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ لہاموڈون ڈرب نے 1991ء میں قائم کیا تھا‘ یہ 26برسوں سے انسانی دماغ کو سائنسی بنیادوں پر پرکھ رہا ہے‘ میتھیو نے اس ادارے کو اپنے اوپر ہر قسم کے تجربے کی اجازت دے رکھی ہے‘ یہ ’’ورلڈ ہیپی نیس فورم‘‘ کے ساتھ بھی منسلک ہے‘ یہ فورم آسٹریلین بزنس مین ٹونی اسٹیل نے 2006ء میں تخلیق کیا تھا‘ یہ فورم لوگوں کو خوشی کی ٹریننگ دیتا ہے‘ میتھیو فورم کی سڈنی‘ لندن‘ سان فرانسسکو اور سنگا پور میں ہونے والی کانفرنسوں میں گیسٹ اسپیکر کی حیثیت سے شریک ہوتا ہے۔
یہ لوگوں کو خوشی کی اہمیت بھی بتاتا ہے اور لوگوں کو خوش ہونے کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ ہم یہاں چند لمحوں کے لیے میتھیو ریکرڈ کی اسٹوری روکتے ہیں اور یونیورسٹی آف وسکانسن کے ایک دلچسپ تجربے کی طرف آتے ہیں‘یونیورسٹی آف وسکانسن امریکی ریاست وسکانسن کے شہرمیڈیسن میں واقع ہے‘ یہ یونیورسٹی 1848ء میں قائم ہوئی‘ یونیورسٹی کا نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ انوکھے تجربات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے‘ یونیورسٹی کے نیوروسرجری ڈیپارٹمنٹ نے دنیا کے نامور اعصابی سائنس دان ڈاکٹر رچرڈ ڈیوڈ سن کی قیادت میںایک ٹیم بنائی اور اس ٹیم نے بارہ سال قبل انسانی دماغ پر ریسرچ شروع کر دی۔
یہ ریسرچ خوشی اور خوشی کے دوران دماغ سے نکلنے والے کیمیکلز پر مبنی تھی‘ نیورو سرجنز کے یونٹ نے ان بارہ برسوں میں ہزاروں لوگوں پر تجربات کیے‘ تجربات کے نتائج حیران کن تھے‘ مثلاً ڈاکٹروں کو معلوم ہوا مراقبہ کرنے والے لوگ عام لوگوں کی نسبت زیادہ مطمئن‘ خوش اور صحت مند ہوتے ہیں‘ یہ بھی معلوم ہوا ہم میں سے جو لوگ دوسروں کے لیے ’’ہیلپ فل‘‘ ہوتے ہیں وہ زیادہ اچھی زندگی گزارتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا وسیع القلب لوگ زیادہ خوش‘ زیادہ مسرور ہوتے ہیں۔
ہم اب واپس میتھیو ریکرڈ کی طرف آتے ہیں‘ میتھیو ریکرڈ بھی یونیورسٹی آف وسکانسن کے اس تجربے میں شامل تھا‘ یہ بارہ سال نیورو سرجنز کے تجربات کا حصہ رہا‘ ڈاکٹروں نے ہزاروں بار اس کے خون کے نمونے لیے‘ اس کے دماغ کی ہزاروں فلمیں بنائیں اور اس کے سیکڑوں جسمانی ٹیسٹ کیے‘ یہ ان تمام تجربات کے دوران خوش‘ مطمئن اور مسرور پایا گیا۔
ڈاکٹروں کو بارہ برسوں کے دوران میتھیو ریکرڈ کے جسم اور دماغ میں دکھ‘ اداسی‘ غصے اور رنج کا کوئی کیمیکل نہیں ملا‘ وہ سو فیصد مطمئن اور خوش انسان تھا‘ یہ ایک حیران کن بات تھی‘ ڈاکٹروں نے بارہ سال بعد یہ حقیقت تسلیم کر لی اور میتھیو ریکرڈ کو دنیا کا خوش ترین انسان ڈکلیئر کر دیا‘ یہ خوشی کا ٹائٹل حاصل کرنے والا تاریخ کا پہلا انسان ہے‘ یہ اعزاز آج تک کسی انسان کو حاصل نہیں ہوا۔
دنیا بھر کے لوگ میتھیو ریکرڈ سے خوشی کا راز معلوم کرنا چاہتے ہیں‘ میتھیو سے جب بھی خوشی کا راز پوچھا جاتا ہے وہ مسکرا کر جواب دیتا ہے ’’خوشی تک پہنچنا زیادہ مشکل نہیں‘ ہم جب بھی اپنی ذات کے گرد گھومتے ہیں‘ ہمارے اندر موجود منفی کیمیکلز ایکٹو ہو جاتے ہیں‘ یہ کیمیکلز خون میں پھیل جاتے ہیں اور ہم غم زدہ ہو جاتے ہیں‘‘ وہ کہتا ہے ’’آپ اگر خوش رہنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی ذات کے خول سے باہر آ جائیں‘ آپ اپنے بجائے لوگوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں۔
آپ کے اندر خوشی کے کیمیکل پیدا ہونے لگیں گے‘‘ میتھیو کا کہنا ہے ’’آپ اپنے اندر دوسروں کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کر لیں تو آپ اندر سے خوشی سے بھر جائیں گے‘‘ لوگ میتھیو ریکرڈ سے پوچھتے ہیں ’’کیا یہ آسان کام ہے‘‘ وہ جواب دیتا ہے ’’کام کا فارمولہ آسان لیکن کام مشکل ہے‘‘ میتھیو کا کہنا ہے ’’میں نے بھی آہستہ آہستہ یہ گُر سیکھا تھا‘ میں شروع میں مراقبہ کرتا تھا‘ میں پندرہ منٹ تک اپنے آپ کو تمام منفی خیالات سے پاک کر دیتا تھا۔
میں اپنا من خالی کر کے اس میں مثبت خیالات بھر تا رہتا تھا‘ میں نے دیکھا میں شروع میں پریشانیوں‘ دکھوں اور تاسف سے آزاد ہوا اور پھر میں حسد‘ لالچ‘ غصے اور خوف کے چنگل سے آزاد ہوتا چلا گیا‘ میں جوں جوں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا گیا میں توں توں مراقبے میں اضافہ کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میرے جسم میں منفی کیمیکلز ختم ہو گئے اور میں دنیا کا خوش ترین انسان ڈکلیئر ہو گیا‘‘ میتھیو ریکرڈ کا کہنا ہے ’’میں تین قسم کے مراقبے کرتا ہوں۔
کمپیشن‘ اوپن ائیر نیس اور اینا لیٹک‘ میں اپنے دل میں پوری دنیا کے لیے ہمدردی پیدا کرتا ہوں‘ پھر اپنا دل پوری دنیا کے لیے کھول دیتا ہوں اور آخر میں پرسکون ہو جاتا ہوں‘ یہ تینوں مراقبے میرا دل خوشی سے بھر دیتے ہیں‘‘ میتھیو ریکرڈ کا کہنا ہے غم اور خوشی کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے‘ آپ غم کو دل سے نکال دیں‘ خوشی فوراً وہاں آ بیٹھے گی اور غم کو بھگانے کا بہترین طریقہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی ہے‘ آپ انسانیت کے ہمدرد بن جائیں‘ آپ اپنا سب کچھ لوگوں کے لیے وقف کر دیں‘ غم آپ کے دل سے بھاگ جائے گا اور خوشی وہاں آباد ہو جائے گی‘‘۔
میتھیو ریکرڈ اس وقت نیپال میں رہائش پذیر ہیں۔