سبز موسم ہے‘ ہوا سرخ فضا نیلی ہے

آخر ہم بھی کالم نگار ہیں، اتنے زیادہ دانا دانشور نہ سہی ماڑے موٹے تو ہیں تو جب یہ سارے لوگ ’’ چور‘‘ کو لاتیں مار رہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی ایک دو لاتیں رسید ہی کر دیں اور پھر اس چور سے تو ہمیں خاصی پرانی پر خاش بھی ہے لیکن لات مارنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ہم ’’ لات مارنے ‘‘ کے ذائقے کا بھی کچھ بیان کریں ۔ ایک دن ہم پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار میں جا رہے تھے۔ ہمارا ایک دوست بھی ساتھ تھا جو بڑے مزے سے بھنا ہوا بھٹا بھی کھا رہا تھا اور اپنا کلام بھی سنا رہا تھا ۔گویا حسرت موہانی بن کر اپنی طرفہ طبیعت کا مظاہرہ بھی کر رہا تھا ۔
اتنے میں اچانک سامنے ایک بھیڑ دکھائی دی۔ کوئی آدمی زمین پر پڑا ہوا تھا اور لوگوں کا ایک جمگھٹااسے لات مکے رسید کر رہا تھا ۔ ہمارے دوست نے فوراً بھٹا ہمیں دیا،ڈور کر وہاں پہنچا اور بھیڑ میں جگہ بنا کر اس پڑے ہوئے آدمی کو ایک دو لاتیں رسید کر دیں، پھر واپس آکر بھٹا ہمارے ہاتھ سے لیا ۔ اور بولا ، چلو۔ ہم نے حیرت سے پوچھا، بھئی یہ کیا ماجرا ہے، یہ آدمی کون ہے، لوگ اسے مار کیوں رہے ہیں اور تم نے کیوں لات ماری ؟ کیا تم جانتے ہو اسے ؟بولا، نہیں لیکن جب لوگ اسے لاتیں مار رہے ہیں تو ضرور اس نے کچھ کیا ہوگا، سو میں نے بھی ماردی ؟ کیوں؟ ہم نے پوچھا۔ بس ایسے ہی مزے کے لیے۔
سو ہم بھی یہی کرنے جا رہے ہیں ،جب یہ سارے لوگ اسے لاتیں مار رہے ہیں تو آخر ہم کسی سے کم ہیں کیا ؟ اور وہ انھوں نے کہا کہ ہم تو کچھ پرانی پرخاش بھی اس سے رکھتے ہیں ،کتنی مرتبہ ہم نے بذریعہ ٹیلی پیتھی اس سے رجوع کیا کہ ہمیں بھی کہیں کوئی مشیروشیر بنادو، تمہارا کیا جاتا ہے لیکن اس نے ٹیلی پیتھی لائن پر کوئی فارمولا لگایا ہوا تھا، اس لیے رابطہ نہیں ہو رہا تھا ۔ سوچا چلو چھوٹے میاں ‘‘ پر کوشش کرتے، ان سے بھی کئی بار میچنگ کی کہ چلو ہمیں پنجاب میں اپنا مشیروشیر نہیں بنا سکتے تو کے پی کے میں اپنا غیر سرکاری سفیر ہی بنا ڈالو۔ لیکن واں ایک خامشی ترے سب کے جواب ہے

اب بھگتے ۔
اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہوکر
اسے احساس تک نہیں تھاکہ وہ اپنا کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں، ہمیں اگر ’’ کچھ ‘‘ بنا دیتے، چلیں کچھ نہ سہی کسی کچھ کا کچھ ہی بنا دیتے تو آج ہم اس کی حمایت میں سینہ سپر نہ سہی قلم سپر اور کالم سپر ہو کر کھڑے ہوتے اور ان لوگوں کی دھجیان اڑا کر رکھ دیتے جو ان کو لاتیں مارہے ہیں یا ان کے دامن کولگی آگ میں پھونکیں ماررہے ہیں ۔ارادہ تو ہمارا بھی کچھ ’’ لات مارنے ‘‘ کا ہو رہا ہے لیکن ہم اپنی وضع داری کے ہاتھوں مجبور ہیں ،کسی گرے ہوئے کو لات مارنا ہماری طبیعت ہی میں نہیں ہے ۔ بلکہ پرانے تعلقات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کی مدد کریں گے اور تو ہم کچھ کر نہیں سکتے کہ یہ ’’ بڑے بڑے ‘‘ معاملات ہیں لیکن نیک اور صائب مشورہ تو دے سکتے ہیں اور وہ یہ کہ ان ’’ سبز پتوں ‘‘ پر ہر گز ہر گز تکیہ مت کیجیے گا۔اور جب موسم بہار کا ہوتا ہے تو نہ جانے کہاں کہاں سے سبزہ و گل بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور ریوڑ کے ریوڑ چرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ سوال پہلے بھی سوال تھا اور اب بھی سوال ہے کہ
سبزہ و گل کہاں سے آتے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
البتہ یہ سب کو پتہ ہے کہ چرنے والے کہاں سے آتے ہیں اور پھر کہاں چلے جاتے ہیں ۔
بابل و عراق میں ایک بڑا خوبصورت اسطورہ اس سبزہ گل پر ہے۔ کہتے ہیں کہ عشتار نامی ایک دیوی ہے جو بہار سبزے اور موسم کی دیوی ہے۔ اس کا محبوب ’’تموز ‘‘ جو اصل میں سورج ہے، بیمار پڑھ جاتا ہے، سردیوں کے موسم میں واقعی سورج ایوب خان ، ضیاء الحق اور جنرل مشرف اور نواز شریف ہو جاتا ہے ۔ دور بھی چلا جاتا ہے، اس میں وہ آب و تاب اور وہ گرمی بھی نہیں ہوتی چنانچہ اس کی محبوبہ عشتار یعنی سبزے اور بہار کی دیوی اس کا علاج ڈھونڈنے کے لیے ’’پاتال ‘‘چلی جاتی ہے۔ اس کی غیر موجودگی میں سبزہ جل جاتا ہے، گھاس پھول پتی کا نام و نشان نہیں رہتا، برف باری اور سردی سے سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ۔
وہ پاتال میں چار مہینے سرگرداں رہتی ہے۔ آخر کار وہ دوایا نسخہ پالیتی ہے اور چار مہینے بعد لوٹ آتی ہے اور جیسے ہی لوٹتی ہے، زمین پر بہار کا موسم ہو جاتا ہے۔ سبزہ و گل اگ آتا ہے اور اس کا محبوب سورج بھی صحت یاب ہو جاتا ہے۔ ہماری موسم لیگ کا معاملہ بھی کچھ اس طرح لگتا ہے جب ایوب خان ، ضیاء الحق، جنرل مشرف اور نواز شریف کے سورج گہنا جاتے ہیں، زرد اور کمزور پڑ جاتے ہیں، ان میں کوئی تاب و توانائی نہیں رہتی تو عشتار دیوی یا جدید اصطلاح میں اقتدار پاتال میں چلی جاتی ہے اور اپنے ساتھ تمام سبزہ گل بھی لے جاتی ہے ، اب یہ بتانا تو مشکل ہے کہ پہلے دیوی پاتال سے آتی ہے کہ پہلے سبزہ و گل آتے ہیں یا نیا صحت مندسورج نکلتاہے لیکن یوںکہہ سکتے ہیں کہ تینوں ایک ساتھ بندھے ہوتے ہیں اور اکھٹے آتے ہیں یا سائنسی و طبعیاتی نقطہ نظر سے پہلے آفتاب چمکتا ہے اور اس کی چمک اور گرمی سے سبزو گل پھوٹ آتے ہیں۔
یہ سارا قصہ ہم نے اس غلط فہمی غلط العام یا کتابت کی غلطی درست کرنے کے لیے بیان کیا ہے کہ مسلم لیگ تو زمانہ ہوا اپنے قائدین کے ساتھ رخصت ہو چکی ہے لیکن کتابت کی یہ غلطی اب تک چل رہی ہے کہ موسم لیگ کو مسلم لیگ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔ غالباً اس لیے کہ اس کے قائدین اتنی جلدی چلے گئے یا چلا دیے گئے کہ وہ اس مضمون کا اشتہار بھی نہ دے سکے کہ کاغذات میں درستگی کی جائے اور وہ نا درستگی اب تک چلی آرہی ہے۔ بہر حال اب یہ جو نیا سورج گہنانے لگا ہے اور سردی کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے تو ’’’ سبزہ و گل ‘‘ تو آہستہ آہستہ غائب ہو جائے گا۔اور
مجھ کو بے رنگ نہ کردیں کہیں یہ رنگ اتنے
سبز موسم ہے، ہوا سرخ فضا نیلی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے