نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پے مہرباں کیوں ہو
آپ کیسے اس اسٹیبلشمنٹ کو تمناؤں کی بٹی رسی سے باندھ سکتے ہیں جس کا وہ ادنیٰ بابو بھی گورنر جنرل سے زیادہ طاقتور تھا جس نے آزادی کے باضابطہ اعلان سے بھی تین روز پہلے طے کر دیا تھا کہ وہ جناح صاحب سے زیادہ محبِ وطن ہے لہذا جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر بارہ اگست کے اخبارات میں من و عن شائع نہیں ہو سکتی ( روزنامہ ڈان میں اس لیے شائع ہو سکی کیونکہ ایڈیٹر نے گورنر جنرل کو بتانے کی دھمکی دے دی تھی )۔
کشمیر کا مسئلہ کیسے طے ہوگا؟ جناح صاحب کو تو تب پتہ چلا جب قبائلی لشکر روانہ کر دیا گیا اور بھارت کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا۔ نہ جناح صاحب کی زندگی میں نہ ہی بعد میں کسی کو اتنا دوررس فیصلہ کرنے والے پسِ پردہ کرداروں کو بے نقاب کرنے کا خیال آیا۔
ون یونٹ کی تشکیل ہو کہ سیٹو سینٹو میں شمولیت کا فیصلہ، حاضر سروس کمانڈر انچیف کو وزیرِ دفاع بنانے کا فیصلہ یا مسلم لیگ کو ری پبلیکن پارٹی میں بدلنے کا فیصلہ ۔
ہر آئیڈیا بھلے اسٹیبلشمنٹ کا تھا مگر دلالی فرنٹ مین سیاستدانوں نے کی اور پھر انہی سیاستدانوں کو اسی اسٹیبلشمنٹ نے کرپٹ ، غدار اور نااہل قرار دے کر دلالی کا انعام بھی دیا۔
اور جو جو کپڑے دھلوانے پر آمادہ ہو گئے انہیں باسٹھ کی ایوب خانی آئین ساز اسمبلی میں عزت ماآب بھی بنایا گیا اور کنونشنل مسلم لیگ بھی سونپ دی گئی اور دیگر نے چھپن کے آئین کو توڑنے والے آمر کے رولز آف گیم قبول کر کے بنیادی جمہوریت کے میدان میں کرکٹ کھیلنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔
اس آمادگی کا مطلب تھا کہ ایوب خان ایک جائز حکمران ہے اور جائز حکمران کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ نہ صرف جمہوریت ڈیزائن کرے بلکہ ملکی مفاد کا تقاضہ ہو تو جنگ میں بھی جھونک دے۔
اس کے بعد ایوب خان کے ساتھ جو کیا آسمان نے کیا۔ سیاستدانوں نے تو بس یہ کیا کہ گرے ہوئے ہاتھی کو ٹھڈے مارے اور نئے یحییٰ خانی سیٹ اپ کے ہاتھوں بیعت کر لی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اس لیے پھانسی نہیں ہوئی کہ وہ تیسری دنیا کے چیمپئین یا اینٹی امریکہ یا عوام کو طاقت کے کھیل میں سٹیک ہولڈر بنانے کے مجرم تھے۔ ان کو ڈبل کراس پر پھانسی ہوئی۔
یعنی تم ایک آمر کے منہ بولے بیٹے کی حیثیت سے تمام اہم داخلی خارجی و جنگی فیصلوں میں شریک ، پھر اس کے جانشین آمر کی پاور گیم اور پاور ڈسٹری بیوشن کی گیم میں برابر کے حصے دار ، ہم نے اپنا بندہ سمجھ کے تمہیں مکمل بااختیار بنایا اور پھر تم خود کو واقعی با اختیار لیڈر سمجھنے لگے ۔اس کی سزا تو ضرور ملے گی ( کیا نواز شریف کی کہانی ملتی جلتی نہیں لگتی؟ )۔
یاد رہے اصغر خان اور ان کا کراچی والا دس لاکھ کا جلوس اور وزیرِ اعظم اصغر خان کے نعرے ؟ کوئی شک بھی تھا تو اسے دور کرنے کے لئے فوجی قیادت کو خان صاحب نے خط بھی لکھ مارا۔ مگر پانچ جولائی 1977 کے بعد کسی نے پلٹ کے اصغر خان کو پوچھا؟ ان کی تو مہران گیٹ والی درخواست بھی سپریم کورٹ کے کسی گودام میں دیمک کے رحم و کرم پر ہے ۔
یاد ہے ستر میں یومِ شوکتِ اسلام کے بیس بیس کلومیٹر کے جلوس نکالنے والی جماعتِ اسلامی جسے یحییٰ خان کی معزولی کے بعد پتہ چلا کہ وہ شرابی ، بدکار اور تباہ کن ملک توڑ پالیسی کا معمار تھا ۔
جسے طیارہ فضا میں پھٹنے کے بیس برس بعد احساس ہوا کہ ضیا کا ساتھ دینا اور عبوری کابینہ میں شامل ہونا ایک سنگین سیاسی غلطی تھی۔ وہ جماعت اسلامی جس نے کشمیر اور افغانستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔
آج اسی جماعتِ اسلامی کا امیدوار لبیک پارٹی اور ملی مسلم لیگ کے امیدواروں سے زیادہ ووٹ لے لے تو بڑی خبر ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ضیا آمریت کے خلاف جمہوریت پسندوں کی ہیروئن ہونے کے باوجود اٹھاسی میں پہلے سے طے شدہ مینیو کے تحت ہی کھانا آرڈر کرنے کی پابند بنائی جاتی ہیں، پھر نکالی جاتی ہیں۔
پھر ایک اور سویلین حکومت کے خلاف استعمال ہوتی ہیں، پھر اسی صدر کی بنائی نگراں حکومت میں شامل ہوتی ہیں جس نے انہیں نکالا تھا، پھر الیکشن جیتنے کے باوجود نیم با اختیار وزیرِ اعظم بنائی جاتی ہیں ، پھر نکالی جاتی ہیں، پھر نئی سویلین حکومت کے انتقام کا نشانہ بنتی ہیں ، پھر جلا وطن ہونے کا فیصلہ کرتی ہیں ، پھر چارٹر آف ڈیمو کریسی کی پابند ہوتی ہیں ، پھر این آر او کے پھندے میں آ جاتی ہیں اور پھر قتل ہو جاتی ہیں۔
الطاف حسین، ضیا دور میں ابھرنے والا، پھر جناح پور کے خالق اور را کے ایجنٹ کا اسٹیکر ، مگر وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں میں بھی مسلسل حصہ دار ۔
ضیا کی یادگار ، پرویز مشرف کی آنکھوں کا تارہ ، بارہ مئی کا ہیرو ۔آج وہی مشرف صاحب مائنس الطاف حسین کے باوجود کہہ رہے ہیں میں کوئی پاگل ہوں جو ایم کیو ایم جیسی نسل پرست جماعت کی سربراہی کروں گا۔
جب آئی جے آئی ، مہران گیٹ ، ایم کیو ایم حقیقی ، مسلم لیگ ق ، متحدہ مجلسِ عمل ، ملی یکجہتی کونسل ، دفاعِ پاکستان کونسل ، متحدہ جہاد کونسل ، اچھے افغان مجاہدین ، برے افغان مجاہدین ، اچھا فضل اللہ ، برا فضل اللہ ، اچھا اکبر بگٹی ، برا اکبر بگٹی ، اچھا حسین حقانی ، برا حسین حقانی ، پیپلز امن کمیٹی ، پی ٹی آئی کی ایمپائرانہ انگلی ، علامہ طاہر القادری کی سالانہ یلغار ، لبیک ، ملی مسلم لیگ ، تئیس رکنی مجوزہ مشرفی اتحاد ، سندھ کا گرینڈ نیشنل الائنز ، شیر نما بکری میڈیا ، فوج اور عدلیہ کو احتساب بل سے متفقہ طور پر باہر رکھنے کا پارلیمانی فیصلہ، قومی سلامتی سے متعلق فیصلوں اور سی پیک کی تفصیلات تک پارلیمان سے خفیہ رکھنے اور اسے اپنے ہی ہاتھوں بانجھ کلب بنا دینے کو برداشت کیا جا سکتا ہے تو پھر بات بے بات اسٹیبلشمنٹ کا نام لے لے کر ٹسوے بہانے کی اوور ایکٹنگ سے کیا مل جائے گا ؟
ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ ایسا کیا نیا ہوگیا کہ پھر سے ادھم مچ گیا ؟
نہ ہم میں ڈھنگ کا غلام بننے کی صلاحیت نہ ہی زنجیر کھولنے کی ہمت۔ ہمیں تو ایجنٹ بننے کے آداب تک نہیں معلوم ۔ پیشہ ور ردالیاں بھی معاوضے کے بدلے تسلی بخش بین کر لیتی ہیں۔ ہم سے تو سیاپا بھی سلیقے سے نہیں ڈالا جاتا۔
پر خواب ایسے ایسے کہ شیخ چلی بھی قدموں میں گر جائے۔ مثلاً جب میں بڑا ہو جاؤں گا نا تب اسٹیبلشمنٹ کو وہ دھوبی پٹکا ماروں گا کہ کلٹا دوبارہ اٹھ نہ پائے گی۔
بس ذرا ایک نیند اور لے لوں۔۔۔