دو مقدمے ، دو کہانیاں

میاں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا۔ جو کچھ پہلے فیصلے میں لکھاگیا نظر ثانی کے درخواست کے بعداُس میں مزید سختی آ گئی۔ لگتا ایسا ہے کہ فیصلہ کے ذریعے نواز شریف کو جج حضرات نے جواب دیا کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ وزارت عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کے بعد میاں صاحب اور کئی دوسرے ن لیگی ارکان لگاتار سپریم کورٹ اور اُن جج حضرات پر جنہوں نے میاں صاحب کو نااہل قرار دیا تھااُن کے خلاف بیان بازی کرتے رہے۔ چونکہ جج حضرات سیاستدانوں کی طرح اخباری بیان نہیں دے سکتے اور کہا جاتا ہے جج تو اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ انہوں نے نظر ثانی درخواست پر اپنے تفصیلی فیصلے کے ذریعے ہی بولنے کا فیصلہ کیا اور وہ کچھ کہہ ڈالا جو پہلے فیصلوں میں نہیں لکھا جا سکا۔ اب عدالت عظمیٰ کی طرف سے نواز شریف کے متعلق کہہ دیا گیا کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ کے اندر، باہر اور عدالت کو بھی بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ، عوام حتیٰ کہ عدالت میں بھی سچ نہیں بولا۔فیصلہ میں یہ بھی لکھا گیا کہ
عدالت کے لیے یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کہ نواز شریف جن کی ساڑھے چھ سال کی تنخواہ اُن کا اثاثہ تھی اکائونٹنگ کے اس سادہ اصول کو بھی نہیں سمجھتے۔عدالت نے کہا کہ نواز شریف نے جان بوجھ کر اپنے اثاثے چھپائے، بدنیتی کے ساتھ کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی دیا۔ سپریم کورٹ نے مزید لکھا کہ نواز شریف کے اس اقدام کو عمومی انداز سے نہیں دیکھا جا سکتا، کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا امیدوار کی قانونی ذمہ داری اور اس کی اہلیت کا امتحان ہوتا ہے کیوں کہ اس نے عوام کی قسمت کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے، امیدوار یا منتخب اراکین کو اس معاملے پر رعایت دینا سیاست میں تباہی ہو گی، یہ تباہی پہلے ہی انتہا کو پہنچ چکی ہے جسے روکنے کے لیے انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے۔اپنے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے یہ بھی لکھا کہ اگر کسی کو ملکی عہدہ یا اقتدار ملے تو اس شخص کا کنڈکٹ دیانتدارانہ ہونا چاہیے، جھوٹ بولنے سے بہتر تھا کہ باعزت طور پر عہدے سے مستعفی ہو جاتے۔ اسی فیصلہ میں مندرجہ ذیل شعر میں میاں صاحب کے لیے لکھا گیا:
ادھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
جس دن (منگل 7 نومبر) سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کی نظرثانی کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا اُسی روز سپریم کورٹ نے ن لیگ کے حنیف عباسی کی عمران خان اورجہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دائر کی گئی پٹیشن کو سنا۔ اس پٹیشن کو سنتے ہوئے معززجج حضرات کی طرف سے جو ریمارکس دیے گئے وہ نہ صرف بہت دلچسپ ہیں بلکہ اُن اُصولوں کے برعکس نظر آئے جن کی بنیاد پر نواز شریف کی نظرثانی درخواست کو اپنے تفصیلی فیصلہ میں اسی سپریم کورٹ نے رد کیا۔ جنگ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق عدالت عظمیٰ میں پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کی عوامی عہدہ کے لیے نااہلیت سے متعلق آئینی درخواست کی سماعت کے دوران حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کی طرف سے جہانگیر ترین کے مبینہ غیر قانونی کاروباری معاملات اٹھائے گئے تو معزز جج حضرات نے سوال اٹھا دیا کہ ہم قانون کی ہر خلاف ورزی کو بددیانتی میں کیسے فٹ کریں گے اور اتنے سال بعد کاروباری لین دین میں قانون کی خلاف ورزی پر کسی کو کیسے نااہل کیا جائے؟ فاضل عدالت نے یہ بھی کہا کہ چلو مان لیتے ہیں کہ غلطی ہو گئی اور قانون کی خلاف ورزی بھی ہوئی لیکن اس میں بددیانتی کہاں سے آ گئی؟؟ جب حنیف عباسی کے وکیل نے جہانگیر ترین کی انسائیڈ ٹریڈنگ کے متعلق گھپلے کا ذکر کیا تو عدالت نے کہاکہ انسائیڈ ٹریڈنگ کا الیکشن سے تعلق نہیں ہے تواس بنیاد پر کس طرح عدالت کسی کو نااہل قرار دے دے۔ جب شیخ صاحب نے جہانگیر ترین کے حوالے سے سوال اٹھایا کہ اگر ایک شخص کسی کمپنی کی معلومات کا امانت دار ہو لیکن وہ ان معلومات کو اپنے ذاتی فائدہ کے لیے استعمال کرے جس پر فاضل عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ جہانگیر ترین نے انسائیڈ ٹریڈنگ سے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ واپس بھی کیا ہے، انہوں نے جتنا ٹیکس دیا ہے اسے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کر دیا ہے۔ پھر عدالت نے کہا کہ اب غلطی کرنے کو بدیانتی کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین نے نہ صرف زرعی آمدن چھپائی بلکہ انکم ٹیکس گوشواروں میں زائد زرعی آمدن ظاہر کر کے فائدہ بھی اٹھایا۔ اس پر فاضل عدالت نے کہا جہانگیر ترین نے آمدن تو ظاہر کر دی ہے لیکن قانون کی غلط تشریح کی وجہ سے ٹیکس نہیں دیا ہے یہ مس ڈکلیریشن تو نہیں ہوتا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی نے کم ٹیکس دیا ہے تو اس پر اسے عوامی عہدہ کے لیے نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ابھی یہ کیس سنا جا رہا ہے اور فیصلہ آنے پر ہی پتا چلے گا کہ کیا اس کیس میں عدالت عظمی انہیں اصولوں پر کاربند رہے گی جن کی بنیاد پر نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دے کر نکالا گیا۔ عدالت کے ریمارکس سے جو تاثر مل رہا ہے اُس سے پتا چلتا ہے کہ اس کیس میں عدالتی اصول شاید نواز شریف کے کیس سے مختلف ہوں گے۔ اگرچہ دونوں کیسوں کو مختلف بنچوں نے سنا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون ، اصول اور انصاف کا معیار مختلف کیسوں میں مختلف ہو سکتا ہے؟نواز شریف کے خلاف فیصلہ جیسا بھی آیا وہ اب فائنل ہو چکا۔ ہونا یہ چاہیے کہ دوسروں کے خلاف بھی انہی اصولوں کے مطابق فیصلے کیے جائیں تا کہ یہ تاثر زائل ہو کہ احتساب تو صرف شریف فیملی کا کرنا مقصود ہے۔جیسا کے اس کالم میں اوپر لکھ چکانظرثانی فیصلہ میں نواز شریف کے حوالے سے فیصلہ میں کہاگیا ’’ کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا امیدوار کی قانونی ذمہ داری اور اس کی اہلیت کا امتحان ہوتا ہے کیوں کہ اس نے عوام کی قسمت کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے، امیدوار یا منتخب اراکین کو اس معاملے پر رعایت دینا سیاست میں تباہی ہو گی، یہ تباہی پہلے ہی انتہا کو پہنچ چکی ہے جسے روکنے کے لیے انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے۔ـ‘ ‘ دیکھنا یہ کہ اس اصول کی بنیاد پر کس کس کو پرکھا جاتا ہے ۔ امید ہے کہ کسی منتخب رکن اور سیاستدان کوکوئی رعایت نہیں ملے گی کیوں کہ سیاست میں تباہی پہلے ہی اپنی انتہا کو پہنچ چکی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے