جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ اہلِ صحافت نے انصاف کیا نہ ان کے اپنے ادارے نے۔تاریخ بہرحال انصاف کرتی ہے۔ چیخنے اور چلانے والوں کے مقابلے میں‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کارنامے اجاگر ہوتے جائیں گے۔
سوال: صحافت میں کس کس کو اپنا استاذ مانتے ہیں؟
ہارون الرشید: عالی رضوی صاحب، نیوز روم میں جمیل اطہر صاحب۔ جمیل صاحب کسی بڑے اخبار میں ہوتے تو بہت بڑے نیوز ایڈیٹر ہوتے۔ صحافتی اخلاقیات کا بہت خیال رکھتے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب سے ہفت روزہ صحافت کی کئی نزاکتیں سیکھیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب سے سیکھا۔ اعجاز قریشی صاحب زبان کے باب میں بہت حساس تھے۔ ایک دن انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا لکھ دیا ”ہنستے بستے شہر؟‘‘ میں نے عرض کیا: ٹھیک ہی تو لکھا ہے۔ کہا ”رستے بستے شہر‘‘۔ الطاف حسن قریشی صاحب سے ایک بڑی اہم چیز سیکھی، جو آج تک مددگار ہے، ”کوما‘‘ اور ”فل اسٹاپ‘‘ کہاں لگانا ہے۔ شامی صاحب بھی اس کا خیال رکھتے، لیکن الطاف صاحب اس معاملے میں زیادہ محتاط تھے۔ شامی صاحب بھی ایڈیٹر اچھے تھے، باخبر بہت، سرخی بہت اچھی جماتے۔ اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں، جس طرح کہ روزانہ صحافت میں عباس اطہر مرحوم۔ مجید نظامی صاحب بہت باریک بینی سے ایڈیٹنگ کرتے۔ یاد ہے کہ ایک بار میں نے لکھا ”میرے دوست گلبدین حکمت یار‘‘ جلدی میں لکھ تو ڈالا ، لیکن ذہن میں اٹکا رہا کہ دوستی اپنی جگہ، مگر وہ ایک بڑے لیڈر ہیں۔ کالم چھپ کر آیا تو لکھا تھا ”میرے محترم دوست!‘‘ اپنے دل میں نے اس پر انہیں بہت داد دی۔
سوال: مستقل کالم نگاری کا آغاز کیسے کیا اور کس اخبار سے اپنے سفر کو شروع کیا؟
ہارون الرشید: 1970ء میں روزنامہ وفاق میں میں نے پہلا کالم لکھا، بسنت اس کا موضوع تھا۔ کئی کمسن بچے جان ہار گئے تھے۔ دل گرفتہ ماؤں کے ملال کو الفاظ میں پرونے کی کوشش کی۔ دوسرا کالم بھی وفاق میں لکھا، جس روز میاں طفیل محمد نے امیر جماعت اسلامی کی حیثیت سے حلف اُٹھایا۔ ٹوٹ کر وہ روپڑے۔ مرحوم ایک عجیب آدمی تھے۔ سر تاپا سادگی، سرتاپا اخلاص۔ دس گیارہ بار حجازِ مقدس جانے کا موقع ملا۔ کروڑوں مسلمانوں کو طواف کرتے دیکھا۔ اس عالم میں پروانے کی سی کیفیت کم دیکھی۔ ان میں سے ایک وہ تھے اور ایک امریکی مصور جس نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔
کچھ کالم روزنامہ کوہستان میں بھی لکھے مگر شاذ ہی۔ اس لیے کہ ذمہ داریاں دوسری تھیں۔ اسی طرح ہفت روزہ زندگی میں کبھی کبھار کالم لکھنے کا موقع ملتا۔ روزنامہ پاکستان میں اگرچہ میری ذمہ داری میگزین ایڈیٹر کی تھی، لیکن 1991ء سے 1993ء تک کالم بھی لکھتا رہا۔ 1993ء میں ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی سے مشورہ کرنے کے بعد اخبار کو خیرباد کہا۔ ان کے مشورے کا خلاصہ یہ تھا کہ تمہیں لکھنا چاہیے، نیوزروم میں اپنا وقت برباد نہ کرو۔
غالباً یہ 1993ء کا موسمِ خزاں تھا، میرے بہت محترم دوست مختار حسن مرحوم کا انتقال ہوگیا۔ روزنامہ ”جسارت‘‘ کے لیے ہفتے میں تین کالم لکھنے کی پیشکش ہوئی۔ تجربہ کامیاب رہا، فقط یہ کہ اخبار کی اشاعت کچھ زیادہ نہیں تھی۔ سارا دن کتابیں پڑھتا رہتا، خواب دیکھتا رہتا کبھی کوئی زمانہ آئے گا۔ کبھی کوئی ہماری بات سنے گا۔ کالم سے اتنے پیسے ملنے لگے کہ گزر بسر ہوجاتی۔ میں نے اگرچہ اپنے خاندان والوں کو مدتوں پتا ہی چلنے نہ دیا کہ میرے حالات کیسے ہیں، لیکن میرے بھائی ایسے تھے جو کہتے تھے جتنے روپے درکار ہوں ‘لے لیا کرو۔ ستمبر 1995ء میں پہلی بار عمرہ کرنے گیا‘وہاں میرے خالہ زاد بھائی میاں محمد خالد حسین نے اپنی مرسڈیز بھجوائی۔ انہوں نے کہا جتنے پیسے چاہئیں‘لے لو، کوئی کاروبار کرلو یا پرچہ نکالو۔میرے چھوٹے بھائی محمد امین نے کہا کچھ پیسے لے لیجئے‘ ایک مکان اور کار خرید لیجئے۔ انکار تو نہ کیا، لیکن ٹال دیا۔ بعد میں انہی دونوں کے فراہم کردہ سرمائے سے چھوٹا سا ایک کاروبار شروع کیا جو اللہ کے فضل سے خوب پھلا پھولا۔ اب میرے بیٹے معظم رشید اس کے نگران ہیں۔
زیارتِ حرمین کے فوراً بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر خوشنود علی خان ملے۔ انہوں نے میرا سامان اُٹھایا، حالانکہ کچھ دن سے ناراض تھے۔ اگلے دن کالم لکھنے کی فرمائش کی۔ پھر ضیاء شاہد صاحب نے فون کیا۔ ستمبر کا آخر یا اکتوبر کا آغاز تھا۔ روزنامہ خبریں کے لیے میں نے پہلا کالم لکھا۔ کچھ بھی لکھوں بار بار اسے پڑھتا ہوں۔ دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ کالم پھاڑکر پھینک دیا۔ خوشنود علی خاں سے کہا کہ کاغذ لاؤ۔برسوں کا تعلق تھا‘ میری کیفیت سمجھ رہا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ جو تمہید باندھی تھی، وہ ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے پوتی کی شادی کے لیے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں کچھ کمرے حاصل کیے تھے۔ نون لیگ نے ہنگامہ اُٹھارکھا تھا کہ سرکاری وسائل استعمال ہورہے ہیں۔ ایسا نہ تھا۔ نوابزادہ صاحب نے کرایہ ادا کیا تھا۔ اس موضوع پر لکھا۔ کالم کا عنوان کیا‘ مجھے کالم بھی یاد نہیں رہتا۔ لیکن اس کا عنوان اب بھی ذہن میں تازہ ہے: ”یہ ہماری جنگ نہیں ہے‘‘۔ اگلے دن نون لیگ والے روئے پیٹے، یہ کس بلا کو ہمارے پیچھے لگادیا۔ ضیاء شاہد اور خوشنود علی خان یہی تو چاہتے تھے۔ سہ پہر میں مجھے خوشنود علی خان نے بتایا کہ سارا دن فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ دراصل یہی کالم نگاری کا باقاعدہ آغاز تھا۔ بیچ میں چند ماہ روزنامہ اساس اور جسارت کے لیے لکھتا رہا۔ 1997ء میں جنگ کی طرف سے پیشکش ہوئی۔ اس کے بعد کالم نگاری ہی زندگی کا محورومرکز ہوگئی۔
سوال: احمد فراز مرحوم اور آپ کی کوئی لڑائی تھی، سنا ہے ان کی طرف سے آپ پر مقدمہ بھی ہوا، کسی محفل میں بھی خاصی گرما گرمی ہوگئی تھی ؟
ہارون الرشید: احمد فراز زود رنج تھے،جتنے مقبول‘ اتنے ہی حساس۔ کسی کالم پر ناراض ہوگئے۔ ایک محفل میں بیٹھے تھے‘ کہنے لگے کہ رنجیت سنگھ پنجابیوں کا ویسا ہی ہیرو ہے جیسے پٹھانوں کا غفار خان۔ ملک معراج خالد بھی موجود تھے، افتخار عارف اور اکرم ذکی بھی۔ میں نے کہا: دونوں باتیں غلط ہیں۔ فراز نے کہا ”میں جو کہتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا: یہ کوئی شاعری ہے جس پر آپ کی رائے مانی جائے؟ یہ تاریخ اور سیاست ہے، یہ آپ کے بس کا روگ نہیں۔ موضوع پر بات کرنے کا حق انہیں ہوتا ہے جنہوں نے اس میں عرق ریزی کی ہو۔ وہ ایک مقبولِ عام ہیرو تھے، ان کے نام پر بچوں کے نام رکھے جاتے، ایسی بات وہ کیسے گوارا کرتے۔ میں نے کہا: گلی میں جاکر کسی سے پوچھ لیں جواب مل جائے گا، کون پنجابی رنجیت سنگھ کو اپنا ہیرو مانتا ہے؟ یہاں چار پنجابی بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی سے پوچھ لیں۔ رہی غفار خان کی بات تو کبھی اسے اکثریت نہیں ملی۔ وہ آخر تک ناراض ہی رہے۔ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور اس وجہ سے چھوڑگئے کہ پہلے دن ہی انہوں نے مجھے عمران خان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا ہوا پایا۔ آخر میں تو یہ حال تھا کہ کسی تقریب میں جاتا اور مجھے دیکھ لیتے تو اُٹھ کر چلے جاتے۔
سوال: جنرل کیانی کے ساتھ آپ کے تعلق کا کافی چرچا رہتا ہے۔ کیسے یہ استوار ہوا؟
ہارون الرشید: وہ ”ناتمام‘‘ کے قاری تھے۔ کئی اور کالم بھی پابندی سے پڑھا کرتے۔ جنرل کیانی بہت مطالعہ کرنے والے آدمی ہیں۔ شاندار لائبریری رکھتے ہیں۔ بے شمار لائبریریاں دیکھی ہیں، مگر ان کی ایک خصوصیت ہے، چالیس سال پہلے کی کتاب اٹھائیے، نئی معلوم ہوگی۔ اس کا راز انہوں نے مجھے بتایا، تفصیل پھر کبھی۔ ہاں! فیصلے میں کبھی تاخیر کردیتے۔ لوگ جنرل کیانی کو سمجھے نہیں۔
سوات میں صورتِ حال خطرناک تھی۔ 20 اخبار نویسوں کو انہوں نے بلایا۔ مجھ سے پوچھا: سگریٹ پیجئے گا۔ میں نے عرض کیا: اپنی ڈبیا میں گھر بھول آیا ہوں، آپ کے ساتھ والی کرسی پر اسی لیے بیٹھا ہوں۔ کیانی صاحب بہت سگریٹ پیتے ہیں۔ میں ہر روز 4 سے 5 سگریٹ پیتا ہوں۔ ایک بار ان سے پوچھا ہر روز کتنے سگریٹ آپ پی لیتے ہیں؟ (باقی صفحہ 13 پر )
کہا میں گنتا نہیں۔ میں نے کہا: جنرل صاحب! اس ہفتے پندرہ پیکٹ آپ نے پیے۔ وہ حیرت زدہ۔ اصل میں جو صاحب جہلم کی فیکٹری سے تازہ سگریٹ ان کے لیے لایا کرتے، کبھی میں بھی اسی سے حاصل کرتا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر بھی ڈیڑھ پیکٹ روزانہ پی جاتے ہیں۔ دونوں کی ایک اور قدرِ مشترک یہ ہے کہ تین چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے۔ پروفیسر صاحب دوسرے پہر سوتے اور تیسرے میں جاگ اٹھتے ہیں۔ ساری رات لائبریری میں بِتاکر، جنرل صاحب ساڑھے تین پونے چار بجے بستر پر لیٹتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ساڑھے سات بجے جاگ اٹھتے ہیں۔ پورے آٹھ بجے وہ دفتر میں پائے جاتے۔ شام میں ایک آدھ گھنٹہ البتہ آرام کرتے اور ورزش بھی۔ پروفیسر صاحب صبح جاگ اُٹھنے کے بعد کبھی آرام نہیں کرتے۔دونوں کم خور ہیں۔پروفیسر صاحب آدھی روٹی پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ جنرل صاحب جب چاہیں دوپہر کا کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔
پہلی ہی ملاقات میں انہیں مشورہ دیا کہ فلاں صاحب سے ملیں۔ جنرل کیانی نے پروفیسر احمد رفیق اختر سے وزیرستان آپریشن کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوات سے بھی آسان ہوگا۔ جنرل صاحب سوات کے باب میں بھی متامل تھے،عرض کیا پروفیسر صاحب سے ملیں۔ اگر تاریخ کے بہترین آپریشنز کا ذکر کریں تو 90 دن کا یہ آپریشن اُن میں شامل ہوگا۔
(ختم شد)
جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ اہلِ صحافت نے انصاف کیا نہ ان کے اپنے ادارے نے۔تاریخ بہرحال انصاف کرتی ہے۔ چیخنے اور چلانے والوں کے مقابلے میں‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کارنامے اجاگر ہوتے جائیں گے۔
پسِ تحریر: طویل انٹرویو کا باقی حصہ دلیل ڈاٹ کام پہ دیکھا جا سکتا ہے۔