بانجھ پن اسباب اور علاج

[pullquote]بانجھ پن، 15 باتیں جاننا بہت ضروری ہیں[/pullquote]

اس پر ہمیشہ میرا دل کڑھتا ہے کہ بچہ پیدا کرے عورت، زچگی کا درد سہے عورت!

بچے پیدا کرنے سے بچنا ہے تو فیملی پلاننگ کے لیے گنی پگ بنے عورت!

حمل ٹھہر گیا ،ضائع کروانے کے لیے بھی تکلیف اٹھائے عورت !

ابارشن کروا کر خدا کی بھی مجرم، قانون کی بھی مجرم اور ذہنی عذاب سہے عورت!

بچہ نہیں ہو رہا تو قصور وار کون؟ پھر وہی عورت!

ہند و پاک معاشرے میں بانجھ کا لقب عورت کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے جوقطعی غلط ہے۔ اگر مرد بانجھ ہو تب بھی معاشرے کو یہی بتایا جائے گا کہ عورت بانجھ ہے اور مرد اس کی محبت میں دوسری شادی نہیں کر رہا۔ اس کیس میں بھی عظمت کا تاج مرد کے سر پر سجا دیا جاتا ہے۔ اگر بانجھ مرد مزید شادی بھی کرلے تب بھی تشخیص اور علاج کے نام پر عموماً قربانی کا جانور عورت ہی کو بنایا جاتا ہے۔

ایک مزیدار لطیفہ ’دبئی انفرٹیلیٹی سنڈروم‘ بھی پڑھ لیجئے۔ شوہر شادی کے دس پندرہ روز بعد ملازمت کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ بہو سسرال میں اجنبی رشتوں میں دن گزار رہی ہوتی ہے۔ شوہر کو کبھی ویزہ نہیں ملتا تو کبھی ملک کا چکر لگانے کے لیے رقم کا انتظام نہیں اور کبھی نوکری سے رخصت نہیں۔ اس دوران شوہر مرد ہونے کی وجہ سے کم از کم ایک امتحان سے بچا رہتا ہے یعنی ’’اتنے سال گزر گئے بچہ نہیں ہوا؟‘‘ کا جملہ سننے سے۔ بہو،سسرال اور معاشرہ شادی کے سال گنتے ہیں جبکہ شادی وہی شروع کے دس پندرہ دن رہی جو دعوتوں میں گزر گئے۔ حمل ٹھہرگیا تو عورت بخشی گئی، نہیں ٹھہرا تو ایک ایسے کولہو میں پلوا دی جائے گی جس سے اس کی امنگوں کا تیل نکلے تو نکلے، ایسے میں بچہ کہاں سے آئے!

٭جب بھی ایسی خاتون اپنی ساس کے ساتھ حمل کے لیے دوا لینے آتی ہے تو سب سے پہلے میں ساس کو باکردار، صابرہ بہو ملنے کی مبارک دیتی ہوں۔ پھر شوہر اور بیوی کے ساتھ رہنے کا وقت گنتی ہوں جو عموماً ایک سال کے وقفے سے پندرہ دن یا دو سال کے وقفے کے بعد دو یا تین ماہ کا ہوتا ہے۔ شادی کا عرصہ برسوں پر محیط ہو تب بھی حمل ٹھہرنے کا ممکنہ وقفہ ان گنے چنے دنوں پر محیط ہوتا ہے جو معاشرے اور سماج سے چرا کر میاں بیوی ساتھ گزار لیتے ہیں۔

[pullquote]حمل کب ٹھہرتاہے؟[/pullquote]

٭عورت کے تولیدی نظام کا سیٹ اپ ایسا ہے کہ ایک تاریخ سے دوسری تاریخ تک کے درمیانی28 سے30 روز میں سے کسی ایک دن انڈہ خارج ہوتا ہے۔ یہ دن عموماً اگلی ممکنہ تاریخ سے ٹھیک چودہ دن پہلے ہوتا ہے۔ یہ انڈہ بارہ سے چوبیس گھنٹے کے لیے نظام تولید میں زندہ رہتا ہے جس کے بعدگر جاتا/ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے ان چوبیس گھنٹے میں زوجین کے مابین دوری قائم رہے تو باقی تمام ماہ میں حمل ہونے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر ماہ میں ایک خاص دن کے چوبیس گھنٹے یعنی ’صرف ایک مکمل دن‘ جو حمل کے لیے موزوں ہے اسے ذہن میں رکھیں تو عورت کے حساب سے ایک سال میں صرف بارہ دن حمل کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔

٭مرد کے تولیدی جراثیم زنانہ نظام تولید میں چند منٹ سے لے کر پانچ دن تک زندہ رہ سکتے ہیں، یعنی رحم میں جرثومے کی زیادہ سے زیادہ عمر پانچ روز ہے۔ مختلف تحقیقات سے ثابت ہوا کہ زیادہ تر حمل انڈے کے اخراج سے ایک سے دو روز پہلے کئے گئے ملاپ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں شامل چند حمل ایسے بھی تھے جو انڈے کے اخراج سے پانچ روز پہلے کے ملاپ کے نتیجے میں وقع پذیر ہوئے۔ جرثومے کی پانچ روزہ زندگی میں ان جراثیم نے اندام نہانی، رحم کی لمبی گردن، رحم اور فیلوپئین ٹیوبز سے انڈے دانی اور انڈے سے ملاپ کے بعد ٹیوبز کے رستے واپس رحم تک کا سفر بھی طے کرنا ہوتا ہے۔

٭اسی طرح خاتون کے انڈے خارج ہونے کا دن ہمیشہ سوفیصد درستگی سے بتانا ممکن نہیں ہوتا، اس لئے اسے بھی احتیاطاً ممکنہ دن سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد تک سمجھ لیجیے یعنی ان مخصوص 24 گھنٹوں کو مزید 48 گھنٹے کے حفاظتی حصار میں لے آئیے تاکہ حمل کا چانس مس نہ ہو۔ سائنس اس وقفے کو زرخیزی کی کھڑکی یا ’فرٹیلیٹی ونڈو‘ کہتی ہے اور اس کا قطعی وقت بیضے کے اخراج سے پہلے کے 12 سے 36 گھنٹے مانتی ہے۔ اب اس مخصوص وقفے میں حمل کا خواہشمند جوڑا کوئی پکنک یا دعوت قبول نہ کرے یعنی گھر پر رہے اور حمل کی خواہش نہ رکھنے والے زوجین ان مخصوص دنوں میں خاص پرہیز رکھیں۔ مردانہ جراثیم کی زنانہ نظام تولید میں 5 روز کی ممکنہ زندگی کے پیش نظر حمل کے لیے مفید تین روز سے بھی 5 دن کا فاصلہ رکھیں۔ اس طرح کے بچاؤ سے زوجین میں سے ہر دو کا کسی بھی تکلیف دہ اور مضر صحت مانع حمل ادویات اور سرجریز سے بچاؤ ممکن ہے۔

٭میں اپنی مریضہ کو ہمیشہ علاج کے آغاز میں ایک تین لفظی موٹو لکھ کر دیتی ہوں’ صبر، حوصلہ، تعاون‘۔ ہر ماہ جب امید بندھ کر ٹوٹ جائے تو صبر کیجیے، حوصلے سے کام لیتے ہوئے علاج جاری رکھیے اور ڈاکٹر سے دوران علاج مکمل تعاون کیجیے۔ وہ ساس جو پوتے کھلانے کی خواہشمند ہے وہ دل بڑا کرے، بیٹا آپ ہی کا ہے، بیوی پا کر ان شاء اللہ بدلے گا نہیں۔ پوتا چاہیے تو بہو کو شوہر کے پاس بھجوانے کا انتظام کریں ،غیرضروری ٹیسٹوں اور علاج سے اس نئے نویلے جوڑے کو بچائیں اور دعائیں سمیٹیں۔ ہاں! اگر ایک نیا شادی شدہ جوڑا ایک سال کا عرصہ بنا کسی دوری کے، ایک ساتھ گزارتا ہے لیکن حمل قرار نہیں پاتا، ایسی صورت میں اس جوڑے کے فریقین کو گائناکالوجسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے اور ابتدائی ضروری ٹیسٹ کروا لینے چاہیں۔ اگر دونوں کے ٹیسٹس درست آئیں تو کسی علاج اور ٹینشن کے بنا مزید ایک سال کا ہنی مون پریڈ مزیدگزاریں۔

اس دوران اگر حمل نہیں ٹھہرتا تو اب وقت ہے کہ ’اسپیشلائزڈ‘ ٹیسٹس کرائے جائیں اور باقاعدہ تشخیص کے بعد متعلقہ کمی/کمزوری/بیماری کا علاج کیا جائے۔ یاد رہے کہ میں یہ تمام ٹائم پریڈ ایک نوجوان جوڑے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتا رہی ہوں۔ اگر فریقین میں سے ایک کی یا دونوں کی شادی لیٹ عمر میں ہوئی ہے یا دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا اس شادی سے پہلے پچھلی شادی میں حمل ہونے یا نہ ہونے کا تجربہ موجود ہے یا آپ کے خاندان خصوصاً بہن بھائیوں میں بانجھ پن موجود ہے تو ایسی صورت میں جوڑے کا وقت قیمتی ہے، اسے ضائع ہونے سے بچایے۔ جلد از جلد اسپیشلسٹ گائناکالوجسٹ سے رابطہ کیجیے۔

٭یاد رکھیے! بانجھ پن کے علاج کے آغاز میں ڈاکٹر زوجین کا ایک انٹرویو کرتا ہے جس میں جوڑے کی ازدواجی روٹین اور طریق کار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر طریقہ علاج طے کیا جاتا ہے۔ بہت سے جوڑوں میں بانجھ پن کی کوئی وجہ تشخیص نہیں کی جا سکتی۔ ایسے جوڑے کے مسئلے کو غیر واضح بانجھ پن ( unexplained infertility ) کہا جاتا ہے۔ بانجھ پن کا علاج مہنگا، طویل اور بسا اوقات تکلیف دہ ہوتا ہے اور آخر میں اس علاج کی کامیابی کی کوئی گارنٹی بھی نہیں دی جا سکتی۔

[pullquote]مرد کے ٹیسٹ[/pullquote]

٭مرد کی زرخیزی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے خصیے مناسب مقدار میں صحت مند تولیدی خلیے پیدا کر رہے ہوں اور یہ خلیے کارگر طور پر اندام نہانی میں داخل کیے جائیں جہاں سے یہ بیضے تک کا سفر اچھے طریقے سے مکمل کر سکیں۔ مرد کے تمام تر ٹیسٹ اس سارے عمل کے دوران درپیش کسی بھی رکاوٹ اور مشکل کی جانچ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور تولیدی اعضاء کی جانچ کے بعد مندرجہ ذیل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں:

[pullquote]1 ۔ مادہ منویہ کی جانچ :[/pullquote]

ایک مرد سے 1 سے 2 مختلف اوقات میں حاصل شدہ نمونوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ نمونے کے حصول کا طریقہ متعلقہ ڈاکٹر یا لیب اسسٹنٹ سمجھاتا ہے۔ مخصوص حالات میں پیشاب میں منی کی موجودگی کی پڑتال بھی کی جا سکتی ہے۔

[pullquote]2 ۔ ہارمون ٹیسٹ: [/pullquote]

خون کے معائنے سے مختلف مردانہ ہارمونز مثلاً ٹیسٹوسٹیرون اور دیگر مثلاً تھائیرائڈ ، پرولیکٹن یا ایل ایچ وغیرہ کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ کسی کمی بیشی کو دور کیا جا سکے۔

[pullquote]3 ۔جینیاتی ٹیسٹ :[/pullquote]

یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں بانجھ پن کسی موروثی مرض کا شاخسانہ تو نہیں۔

[pullquote]4 ۔خصیے کی بائیوپسی:[/pullquote]

چنیدہ کیسز میں خصیے کی کچھ حصے کا نمونہ بذریعہ سرجری حاصل کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف بانجھ پن کی تشخیص کی جاسکے بلکہ خصیے میں موجود زندہ تولیدی خلیے حاصل اور محفوظ /فریز کیے جا سکیں جنہیں بعد میں اسسٹڈ ری پروڈکشن مثلا ٹیسٹ ٹیوب میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

[pullquote]5۔ امیجنگ اسٹڈیز: [/pullquote]

کچھ خاص کیسوں میں دماغ کی ایم آر آئی، کھوپڑی کا ایکسرے (پرانا طریقہ) ، بون منرل ڈینسٹی ، سکروٹل (خصیہ دانی کا) الٹرا ساؤنڈ یا واس ڈیفرنس(خصیے کی رگوں) میں رکاوٹ جانچنے کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

[pullquote]6 ۔ مزید خصوصی ٹیسٹ: [/pullquote]

انتہائی خاص کیسز میں چند مخصوص ٹیسٹ بھی کرائے جا سکتے ہیں مثلاً تولیدی خلیے کی صحت اور کوالٹی چیک کرنے کے لیے یا ڈی این اے میں کوئی ایبنارمیلٹی کنفرم کرنے کے لیے۔

[pullquote]خاتون کے ٹیسٹ[/pullquote]

٭عورت کی زرخیزی و بارآوری کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ اس کی بیضہ دانیاں صحت مند بیضے پیدا کریں۔ اس کا تولیدی نظام اس انڈے کو بیضہ نالیوں سے گزرنے اور مردانہ خلیے سے ملنے کی سہولت مہیا کرے، بارآور انڈہ ٹیوب سے رحم تک جانے اور رحم کی اندرونی جھلی سے چپکنے کے لیے آزاد ہو، عورت کے ٹیسٹ اسی عمل میں موجود کسی بھی رکاوٹ یا مشکل کو جانچنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور گائناکالوجیکل معائنے کے بعد کیے جانے والے ٹیسٹ یہ ہیں:

[pullquote]1 ۔ انڈے کے اخراج کی جانچ:[/pullquote]

خون کے معائنے سے ہارمونز کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ مناسب مقدار میں انڈے بن اور خارج ہو رہے ہیں یا نہیں۔

[pullquote]2۔ ٹیوبز کا ٹیسٹ:[/pullquote]

یہ ٹیسٹ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے رحم اور اس سے ملحقہ ٹیوبز کی شکل صورت اور ان میں موجود کسی رکاوٹ یا خرابی کا پتا چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں ایک دوا/کنٹراسٹ (جو سیاہ ایکسرے پر سفید رنگ کی تصویر بناتی ہے) استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دوا ایک نرم لچکدار نالی کے زریعے رحم میں داخل کی جاتی ہے، اس دوران ایکسرے یا فلوروسکوپی کی جاتی ہے۔ فلوروسکوپی یا سیلائن انفیوژن سونوگرافی کا آج کل زیادہ شہرہ ہے جس میں کنٹراسٹ کی بجائے نارمل سیلائن اور ایکسرے کی بجائے فلوروسکوپی یا الٹراساونڈ کیا جاتا ہے۔

ان تمام صورتوں میں دوا رحم سے گزر کر ٹیوب کے زریعے پیٹ میں جا گرتی ہے جہاں یہ قدرتی طور پر جذب ہو جاتی ہے اور نقصان دہ نہیں۔ اس سارے عمل کے دوران رحم میں موجود رسولی یا ٹیوب میں رکاوٹ واضح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ ٹیوب بلاک ہونے کی صورت میں دوا آگے نہیں جاتی بلکہ واپس آنا شروع کر دیتی ہے۔

[pullquote]3 ۔اوویرین ریورس ٹیسٹنگ:[/pullquote]

اس ٹیسٹ کے ذریعے بیضہ دانی میں موجود قابل اخراج بیضوں کا معیار اور مقدار جانچی جاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ ہارمون ٹیسٹ کے ساتھ مہینے کے آغاز میں ہی کر لیا جاتا ہے۔

[pullquote]4 ۔ہارمون ٹیسٹ:[/pullquote]

انڈوں کی پرورش اور پیدائش کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز کے ساتھ ساتھ نظام تولید کو کنٹرول کرنے والے پیچوٹری ہارمونز کو پرکھا جاتا ہے

[pullquote]5 ۔امیجنگ ٹیسٹ :[/pullquote]

اندرونی الٹرا ساؤنڈ کے زریعے رحم بیضہ دانی اور ٹیوبز کی صورتحال دیکھی جاتی ہے۔ ہیسٹیرو سونوگرافی میں ایک کیمرے کے ذریعے رحم اور ٹیوب کے اندرونی خلا کا باریکی سے معائنہ کیا جاتا ہے جو عام الٹراساؤنڈ سے ممکن نہیں۔ خصوصی حالات میں ہسٹیرو سکوپی، لیپروسکوپی اور جینیاتی جانچ بھی کی جا سکتی ہے۔

ہر مریض کو ہر ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اور آپ کا معالج باہم مشورے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا ٹیسٹ کب کروایا جانا چاہیے۔

[pullquote]علاج[/pullquote]

[pullquote]٭بانجھ پن کے علاج کا دارومدار مندرجہ ذیل چار نکات پر ہے:[/pullquote]

1۔ بانجھ پن کی وجہ کیا ہے؟ 2 ۔بانجھ پن کا دورانیہ کتنا ہے؟ 3۔ زوجین کی عمر کتنی ہے؟ 4 ۔زوجین کی ذاتی خواہش کیا ہے؟

یاد رکھیے! بانجھ پن کی کچھ وجوہات ناقابل علاج ہیں جب بھی بنا علاج کے خودبخود حمل نہیں ٹھہرتا تب مدد لی جانا چاہیے۔ بانجھ پن کا علاج معاشی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر مشکل اور مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ نیز دوران علاج زوجین کے وقت ، عزم اور بلندحوصلہ کی بے حد اہمیت ہے۔

[pullquote]مرد کا علاج[/pullquote]

[pullquote]٭مرد کے علاج میں ازدواجی تعلق سے متعلق مشکلات کا حل اور مردانہ تولیدی خلیوں کی کمزوری کا علاج کیا جاتا ہے۔[/pullquote]

[pullquote]1۔ لائف اسٹائل تبدیل کریں:[/pullquote]

زندگی کے معمول کا جائزہ لیجیے۔ اسے بہتر بنانے سے بانجھ پن پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے مثلاً غیر ضروری ادویات و منشیات کا استعمال ترک کر دیں، مضر صحت اشیا مثلاًاسگریٹ اور انرجی ڈرنک سے پرہیز کیجیے، پابندی سے کھلی فضا میں ورزش اور چہل قدمی معمول بنایے، زوجین کی قربت میں اضافہ اور وقت کی بہتری (ہفتے میں 2 سے 3 بار ) ،ایسی عادات سے پرہیز جو زرخیزی میں کمی کا باعث ہوں۔ مثلا ًبسیار خوری،موٹاپا،رات دیر تک جاگنا ،سموکنگ ڈرنکنگ وغیرہ۔

[pullquote]2 ۔ادویات:[/pullquote]

ایسی ادویات موجود ہیں جو تولیدی جرثومہ کی مقدار اور معیار میں بہتری لاتی ہیں اور خصیے کی کارکردگی بڑھاتی ہیں۔ آپ کا معالج آپ کی تشخیص کے مطابق ایک یا زیادہ ادویات تجویز کرتا ہے۔

[pullquote]3 ۔سرجری: [/pullquote]

چند کیسز میں سرجری کے زریعے سپرم کے بہاؤ میں رکاوٹ دور کر دی جاتی ہے یا پیشاب میں سپرم کا اخراج کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔

[pullquote]4 ۔سپرم ری ٹریول (تولیدی خلیوں کا حصول :[/pullquote]

سپرم کے اخراج میں رکاوٹ یا مادہ منویہ میں سپرم بے حد کم تعداد میں ہوں تو مرد کے خصیہ سے سپرم حاصل کیے جاتے ہیں۔ عموماً یہ سپرم اسسٹڈ ری پروڈکشن میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اسسٹڈ ری پروڈکشن کے لیے ایسے مرد مریض جن میں سپرم کی مقدار بہت کم ہو ان کے دو سے تین نمونے مناسب وقفے سے حاصل کر کے فریز کر لیے جائیں۔ جس روز پروسیجر کرنا ہو ان تمام نمونوں کو ملا کر ان نمونوں سے بہتر مقدار میں سپرم حاصل کیے جا سکتے ہیں ،اس طرح اس کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

[pullquote]خاتون کا علاج[/pullquote]

٭عموماً ایک مریضہ کو ایک سے دو طریقہ علاج کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کبھی کبھار کسی خاتون مریض میں مثبت نتیجے کے لیے مختلف تکانیک استعمال کی جاتی ہیں۔

[pullquote]1۔ بیض ریزی کی ادویات: [/pullquote]

بانجھ پن کی ادویات ان خواتین کے لیے تیار کی جاتی ہیں جن میں انڈے کی تیاری یا اخراج میں مسائل درپیش ہوں۔ یہ ادویات انڈہ بننے (بیض ریزی ) کے عمل کو مہمیز دیتی اور ریگولیٹ کرتی ہیں اور اس کے اخراج کو یقینی بناتی ہیں۔ علاج کے آغاز سے پہلے اپنے معالج سے ان ادویات کے استعمال اور فوائد و نقصانات پر گفتگو کرلی جائے تو بہتر ہے۔

[pullquote]2 ۔دوسرے نمبر پر آتا ہے IUI /IUTPI. ، رحم کے اندر سیمن پہنچانا یا رحم کے اندر پیٹ کی جھلی تک سیمن پہنچانا۔[/pullquote]

اس طریق علاج میں صحت مند جرثومے سیدھے سبھاؤ مریض کے رحم میں داخل کر دیے جاتے ہیں۔ اس طریقہ علاج کا فائدہ ایسی خواتین کو ہے جن کے اندام نہانی میں موجود مائعات سپرم کش ثابت ہوتے ہیں یا جن کے شوہر کا سپرم کاؤنٹ (جراثیم کی مقدار) بہت کم ہے۔
اس پروسیجر کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے جب انڈے خارج ہونے کا وقت قریب ہو یعنی زرخیزی کی کھڑکی کے دوران ( 12 سے 36 گھنٹے انڈہ خارج ہونے یا ایل ایچ سرج سے پہلے )۔ مریضہ کی بانجھ پن کی وجوہات ذہن میں رکھتے ہوئے اس کی بیض ریزی کا وقت اور IUI /IUTPIکرنے کا وقت مریضہ کے روٹین ماہانہ نظام سے یا زرخیزی بڑھانے والی ادویات سے متعین کیا جا سکتا ہے۔

[pullquote]3۔ سرجری:[/pullquote]

رحم میں موجود رسولی پردے یا کسی قسم کے زخم کا علاج بذریعہ کیمرہ (ہسٹیرو سکوپ یا لیپروسکوپ)۔

[pullquote]4۔ اسسٹڈ ریپروڈکشن ٹیکنالوجی: [/pullquote]

اس میں ہر وہ طریقہ علاج شامل ہے جس میں سپرم اور بیضے کو جسم سے باہر ہینڈل کیا جاتا ہے۔ اے آر ٹی کی ٹیم میں فزیشن، ماہر نفسیات، ایمبریالوجسٹ، لیب ٹیکنیشن، نرسز اور متعلقہ شعبے کا ٹرینڈ اسٹاف شامل ہوتے ہیں جو ایک ساتھ کام کر کے ایک بانجھ جوڑے کو اولاد کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی سب سے مشہور ہے۔ اس میں بیوی کی بیضہ دانی سے ادویات کے ذریعے زیادہ مقدار میں انڈے حاصل کیے جاتے ہیں، ان انڈوں کو شوہر کے جرثومے کے ساتھ ایک لیبارٹری ڈش میں ملایا جاتا ہے۔ بارآوری کے 3 سے 5 روز بعد اس بارآور انڈے کو رحم میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ 3 سے 5 روز کا وقفہ بارآوری کی کامیابی کنفرم کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔

آئی وی ایف کے دوران استعمال کی جانے والی دیگر تکانیک میں پہلی اکسی (icsi ) ہے۔ اس تکنیک میں ایک صحت مند جرثومے کو ایک میچور انڈے میں انجیکٹ کردیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ ایسے جوڑے کے لیے مفید ہے جہاں مادہ منویہ کی مقدار یا معیار کم ہے مثلا ًسست جرثومے کا کیس یا جس جوڑے میں روٹین آئی وی ایف ناکام ہو چکی ہو۔

دوسرے نمبر پر اسسٹڈ ہیچنگ ہے اس تکنیک میں بارآور انڈے کی بیرونی جھلی کھول کر (ہیچنگ ،انڈے نکالنا) اسے رحم کی جھلی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

تیسرے نمبر پر ڈونر بیضہ یا سپرم کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ تکنیک پاکستان میں صرف ایک خاوند کی دو بیویوں کی صورت میں استعمال کی جا سکتی ہے جس میں بانجھ بیوی کو صحت مند بیوی اپنا انڈہ دینے پر رضامند ہو جائے۔ یہ طریقہ مغرب میں عام مستعمل ہے اور اس کے ذریعے مکمل بانجھ مرد و زن جن کے سپرم یا بیضے میں شدید خرابی موجود ہو وہ اپنی کمی دور کر رہے ہیں۔ اس طریقے میں ڈونر سے انڈہ سپرم یا ایمبریو (بارآور انڈہ)حاصل کیا جاتا ہے اور ریسیپئینٹ کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے۔

چوتھے نمبر پر حمل کیرئیر کا نمبر آتا ہے۔ فرض کریں ایسی خاتون جس کا انڈہ مکمل طور پر صحت مند ہے لیکن اس کے رحم میں ایسا مسئلہ ہے کہ رحم، حمل ٹھہرانے کے لیے مناسب نہ ہو یا حمل کا ٹھہرنا اس خاتون کی زندگی کے لیے خطرناک ہو۔ ایسی خاتون ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اپنے شوہر سے بارآور اپنے انڈے /حمل کو ایک کیرئیر خاتون میں رکھوا سکتی ہے۔ یہ طریقہ بھی پاکستان میں مستعمل نہیں۔ مغرب میں بانجھ جوڑے ،معمر بے اولاد جوڑے اور ہم جنس پرست اس طریقے سے اولاد حاصل کر رہے ہیں۔

[pullquote]بانجھ پن کے علاج کی پیچیدگیاں[/pullquote]

[pullquote]٭بانجھ پن کے علاج میں درج ذیل پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے:[/pullquote]

[pullquote]ایک سے زیادہ حمل ٹھہرنا:[/pullquote]

یہ سب سے عام اور خوبصورت پیچیدگی ہے۔ خوبصورت اس لیے کہ ایک کی کوشش کرتے کرتے دو یا تین یا زیادہ بچے یک مشت جھولی میں آ جائیں۔ عموماً ایک حمل میں جتنے زیادہ بچے ہوں گے وقت سے پہلے پیدائش کا خطرہ اتنا بڑھتا چلا جائے گا۔ اسی طرح دوران حمل ہونے والی بیماریوں مثلاً شوگر کا خطرہ بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کی صحت اور زندگی کو بھی مختلف اور شدیدخطرات لاحق ہوتے ہیں۔ علاج سے پہلے ڈاکٹر سے بات کیجیے کہ کس طرح ایک سے زیادہ حمل ٹھہرنے سے بچا جا سکتا ہے۔

[pullquote]انڈہ دانی کی شدید بیض ریزی کی بیماری (OHSS ):[/pullquote]

بانجھ پن کے علاج میں دی جانے والی ادویات انڈہ بننے کا عمل تیز کرتی ہیں ان سے او ایچ ایس ایس ہو سکتی ہے۔ اس میں بیضہ دانیاں سوج جاتی ہیں اور دکھنے لگتی ہیں۔ پیٹ میں ہلکا درد، پیٹ کا پھولنا، متلی ہونا اس کی علامات ہوتی ہیں جو ایک ہفتے تک رہ سکتی ہیں۔ حمل قرار پانے کی صورت میں یہ مسائل زیادہ عرصے تک جاری رہتے ہیں۔ شدید پیچیدگی میں پیٹ تیزی سے پھولتا ہے، وزن بڑھتا ہے اور سانس اکھڑنے لگتا ہے۔انتہائی صورت میں موت تک واقع ہو سکتی ہے۔ یہ ایمرجنسی صورتحال ہے اور ایمرجنسی اقدامات کی متقاضی ہے۔
خون کا ضیاع یا انفیکشن: کسی بھی قسم کے سرجیکل پروسیجر کے بعد ہوسکنے والی عام پیچیدگی کا کچھ فی صد چانس یہاں بھی موجود ہے۔

٭یاد رکھیں! دودھ پلانے کے دوران انڈہ بننے کا عمل سست ہو سکتا ہے اور مکمل طور پر رک بھی سکتا ہے۔ خصوصاً جتنا عرصہ شیر خوار اپنی مکمل خوراک والدہ سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ اس دوران عموما خاتون کا ماہانہ نظام بھی جاری نہیں ہوتا۔ بڑی بوڑھی خواتین فیملی پلاننگ سے ناآشنا تھیں لیکن اولاد کو اپنا دودھ پلانا ایمان کی طرح عزیز جانتی تھیں۔ غور کریں تو ان میں سے اکثر کی اولاد میں دو دو سال کا وقفہ نظر آئے گا۔ ایسا دودھ پلانے کے دوران انڈہ بننے کے عمل میں رکاوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لئے دودھ پلانے والی خاتون اگر اگلا حمل چاہے اور اس میں کامیاب نہ ہو تو اسے دودھ چھڑانے سے متعلق مشورہ لینا چاہیے۔ اگر رضاعت کے دوران ماہانہ نظام جاری ہو جائے تو قدرتی طور پر حمل کا چانس بڑھ جاتا ہے۔

٭اگر ایک خاتون کے بچے اوپر تلے ضائع ہو رہے ہیں تب بھی وہ بانجھ نہیں۔کھیتی میں ڈالا جانے والا بیج کمزور ہے یا کھیتی میں بیج کی پرورش کے لیے ضروری اجزا (خوراک و نمکیات )کی کمی ہے یا اس کھیتی میں پتھر(رسولی) زیادہ ہیں جو بیج کو جڑ پکڑنے نہیں دیتے۔ براہ کرم ایسے جوڑے کا علاج کروایے، انہیں بانجھ ڈکلیئر مت کیجیے۔ عموماً دیکھتی ہوں کہ سسرال کا حمل کے لیے دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ زوجین ایک دوسرے سے ملاقات خوشی کے تحت نہیں امید و بیم اور خوف و اضطراب کی کیفیت میں کرتے ہیں۔

اسٹریس، جسمانی تکلیف کا ہو یا ذہنی، یہ خاتون کے انڈے کے بننے اور اخراج کے عمل میں منفی کردار ادا کرتے ہوئے رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ ذہنی دباؤ میں قریب ہونے والے جوڑے کے حمل کے امکانات بنا دباؤ کے خوش حال جوڑے کی نسبت کم ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں شوہر کا کردار اہم ہے۔ اس کا دیا دلاسہ بیوی کو ذہنی و جذباتی دباؤ سے نجات دلاتا ہے۔ اسی طرح جب معالج معائنے اور ٹیسٹ کے بعد زوجین کو مکمل صحت مند ہونے کا اعتماد دیتا ہے تب بنا کسی دوا کے کچھ ہی عرصے میں ان زوجین کو خوشخبری پاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ خاندانی اور معاشرتی دباؤ سے ایسے متاثرہ جوڑے کو بچانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

[pullquote]٭دوا کے ساتھ ساتھ دعا کا اہتمام بھی رکھیے۔[/pullquote]

رزق صرف رازق کے ہاتھ میں ہے اور اولاد بھی ایک طرح کا رزق ہی ہے۔
’’جسے چاہے (صرف ) بیٹیاں عطاکرتا ہے اور جسے چاہے (صرف ) بیٹے عطا کرتا ہے یا انہیں بیٹیاں اور بیٹے ملا کر دیتا ہے اور جسے چاہے بے اولاد رکھتا ہے۔ بے شک وہ خوب جاننے والا ، بہت قدرت والا ہے‘‘۔(القرآن)

اللہ کریم سے رابطہ استوار رکھیے جو حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں حضرت یحییٰ علیہ السلام سے نواز سکتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ کو ناامید نہیں رکھتا بلکہ اسمعیل سا فرزند عطا فرماتا ہے وہ آپ کو بھی مایوس نہیں کرے گا۔ بس! اپنا رابطہ رب العزت سے کمزور نہ پڑنے دیں۔

[pullquote]بانجھ پن کا عالمی منظرنامہ[/pullquote]

بانجھ پن کہتے کسے ہیں؟ اس کی شرح کیا ہے؟ زوجین میں سے کس کے سر پر بانجھ پن کا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ بانجھ پن تولیدی نظام کی ایسی بیماری ہے جس کے نتیجے میں ایک جوڑا 12 ماہ کی ازدواجی زندگی میں، ایک دوسرے کی ہمراہی میں وقت گزارنے کے باوجود (خاندانی منصوبہ بندی کئے بغیر) حمل کی خوشی حاصل نہ کر سکے۔ آج کل کے معیار کے مطابق بانجھ پن (infertility )سخت اصطلاح مانی جاتی ہے اور اسے زرخیزی میں کمی (subfertility )سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح زوجین کو مکمل مایوسی سے بچانا اور ان کی ہمت قائم رکھنا بھی ممکن ہوا، ساتھ ہی ساتھ معاشرتی دباؤ سے بھی بہت حد تک آزادی نصیب ہوتی ہے۔

دنیا میں بانجھ پن کی شرح کیا ہے؟ اعدادوشمار کے مطابق پوری دنیا میں پانچ کروڑ جوڑے بانجھ پن سے متاثر ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق دنیا میں10.5 فیصد خواتین میں ثانوی بانجھ پن( کم از کم ایک حمل کے بعد دوبارہ حمل میں ناکامی) ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ دنیا میں سب سے زیادہ روس اور دیگر تمام وسطی ایشیائی ریاستوں کی خواتین میں پایاجاتاہے۔ ان کے علاوہ ملائشیا، انڈونیشیا، لائبیریا کی خواتین بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔

دنیا میں محض دو فیصد میں بنیادی بانجھ پن(حمل سرے سے نہ ہونا) کی تشخیص ہوئی ہے۔ دنیا میں جن ممالک میں بنیادی بانجھ پن کی شرح سب سے زیادہ ہے، ان میں پاکستان، یمن، یوکرائن، جارجیا، مراکش اور کیمرون شامل ہیں۔ جن ممالک میں بانجھ پن کی یہ قسم سب سے کم ہے، ان میں بولیویا، پیرو، ایکواڈور،آسٹریلیا، بنگلہ دیش، چین، منگولیا، قزاقستان،ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، نیپال، برما، سوڈان، ایتھوپیا،صومالیہ،یوگینڈا، تنزانیہ، نیمبیا، بوٹوسوانا اور زمبابوے شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بانجھ پن کی شرح کا یقینی تعین ناممکن کی حد تک مشکل ہے کیونکہ بانجھ پن کی کوئی ایک واضح تعریف ممکن نہیں، اسی لیے بانجھ پن کی تشخیص اور رپورٹنگ عموماً ادھوری رہ جاتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بانجھ پن کی وجوہات میں مرد و زن دونوں شامل ہیں۔ عموماً زرخیزی میں کمی کے شکار جوڑوں میں 33 فیصد وجوہات صرف خاتون میں 33 فیصد صرف مرد میں اور 34 فیصد وجوہات زوجین میں پائی جاتی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے