مان گئے آپ کو شرما جی

یہ کہانی بس کے ایک سفر سے شروع ہوئی۔

بھارت کا ایک معمولی سرکاری ملازم وی پی شرما بس میں سوار تھا‘ وہ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع سنگرالی کے گاؤں بدھیلا کا باسی تھا‘ وہ سنگرالی سے گاؤں جا رہا تھا‘ ساتھی مسافر کوئی میگزین پڑھ رہا تھا‘ شرما نے میگزین پر نظر ڈالی‘ میگزین میں بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کے بارے میں آرٹیکل چھپا تھا‘ ڈاکٹر راجندر پرساد 1950ء سے 1962ء تک صدر رہے تھے‘ وہ بھارت کے پہلے صدر تھے۔

آرٹیکل میں لکھا تھا قدرت نے صدر راجندر پرساد کو دونوں ہاتھوں سے لکھنے کا فن دے رکھا تھا‘ وہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے یکساں مہارت سے لکھ لیتے تھے‘ وی پی شرما یہ پڑھ کر حیران ہوا اور اس نے یہ مہارت حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ گھر گیا اور اس نے بائیں ہاتھ سے لکھنے کی پریکٹس شروع کر دی‘ ہم آپ کو کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بھی بتاتے چلیں دنیا میں صرف ایک فیصد لوگ دونوں ہاتھوں سے لکھ سکتے ہیں‘ ہم میں سے 87 فیصد دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں‘ 12فیصد بائیں ہاتھ سے اور صرف ایک فیصد دونوں ہاتھوں میں قلم پکڑ سکتے ہیں۔

ہم اگر ان ایک فیصد لوگوں میں شمار نہیں ہوتے تو ہم جتنی چاہیں پریکٹس کر لیں ہم دوسرے ہاتھ سے نہیں لکھ سکیں گے‘ سائنسدانوں کا خیال ہے قدرت جن لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لکھنے کا ہنر دیتی ہے وہ ان سے بیشمار صلاحیتیں چھین لیتی ہے‘ مثلاً یہ لوگ ریاضی اور منطقی مضامین میں کمزور ہوتے ہیں‘ یہ لوگ یکسوئی کی نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں اور یہ جوانی میں گونا گوں دماغی امراض کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔

امپیریل کالج لندن کے پروفیسروں نے 8 ہزار بچوں پر تجربے کیے‘ ان میں سے صرف 87 بچوں میں دونوں ہاتھوں سے لکھنے کی صلاحیت تھی لیکن یہ 87 بچے بھی پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچ کر ابنارمل ہو گئے‘ یہ ارتکاز نہیں کر پا رہے تھے‘ ہم وی پی شرما کی کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔

وی پی شرما اس حقیقت سے واقف نہیں تھا چنانچہ اس نے گھر پہنچ کر بائیں ہاتھ سے لکھنے کی پریکٹس شروع کر دی‘ وہ مشق کرتا چلا گیا‘ کرتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ کامیاب ہو گیا‘ وہ اب دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے یکساں مہارت کے ساتھ لکھ سکتا تھا‘ وہ اپنی کامیابی پر خوش تھا‘ اس نے اس کامیابی کو سیلی بریٹ کرنے کے لیے اپنے گاؤں میں ایسا اسکول بنانے کا فیصلہ کیا جس کا ہر بچہ دونوں ہاتھوں سے لکھنے کا ماہر ہو‘ وی پی شرما نے تھوڑی تھوڑی کر کے رقم جمع کی‘ وہ گاؤں گیا اور اس نے ’’دینا ویندینی اسکول‘‘ کے نام سے دنیا کی منفرد درس گاہ کی بنیاد رکھ دی۔

یہ اسکول مدھیہ پردیش کے ضلع سنگرالی کے گاؤں بدھیلا میں قائم ہے‘ اسکول میں تین سو طالبعلم پڑھتے ہیں ‘ یہ تمام طالبعلم دلت ہیں یا پھر قبائلی ہیں‘ اسکول میں آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے‘ اسکول کے تمام طالبعلم نہ صرف دونوں ہاتھوں سے یکساں مہارت سے لکھ سکتے ہیں بلکہ یہ دو ہاتھوں سے دو مختلف زبانیں بھی تحریر کر سکتے ہیں مثلاً یہ ایک ہاتھ سے دیو ناگری رسم الخط میں ہندی لکھ سکتے ہیں اور یہ دوسرے ہاتھ سے اردو تحریر کر سکتے ہیں۔

اسکول کے تمام طالبعلم تین چار زبانیں بھی جانتے ہیں‘ یہ بچے یہ زبانیں بول بھی سکتے ہیں اور لکھ بھی سکتے ہیں‘ وی پی شرما نے اسکول کے بچوں کے لیے انوکھا سلیبس تیار کیا‘ یہ لوگ پہلی جماعت میں بچوں کو دونوں ہاتھوں سے لکھنے کی پریکٹس کراتے ہیں‘ بچے تیسری جماعت تک پہنچتے پہنچتے دونوں ہاتھوں سے لکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور یہ ساتویں آٹھویں جماعت تک پہنچ کر ماہر ہو چکے ہوتے ہیں‘ اسکول کے تمام پیریڈ 45 منٹ پر مشتمل ہیں۔

بچے ہر پیریڈ کے شروع میں پندرہ منٹ لکھنے کی پریکٹس کرتے ہیں‘ یہ پریکٹس ان کی مہارت میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے‘ وی پی شرما بچوں کو ایک لفظ مختلف زبانوں میں سکھاتے ہیں مثلاً یہ بچوں کو سیب لکھنا سکھانا چاہتے ہیں تو یہ انگریزی میں ایپل‘ عربی میں تفاح اور فرنچ میں پم سکھائینگے‘ بچے یہ تمام لفظ بائیں اور دائیں دونوں ہاتھوں سے لکھیں گے‘ یہ اسی طرح بڑے بڑے فقرے بھی دو تین زبانوں میں تحریر کرینگے یوں دینا ویندینی اسکول کے بچے دو سے زائد زبانیں جان جاتے ہیں۔

یہ دو زبانوں میں لکھنے کی مہارت بھی پا لیتے ہیں‘ وی پی شرما کے اسکول کے بچے صرف دو ہاتھوں سے لکھنے میں ماہر نہیں ہیں بلکہ یہ ریاضی‘ کیمسٹری اور فزکس میں بھی عام اسکولوں کے بچوں سے بہتر ہیں‘ یہ یکسوئی میں بھی ٹھیک ہیں‘ یہ اسپورٹس میں بھی ٹھیک ٹھاک حصہ لیتے ہیں اور یہ نفسیاتی بیماریوں سے بھی پاک ہیں۔ یہ حقائق حیران کن ہیں‘ وی پی شرما نے دنیا بھر کے سائنسدانوں‘ دماغی صلاحیتوں کے ماہرین اور لسانیت کے انجینئرز کو چکرا کر رکھ دیا۔
آج تک کی تحقیق ایک طرف اور وی پی شرما کا دیہاتی اسکول دینا ویندینی دوسری طرف‘ لوگ حیران ہیں ایک عام درمیانے پڑھے لکھے شخص نے کس طرح ایک گاؤں میں اسکول بنایا‘ اس نے کس طرح تین سو قبائلی دلت بچے اکٹھے کیے‘ اس نے کس طرح ان بچوں کو دونوں ہاتھوں سے دو مختلف زبانیں لکھنے کا ماہر بنایا اور اس نے کس طرح انسانی نفسیات سے نابلد ہونے کے باوجود ان بچوں کو نارمل رکھا‘ یہ تمام حقائق حیران کن بھی ہیں اور پریشان کن بھی۔
دنیا بھر کے ماہرین یہ راز جاننا چاہتے ہیں لیکن وی پی شرما کا کہنا ہے یہ کوئی کمال نہیں‘ میں نے اس تجربے کی بنیاد اپنے اوپر رکھی ‘ میں چالیس سال ایک نارمل زندگی گزارتا رہا‘ میں دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا‘ دفتر جاتا تھا‘ تھکا ہارا گھر آتا تھا اور رو پیٹ کر سو جاتا تھا‘ میں نے ایک دن بس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کے بارے میں آرٹیکل پڑھا‘ مجھے پتہ چلا راجندر پرساد بھی میری طرح عام انسان تھے لیکن وہ دونوں ہاتھوں سے لکھ سکتے تھے۔

میں نے اپنے آپ سے کہا شرما جی اگر صدر پرساد یہ کر سکتے ہیں تو آپ میں کیا کمی ہے‘ آپ بھی ٹرائی کرو‘ میں گھر گیا اور میں نے بائیں ہاتھ سے لکھنے کی پریکٹس شروع کر دی‘ مجھے شروع شروع میں بڑی دقت ہوئی‘ میرا ہاتھ شل ہو جاتا تھا لیکن میں لگا رہا‘ لگا رہا یہاں تک کہ میں کامیاب ہو گیا‘ میں نے پھر سوچا‘شرما جی صدر پرساد دونوں ہاتھوں سے صرف انگریزی لکھ سکتے تھے‘ میں آپ کو تب مانوں گا جب آپ ایک ہاتھ سے ہندی اور دوسرے سے انگریزی لکھ لیں۔
میں نے اپنا دایاں ہاتھ ہندی اور بایاں ہاتھ انگریزی کے لیے وقف کر دیا‘ میں پریکٹس کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میں ایک ہاتھ سے ہندی اور دوسرے سے انگریزی لکھنے لگا‘ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی میں اپنے صدر سے ایک قدم آگے نکل گیا ہوں‘ میں نے پھر سوچا شرما جی صدر پرساد یہ فن لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے‘ وہ پوری زندگی کسی ایک شخص کو اپنا شاگرد نہیں بناسکے‘ میں آپ کو تب مانوں گا جب آپ اپنے جیسے پانچ دس ہزار لوگ بنا لیں گے۔

میں نے مختلف اسکولوں کے دورے شروع کر دیے‘ میں ہیڈ ماسٹروں‘ ماسٹروں اور بچوں سے ملتا‘ میں انھیں دونوں ہاتھوں سے لکھ کر دکھاتا‘ یہ مجھ سے بہت متاثر ہوتے‘ میں آخر میں انھیں ترغیب دیتا آپ بھی میری طرح پریکٹس کریں اور دونوں ہاتھوں سے لکھا کریں‘ یہ میری بات پرتالیاں بجاتے لیکن ان میں سے کوئی شخص یہ پریکٹس نہ کرتا‘ یہ لوگ میرے فن کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے‘ یہ کہتے تھے ہم جب ایک ہاتھ سے کام چلا سکتے ہیں تو پھر ہمیں دوسرے ہاتھ کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔
میں ان سے کہتا تھا‘ بھائیو! بھگوان نے ہمیں دو ہاتھ دیے ہیں‘ ہم اگر دوسرے ہاتھ کو بھی استعمال کرینگے تو ہماری کارکردگی میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہم زیادہ لکھ سکیں گے‘ ہم اپنی لکھائی کا کام بھی زیادہ کر سکیں گے لیکن یہ میری دلیل سے متاثر نہیں ہوتے تھے‘ میں آہستہ آہستہ مذاق بنتا چلا گیا‘ یہ لوگ مجھے ’’دوہاتھوں والا‘‘ کے نام سے چھیڑنے لگے‘ میں انھیں سمجھاتا رہا‘ سمجھاتا رہا یہاں تک کہ میں تھک گیا‘ میں نے ایک دن سوچا شرما جی‘ کیا آپ کا فن یہاں پہنچ کر ختم ہو جائے گا۔

آپ اگر واقعی صدر پرساد سے آگے نکلنا چاہتے ہیں تو آپ اپنا اسکول بنا لیں‘ ایک ایسا اسکول جس کا ہر بچہ دونوں ہاتھوں سے لکھ سکتا ہو‘ میں نے اپنے آپ سے کہا‘ شرما جی آپ اگر یہ اسکول بنا لیں تو میں آپ کو تب مانوں گا‘ میں نے خود کو یہ چیلنج دیا اور میں نے اپنا اسکول بنانا شروع کر دیا‘ میں نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی اس اسکول پر لگا دی‘ میں نے بڑی مشکل سے بچے جمع کیے اور انھیں شروع دن سے دونوں ہاتھوں سے لکھنے کی پریکٹس کرانے لگا‘ بچوں نے اسے کھیل سمجھا اور یہ کھیل ہی کھیل میں دونوں ہاتھوں سے لکھنا سیکھ گئے‘ میں نے اس کے بعد انھیں مختلف زبانوں میں لکھنے کی پریکٹس کرائی اور میں بالآخر کامیاب ہو گیا۔
لوگ وی پی شرما سے پوچھتے ہیں ’’کیا آپ کا سفر یہاں پہنچ کر ختم ہو گیا‘‘ یہ کہتا ہے‘ارے نہیں جی‘ میں نے ابھی صرف تین سو بچے تیار کیے ہیں‘ میں ایسے تین ہزار بچے تیار کرنا چاہتا ہوں‘ یہ بچے میرے بعد استاد بنیں گے اور یہ آدھے ہندوستان کو دونوں ہاتھوں سے لکھنے کا فن سکھائینگے‘ میں نے جس دن یہ کر لیا میں اس دن اپنے آپ کو مانوں گا‘ میں اس دن اپنے آپ سے کہوں گا ’’مان گئے آپ کو شرما جی‘ آپ تو صدر راجندر پرساد سے بھی آگے نکل گئے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے