قسمت خاموشی پر مہربان نہیں ہوتی

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران امید کی ہلکی سی روشنی ہویدا ہوئی ۔ موجودہ سیاسی بحران میں قدرے کمی کا تاثر ابھرا، لیکن حالیہ پیش رفت نے اس روشنی کو گل کردیا۔ اب حالات کا پلڑا تصادم کی جانب جھکا دکھائی دیتا ہے ۔ نواز شریف کو ایک کونے میں دھکیلا جارہا ہے اور وہ پلٹ کر وار کررہے ہیں۔ مارکسی دانائی کی رو سے تضادات کی دھار تیز ہونی چاہیے، پھر ہی نتائج برآمدہوتے ہیں۔ جمود، چاہے تصادم میں ہی کیوں نہ ہو، کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا۔ اور موجودہ حکومت برس ہا برس سے جمود کا شکار ہوچکی ہے ، اور اس کے ساتھ تمام نظام اور منصوبہ سازی کا عمل بھی۔ چنانچہ اگر فیصلہ کن مبارزت ناگزیر ہے تو پھر ہونے دیں۔ لیکن یہ ’’قسطوں میں موت ‘‘، چوہے بلی کا کھیل، سست روی کا شکار سنسنی خیزی بہت ہوچکی ۔ اس المناک ڈرامے کو ختم ہونا چاہیے ۔ جو ہونا ہے و ہ ہوکر رہے گا۔ اہم واقعات سے بحران کے وسیع اور تنائو کے گہرے ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ ایک ، پاناما کیس کی نظر ِثانی کی اپیل، جو شریف فیملی نے کی تھی، کے تفصیلی فیصلے کا سامنے آنا ، اور دوسرا حدیبیہ پیپر ملز کے بارے میں قانونی جنگ۔ یہ دونوں واقعات اُس قانونی جنگ کے فیصلہ کن معرکے ہیں جو نوازشریف کا رہا سہا دم خم نکال دیں گے ۔ مذکورہ جج صاحب، جنہوں نے نظر ِثانی کی اپیل کا تفصیلی فیصلہ لکھا، کا رویہ دوٹوک اور غیر مبہم ہے ۔ اس انتہائی اہم اور متنازع مسودے میں تحریر کردہ ایک ایک لفظ اُن کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔ جب جج صاحبان درخواست دہندہ کو فراڈ، جھوٹا اور دھوکہ دہی کا مرتکب، اور اُسے اور اسکے خاندان کو قوم کے لٹنے کا ذمہ دار قرار دیں ۔۔’’یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا‘‘۔۔ تو پھر آپ کو یہ دیکھنے کیلئے گہری قانونی بصیر ت کی ضرورت نہیں کہ انصاف کا ترازو کس جانب جھکا ہوا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انصاف کا ترازو نوازشریف اور اُن کی فیملی کو سزا دئیے بغیر نہیں رہے گا۔ اب صرف کوئی معجزہ ہی اُنہیں اُس انجام سے بچا سکتا ہے۔ انصاف اپنامعیار طے کر چکا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس اب نئے بنچ کے سامنے ہو گا ۔ ایسا نہیں کہ یہ ایک ٹھوس کیس ہے ، نہیں، اس میں کئی جھول پائے جاتے ہیں۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ ایک غیر قانونی حکومت کی سینہ زوری جائز ہواور آزاد عدلیہ اس کے نتائج کو سنجیدگی سے لے ؟اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مشرف دور کے جبر کا نتیجہ ہے ۔ جو کچھ اُنھوںنے کہااگر وہ درست بھی ہو تو بھی سختی سے لیا گیا اعترافی بیان قانون کی نظر میں معتبر نہیں ہوتا۔ تاہم یہ وقت قانونی تاویل یا نکتہ آفرینی کا نہیں۔ یہ ایک لڑائی ہے جس میںشریفوں کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز جائزہے ۔ پیپرملز کیس میں منی لانڈرنگ کے الزامات کا دورانیہ 17سالوں پر محیط ہے۔ یہ کیسز اتنے الجھے اور گھنے ہیں کہ ان میں مجرم قرار دینے کا فیصلہ صدا بصحرا ہوگا۔تاہم آج کے ماحول میں شریفوں کے مخالف کسی بھی چیز کی مارکیٹنگ بہت آسان ہے ۔ یہاں میڈیا ، اہم افراد اور شریفوں کے مخالین کے جنون کے ساتھ ساتھ مالیاتی امور میں شریف فیملی کی مجرو ع شدہ ساکھ ان کے خلاف منفی فیصلے کا پیمانہ بن چکی ہے۔نواز شریف اور ان کے فیملی ممبران کا جیل جانا ایک بہت بڑی عالمی خبر ہوگی ، لیکن اس سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ اگر یہ قوم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور اُن کی صاحبزادی کی موت کے بعدبھی معمول کی زندگی برقرار رکھ سکتی ہے تو ایک اور سیاسی گھرانے کا خاتمہ بھی غیر معمولی بات نہیں ہوگی ۔
لیگی حلقوں میں ایک تصور ابھر رہا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس شریف خاندان کے اختلافات کو ختم کرسکتا ہے کیونکہ شہباز شریف اور اُن کے بیٹے مشترکہ خطرے، جبکہ سیاسی تباہی کی تلوار سر پر لٹک رہی ہوگی، کو دیکھتے ہوئے اپنے بھائی اور کزنوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے ۔ اس کی وجہ سے خاندان باہم متحد ہوجائے گا ، اور شہباز شریف کے بیٹے اپنے وسائل کے ساتھ انکل اور باجی کے ہمراہ مل کر اپنے بچائو کی اہم ترین جنگ لڑیں گے ۔ اس تصورمیں بہت جان ہے۔ تاہم صورت ِحال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے ۔ یہ کیس خاندان کو مزید تقسیم بھی کرسکتا ہے کیونکہ شہباز شریف اور ان کے بیٹے اس کیس کے کھلنے کو نواز شریف اور مریم کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔ اُن کے دل میںیہ سوچ پیدا ہوسکتی ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ اُنہیں سیاسی منظرنامے سے ہمیشہ کے لئے ہٹانا چاہتی تھی تووہ کیوںا سٹیج کے مرکز میں کھڑے رہنے پر مصر تھے ۔ جب موت یقینی ہوجائے تو اس کی وجوہ بھی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ شہباز شریف اور اُن کے بیٹے سوچ سکتے ہیں کہ اگر انکل اور باجی مل کر اس کھیل کو نہ بگاڑ دیتے تو کیا اُن کی قسمت اس سے مختلف نہ ہوتی۔ پارٹی کاساتھ دینے والوں کے ذہن بھی یہی سوچیں جاگزیں ہوسکتی ہیں۔ اگر چہ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن وہ بھی اس مسلسل رسہ کشی سے تنگ آچکے ہیں۔ اس وقت پارٹی کی حکومت محض نام کی رہ گئی ہے ۔
اس میںکوئی شک نہیں پارٹی کی میٹنگز بہت جاندار ہوتی ہیں ۔ ا ن میں پارٹی کے ساتھ وفاداری کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ نوازشریف ان الفاظ پر طمانیت محسوس کرتے ہوں گے ۔ ن لیگ کے نمائندے ابھی تک معزول شدہ وزیر ِاعظم کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ احتساب عدالت میں ہر سماعت کے بعد وزرا اور پارٹی کے وفادار جرت و بے باکی کے مجسمے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا تاثر جاتا ہے جیسے وہ نامساعد حالات کے باوجود خوفزدہ نہیں۔ ان کے دلوں کو گرمادینے والے نعرے باور کراتے ہیں کہ وہ کسی طور نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔
ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ لیکن جب حالات خراب ہونے لگیں تو بلند آہنگ افراد کی صوتی سکت اُن کی ٹانگوں میں سما جاتی ہے ۔ پھر اُن کا فرار دیکھنے سے بنتا ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی ایسا کچھ ہوتے دیکھ چکے ہیں۔ پارٹی رہنما ئوں کی حمایت کا گراف حالات کے ساتھ بلند ہوتا یا گرتا رہتا ہے ۔ نواز لیگ بہت سے داخلی مسائل رکھتی ہے یہ یقین کرنے کی ٹھوس وجہ موجود ہے کہ اگر شریف خاندان کو سزا ہوجاتی ہے تو مٹھی بھر جانثاروں کو چھوڑ کر باقی سب تتر بتر ہوجائیں گے ۔
یہ بھی درست ہے کہ اس وقت ن لیگ حکومت میں ہے، اور اسے حالات کو اس نہج تک پہنچنے سے روکنا چاہیے۔ تاہم عباسی حکومت فی الحال کسی طور پر حکومت ثابت نہیں ہوئی ۔ اس نے شروع میں توانائی کا بھرپور اظہار کیا تھا لیکن جلد ہی ’’میرا رنگ روپ بکھر گیا‘‘ کی تصویر بن گئی ۔ اب اس کے وزیر ِ دفاع کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اور اس کے وزیر ِخارجہ، جنہیں تقریریں کرنے اور بیانات دینے اور ٹویٹ کرنے کا بہت شوق تھا، اب سر پر سلیمانی ٹوپی پہن چکے ہیں۔ جہاں تک وزیر ِداخلہ کے مشہور فرمان ’’یہ کوئی کمزور ریاست نہیں‘‘ کا تعلق ہے تو یہ جملہ ہر روز اُن کا مذاق اُڑاتا ہوگا۔ اُن کی بے بسی کی تازہ ترین مثال اسلام آباد کا موجودہ گھیرائو ہے ، جس نے وزرات ِداخلہ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔ ایک حکومت جو دارالحکومت کو بھی نہیں سنبھال سکتی، جبکہ چند ہزار احتجاجی مظاہرین لاکھوں افراد کی زندگی اجیرن بنا کر اس کی عملداری کو ایک تماشا بنادیتے ہیں تو شریف فیملی بوقت ِضرورت اس حکومت سے کیا امیدلگائے ہوئے ہے؟
اس وقت اگر شریف فیملی کی مشکلات کا گراف پر ظاہر کیا جائے تو وہ ان کے سامنے اگر ایک چانس ہے تو نو مشکلات ہیں۔ اُنہیں ہمیشہ کے لئے سیاست سے آئوٹ ہونے کا حقیقی خطرہ درپیش ہے ۔ اُن کی سیاسی اور مالیاتی سلطنت کے پرزے اُڑسکتے ہیں۔ اُنھوںنے ایک سیاسی جنگ کو قانونی طور پر لڑنے کی کوشش کی اور بری طرح ناکام رہے ۔ اس وقت اُن کے سامنے ایک طویل اور مشکلات سے بھرپور راستہ ہے ۔ اس مایوس کن اندھیرے میں ان کے سامنے روشنی کی ایک ہی کرن ہے ۔ وہ دھڑے جن پر وہ خود کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتے ہیں، وہ ’انجینئرنگ ‘ کی مہارت نہیں رکھتے ۔ ان کے زیادہ تر سیاسی منصوبے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی ڈرامہ اس ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ دوسری مثال مشرف کا بے معانی الائنس ہے جس میں شامل 23 پارٹیوں کی ملک میں کوئی انتخابی حمایت موجود نہیں۔ ان منصوبوں کو دیکھتے ہوئے شریف امید کرسکتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اُنہیں اس طوفان سے بچ نکلنے کا موقع مل جائے ۔ جب آپ کے مخالفین آپ سے بھی زیادہ بے ہنر ہوں تو آپ کے چانسز بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ امکان بہت موہوم ہے ۔ لیکن جب شریفوں کے سامنے اور کوئی امکان نہیں تو اس پر نظریں جمانے میں کوئی حرج نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے