سررہ گزر بے عقل چالاک

بلاول زرداری:حدیبیہ کیس کے ساتھ ماڈل ٹائون کیس بھی کھلنا چاہئے، کھیل کھیلا جا رہا ہے، عمران کو کراچی میں لفٹ نہیں ملے گی، ہمارے بچپن میں ایک گلی کے بڑے دوسری گلی کے بڑے اپنے بچوں کے ذریعے جنگ لڑتے تھے، اور ہمیں گولی ٹافی دے کر خوب ہمت دلاتے، ایک طرف لے جا کر دائو پیچ سکھاتے اور ہم لڑاکا مرغوں کی لڑائی لڑتے ہلکان ہو جاتے، آج سیاسی کشتیاں بھی اسی ڈھب سے کھیلی جا رہی ہیں، بلاول ہوں یا مریم دونوں کے بیانان ٹوئیٹس اور کمنٹس ہر روز سامنے آتے ہیں، بچوں سے جو کہا جاتا ہے وہ من کے سچے وہی اگل دیتے ہیں، اور پھر اپنے کھیل کود میں مصروف ہو جاتے ہیں، کالم نگاروں کا بھی یہ حال دیکھا کہ جب کچھ نہ بن سکا تو کسی دوست کو اپنی لطیفہ حرکتوں کے لئے راوی بنا دیا، اور یوں روایت بغیر درایت سے ایک کہانی ایجاد کر لی، چلو اسی طرح ہی گورے کورے کاغذ کالے کر دیئے اور معنی مطلب گم ہو گیا۔ مجموعی طور پر سارا کام سب کا ’’تھُک تھِگڑی‘‘ سے چل رہا ہے، کیا سیاست ریاست جمہوریت، یہ سب ایک کھیل تماشا ہے، چالاکی اور عقلمندی میں بڑا فرق ہے، شاید ہم چالاک ہیں عقلمند نہیں، اور چالاکی سر چڑھ کے بولتی ہے حالانکہ وہ جادو بھی نہیں، ہم سمجھتے ہیں اس دھکم پیل معاشرے میں ایک خوبرو پھر بھی ماحول کو بہت کچھ دے جاتا ہے جو ’’سرخرو‘‘ ہیں ان کے چہروں سے فقط لہو ٹپکتا ہے جو کسی کے کام نہیں آتا، کیونکہ یہ مقابلے، لالچ اور ہوس کے مارے زمین پر گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ بلاول زرداری پر دن رات زرداری فریال ورکشاپ میں کام ہوتا ہے، مقصد ان کا بھی اقتدار اپنے گھر سے باہر نہیں جانے دینا ہے، عوام بیچارے اسی میں خوش ہیں کیونکہ وہ چچا غالب کے اس قول پر کاربند ہیں؎
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
ہم نے ایک شخص ایسا بھی دیکھا کہ جب بھی کوئی مچھر اسے کاٹتا مچھر اس کے بدن پر ہی مر جاتا اس لئے وہ مچھروں میں سو سکتا تھا ورنہ جاگتا رہتا تھا۔
٭٭٭٭

کیا سیاسی جھوٹ جائز ہے؟
عمران خان کہتے ہیں ہم مغربی کلچر کے غلام بنتے جا رہے ہیں اپنی شناخت نہیں بھولنی چاہئے۔ احسن اقبال نے کہا ہے:تحریک انصاف میں بغاوت ہو چکی، ڈاکٹر عاصم نے زرداری کا خصوصی پیغام فاروق ستار کو پہنچایا جبکہ فریال گوہر نے کہا ڈاکٹر عاصم پوچھے بغیر از خود کیوں گئے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق کیا کیا بیانات دے رہی ہیں، ان کی تاحال کوئی تصدیق نہ ہو سکی، الغرض وہ سیاستدان جو اسمبلیوں میں ہیں یا کرسیٔ اقتدار پر براجمان ہیں کیا ان کا صادق اور امین نہ ہونا ہی ان کی اہلیت ہے؟ اور سیاسی جھوٹ پر جھوٹ داغ دینا کیا دامن کو بے داغ کر دیتا ہے؟ ایک طرفہ تماشا ہے سیاست کے میدانوں میں ایوانوں میں، کیا قوم کو اس قدر نادان سمجھ لیا کہ اسے محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ ارباب اقتدار و اختلاف کیوں اچانک اس کا نام لے کر ہانپ رہے ہیں؟ اگر صداقت و امانت پس پشت ڈال کر ’’اِن‘‘ ہونے کی اتنی ہوس ہے تو عوام کو کیا توقع ہو سکتی ہے کہ ان کے حالات سنور جائیں گے، تمنائے اقتدار میں جھوٹ سچ کی تفریق اڑا دینے والے، کیا دیتے رہے ہیں اور کیا دیں گے اب عام آدمی اس سے اچھی طرح باخبر ہے اور ہر پانچ سال بعد وہ دن کے لئے بااختیار بھی ہوتا ہے مگر پانچ برس کے لئے اس کے باوجود بے بس ہو جاتا ہے کرسیوں والے ان کو زمین پر رینگنے والے جان کر صرف اپنا بھلا اپنی خیر کا ہر کام کرتے اور عوام کی بھلائی کا جھوٹا نعرہ بلند کرتے ہیں، عدلیہ ماضی میں اگر اپنے مطابق بنا لی تھی تب وہ عادل تھی اب اگر اعلیٰ سطح پر وہی عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے لگی ہے تو ہر روز بینامی و بے مقامی زن و مرد اعلیٰ عدلیہ کو برا بھلا کہتے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے اور جھوٹ کے مینار کھڑے کر دیتے ہیں، کیا خدائی پوچھ گچھ کا بھی خوف نہ رہا؟ ہماری سیاست سے اگر دولت لے لی جائے تو ان کے پاس جھوٹ کے سوا کوئی اہلیت باقی نہیں رہ جاتی مگر ہم عوام پھر ان کو اہل بنا کر اپنے سر پر بیٹھا لیتے ہیں ذرا غور کریں۔
٭٭٭٭

ٹانگ توڑ استادوں کے استاد
لودھراں میں طالب علم کی ٹانگ توڑنے والا استاد معطل، گرفتار کر لیا گیا۔ جو علم کی ٹانگ توڑے گا وہی استاد بھرتی ہو گا۔ پھر وہ طالب علموں کی ٹانگیں توڑے گا، معطل ہو چکا، گرفتار بھی، اب کیا ہو گا؟ کچھ نہیں! اس لئے کہ اس کے پیچھے بھی کوئی ٹانگ توڑ ہے جو اس کو چھڑا لے گا، پھر سے ٹانگیں توڑنے پر مامور کرا دے گا، اقبال نے کہا تھا؎
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
اور اب یوں کہ؎
ٹانگ توڑ دی جلادِ مدرسہ نے تری
کرے گا دہشت گردی زباں پہ لا الٰہ الا اللہ
جن لوگوں نے مقامی اساتذہ سے تعلیم حاصل کی، ٹانگیں تڑوا کر وہ تو اپنے استاد کا فن آگے بڑھائیں گے، اور جنہوں نے خزانے کا تالا توڑ کر اپنے بچوں کو بیرون وطن اعلیٰ تعلیم دلوائی ان کے بچے جب ان کے سجادے پر بیٹھیں گے تو کیا کیا توڑیں گے اس کا اندازہ عوام لگا سکتے ہیں۔ جن کی پہلے کمر ٹوٹی بعد میں ان کے بچوں کی ٹانگیں ٹوٹیں، ٹوٹے پھوٹے اسکولوں سے طالب علم ٹانگیں تڑوا کر ہی نکلیں گے اور بیروزگاروں کو کھپانے والے انہیں اپنے ہاں باعزت روزگار دے دیں گے، گویا برسر روزگار دہشت گرد کی ایک دن کی زندگی، لنگڑے بیروزگار کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے! اگر کسی کو معلوم نہیں تو مان لے کہ ہمارے طریقہ تعلیم میں تشدد و انتہا پسندی کا زہر شامل ہوتا ہے اس لئے ہمارا ڈسا پانی نہیں مانگتا، کرپشن یہاں بھی ہے اور دوسرے ممالک میں بھی لیکن انہوں نے پہلے اپنے لوگوں کو اتنا خوشحال کر دیا کہ کرپٹ لوگ انہیں نہیں چبھتے اس کے باوجود وہاں کے صحافیوں نے ایک ایسی خبر دے دی کہ ساری دنیا کے کرپٹ افراد کی خبر لے لی، چین میں کرپٹ کو فی الفور گولی مار دی جاتی ہے، اور چین ہمارا گہرا دوست ہے، اچھے دوست کی صحبت نے بھی ہم پر کوئی اثر نہ چھوڑا۔
٭٭٭٭

صراطِ مستقیم
….Oپمز اسپتال میں سرکاری وسائل کا غلط استعمال۔
سرکاری وسائل کا صحیح استعمال تو 70برس سے نہیں ہو رہا، اب پتا چلا ہے؟
….Oشہباز شریف:آئندہ نسلوں کو جھوٹ اور الزام تراشی سے پاک پاکستان دیں گے،
بات صحیح ہے مگر حسب معمول ترجیحات غلط، پاکستان کو سب سے پہلے غربت سے پاک کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ایجنڈے کے آخر میں درج ہے،
….Oعمران خان:مشن سامنے ہو تو کشتیاں جلا کر نکلتا ہوں۔
کشتیاں ضرور جلائیں مگر کُشتیاں نہ کریں، اکھاڑے بند کر دیں،
….Oاگر ن لیگ والے نہایت بردباری سے آگے دیکھیں عدلیہ کے فیصلوں پر راضی رہیں، اور 2018، کا معرکہ مار لیں یہی بہترین اور سیدھا راستہ ہے، باقی یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے، صرف وہ ہی ہر مصیبت سے نجات دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے