تانکا جھانکی

دوسروں کے گھر میں جھانکنا کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن میرے دوسرے اعمال کون سے اتنے اچھے ہیں کہ اس برائی سے احتراز کرنے سے میرا شمار فرشتوں میں ہونے لگے گا چنانچہ میں زمین پر چلتے ہوئے ’’اندر‘‘ ہو جانے کے خوف سے ممکن ہے تانکا جھانکی سے پرہیز کرتا ہوں مگر جب میرے پائوں زمین پر نہیں ہوتے یعنی جس وقت میں فضائوں میں پرواز کر رہا ہوتا ہوں تو ہزاروں فٹ بلندی سے ان گھروں میں ضرور جھانکتا ہوں جہاں عام حالات میں جھانکنے کا مجھے حوصلہ نہیں پڑتا یوں بھی جہاز پر سے بڑے بڑے ایوان بھی چھوٹے چھوٹے نقطوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور جو عام حالات میں بھی چھوٹے چھوٹے نقطے ہیں وہ جہاز پر سے اور بھی حقیر نظر آنے لگتے ہیں چنانچہ رہا سہا خوف بھی دل سے نکل جاتا ہے ۔گزشتہ ہفتے لاہور سے اسلام آباد تک کے فضائی سفر میں، میں نے حسب معمول اس تانکا جھانکی کا مظاہرہ کیا یعنی ہزاروں گھروں پر سے گزرتے ہوئے میں نے چشم تصور میں ان گھروں میں جو ہوتے دیکھا اور جو سنا اس کی چند جھلکیاں آپ کو بھی دکھاتے ہیں تو لیجئے ملاحظہ فرمائیں۔
ایک وزیر کا گھر
ایک عالیشان کوٹھی ،پورچ میں نئے ماڈل کی تین چار کاریں کھڑی ہیں گھر کے ڈرائنگ روم میں باپ اور بیٹا محو گفتگو ہیں۔
بیٹا :ابو الیکشن تو آپ نے جیت لیا وزارت بھی آپ کو مل گئی مگر آپ کے ہاتھ کیا آیا ؟
باپ:کیا مطلب میں سمجھا نہیں !
بیٹا :الیکشن پر آپ کے کوئی دس کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اتنے پیسے پاس ہوں تو حکومت سے لون لیکر کوئی بہت بڑی انڈسٹری لگائی جا سکتی ہے ۔
باپ :میں نے تمہیں کئی دفعہ کہا ہے کہ اتنی مادہ پرستی ٹھیک نہیں بیٹے جانی دنیا میں دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتی !
بیٹا :مجھے آپ کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ابو ،
باپ:دیکھو بیٹا میرا نصب العین عوام کی خدمت ہے جب کئی برس قبل میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا تو میرے پاس کیا تھا لوگوں نے چندہ اکٹھا کرکے میرا زر ضمانت جمع کرایا تھا اللہ کے فضل سے میں کامیاب ہوا اب یہ جو کچھ تمہیں نظر آ رہا ہے عوام کی دیرینہ خدمت ہی کا صلہ ہے ورنہ میرے پاس تو تمہارے اسکول کی فیس ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے ۔
بیٹا :وہ تو سب ٹھیک ہے ابو، مگر اس دفعہ عوام کی خدمت کا کچھ صلہ ملتا نظر نہیں آتا ۔
باپ :نہیں بیٹے، اگر ایسا ہوتا تو میری طرح کےسینکڑوں لوگ عوام کی خدمت کیلئے بے چین نہ ہوتے میری طرح ان سب کو اپنے عوام پر مکمل اعتماد ہے۔
بیٹا :لیکن اگر تمام جماعتوں نے کوئی کامیاب تحریک چلا کر حکومت کا تختہ الٹ دیا تو ؟
باپ :تو بیٹے پھر کیا ہوا، دوسری جماعتیں بھی کوئی غیر تو نہیں ہیں وہ بھی ہمیں میں سے ہیں۔میں نے اور تمہارے تایا ابو نے الیکشن لڑنے سے پہلے پرچیاں ڈالی تھیں کہ کون الیکشن لڑے گا اور کون الیکشن کی مخالفت کرے گا میرا نام پرچی میں نکل آیا چنانچہ میں حکومت میں ہوں اور تمہارے تایا ابو حکومت مخالف جماعت میں ہیں۔
بیٹا :مجھے آپ کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ابو۔
باپ:سمجھ جائو گے بیٹے، سمجھ جائو گے، یہ باتیں خود مجھے بھی بہت دیر بعد سمجھ میں آئی تھیں۔
ایک صنعت کار کا گھر
صنعت کار :بیٹے میری طرف سے تمام کارکنوں کو گرمیوں کے دو دو جوڑے بطور تحفہ دینے کا ا علان کر دو!
بیٹا:ابو ، اعلان کیا وہ جوڑے تو انہیں دیئے بھی جا چکے ہیں آپ تو بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔
صنعت کار:بچارے اللہ بخش کا ہاتھ مشین میں آکر کٹ گیا تھا میں نے کہا تھا کہ تمام عمر کے لئے اسے پوری تنخواہ دینے کے آرڈر کئے جائیں اس کا کیا بنا ؟
بیٹا :یہ ہو گیا تھا اور وہ آپ کو بہت دعائیں دیتا ہے۔
صنعت کار :اور ہاں دیکھو نذیر کی بیوہ کے لئے تاعمر وظیفہ جاری کر دو اللہ جنت بخشے وہ بھی بہت محنتی کارکن تھا۔
بیٹا :ٹھیک ہے ابو ۔
صنعت کار :اور مجھے یاد دلانا محمد دین کو اس کی بیٹی کے جہیز کے لئے پچاس ہزار روپے کا چیک دینا ہے۔
بیٹا :بہت اچھا ابو، مگر وہ بے چارا فضلو چھ ماہ سے اسپتال میں پڑا ہوا ہے ۔
صنعت کار :اسے اس کی تنخواہ تو مل رہی ہے نا ؟
بیٹا :جی ابو ، مگر بچارا غریب آدمی ہے اسپتال کا خرچ اس کی استطاعت سے بہت زیادہ ہے ۔
صنعت کار :کوئی بات نہیں اسے کہو اسپتال کے سارے بل ہم ادا کریں گے۔
بیٹا :ابو آپ کتنے اچھے ہیں لیکن میں ایک بات کہوں۔
صنعت کار :کہو بیٹا کہو۔
بیٹا :آپ اس قدر صدقہ زکوٰۃ اور خیرات دیتے ہیں لیکن ان مدوں سے جتنی مراعات آپ اپنے مزدوروں کو دے رہے ہیں اگر اس سے آدھی مراعات بھی آپ ان کی شرائط ملازمت میں شامل کر دیں تو اس سے ان کی انا مجروح ہونے سے بچ جائے۔
صنعت کار :وہ تو ٹھیک ہے بیٹے مگر پھر ہمیں مخیر کون کہے گا؟
ایک کالم نگار کا گھر
کالم نگار :بیٹے میں یہ کالم چھپنے کے لئے بھیج رہا ہوں، ذرا ایک نظر دیکھ لو۔
بیٹا :دیکھ لیا ہے ابو ۔
کالم نگار :حکومت ناراض تو نہیں ہو گی ؟
بیٹا :وہ تو ہو گی۔
کالم نگار :اپوزیشن والے ؟
بیٹا:وہ بھی ناراض ہوں گے ۔
کالم نگار :اور ایجنسیوں والے ؟
بیٹا :ابو وہ بھی ناراض ہوں گے ۔
کالم نگار :کوئی بات نہیں تم یہ دفتر بھجوا دو یہ میرا کوئی آخری کالم تو نہیں ہے ، آئندہ ہفتوں میں ایک ایک کالم ان کی حمایت میں لکھ دوں گا اس قسم کا ایک کالم برسوں کی خوشامد یا تنقید پر پردہ ڈالنے کے لئے ضروری ہوتا ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے