چُور تھا پانامہ سے دل، پیراڈائز سے زخمی جگر بھی ہو گیا

پیراڈائز لیکس نے دولت مند افراد، کارپوریشنوں اور سیاست دانوں کے پُراسرار مالی مفادات کی لنکا کو برسرعام کر دیا ہے. سربراہانِ مملکت و حکومت، بڑے بڑے ٹیکنالوجی اداروں کے مالکان اور حکومتی اہلکاروں کی خفیہ معاشی جنت کو ننگا کرکے ساری حقیقت آشکار کر دی ہے. عام آدمی نے اِس دنیا کو جنت بنانے کو جو خواب دیکھا تھا وہ چکنا چور ہو گیا ہے کیونکہ جنت کے معمار گھٹیا، جھوٹے اور لٹیرے نکلے ہیں.

برطانوی کالونی "اِزل آف کین” کی سرکار نے ایک سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کی سکیم کا اجراء کیا. تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جہاں عوام سے پچاس ارب روپے کا بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس وصول کیا، وہاں امیر ترین لوگوں کو فقط نجی جہاز امپورٹ کرنے کیلیے ایک سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دے دی گئی. یہ اِس دور کے معاشی حالات کی کہانی ہے. پیراڈائز لیکس نے یہ بتایا کہ کیسے حکومتی اہلکاروں نے "ایپل بی” اور دوسری آف شور کمپنیوں کے ساتھ ساز باز کر کے دنیا کے امیرترین لوگوں کی ٹیکس چوری میں مدد فراہم کی.

نو سو ارب امریکی ڈالر کی مالیت والی ایپل کمپنی، آٹھائس ارب امریکی ڈالر کی مالیت والی نائکی کمپنی اور تین سو پچاس ارب امریکی ڈالر کی مالیت کا والی فیس بک جیسے اداروں نے اربوں روپے کی "قانونی” ٹیکس چوری کی. بیچارے عوام کی جیبوں کو خالی کرنے والے حکومتی اہلکار اور عوام کا خون چوستے اداروں نے اِن ہوس زدہ امیروں کی چوری میں اُن کی مدد کی.

پیراڈائز لیکس نے ہمارے اِس دعوے کی تصدیق اور وضاحت کی ہے کہ کیوں اور کیسے یہ دنیا چند ایک لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے، یہ حقیقت ہے کہ اِس وقت دنیا پہ "چند سری” اشرافیہ کا قبضہ ہے. یہ لوگ اپنے پیسوں کی بےپناہ طاقت کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت پہ قبضہ رکھتے ہیں. پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ اِن چوروں کی بڑھتی ہوئی دولت کے سوا کچھ بھی نہیں. عام آدمی محنت کرتے کرتے قبر میں جا پہنچتا ہے، یہ امیر ترین لوگ چوریاں کرتے کرتے، عیاشیوں کی گود میں پلتے رہتے ہیں. بغیر مشقت کیے دولت کے انبار لگا لیتے ہیں.

یہ چور یا تو خود سربراہانِ مملکت و حکومت ہیں یا پھر سربراہان اِن چوروں کے پروردہ ہیں. اپنی شخصیت کی وجہ سے مقبول کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹوریڈو کی کہانی کو بطور مثال لے لیجیے. کینیڈا کے مشہور یہودی کاروباری سٹیفن بروفمین خوبرو وزیراعظم کے "قریبی دوست” ہیں. سنہ 2013ء میں لبرل پارٹی کی فنڈ ریزنگ کے اجلاس کی صدارت بھی اسی یہودی کاروباری نے کی تھی. پیراڈائز لیکس نے واضح کیا کہ کیسے مڈل کلاس کے خودساختہ نمائندے نے سٹیفن بروفمین کی چھ کروڑ ڈالر کی ٹیکس چوری میں معاونت کی.

موجودہ نظام کے بہی خواہ ہمیں بتاتے ہیں کہ تمام انسانوں کو مساوی حقوق میسر ہیں، وسائل اور مواقع تک تمام لوگوں کو مساوی رسائی حاصل ہے. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے عوام سے تو ہر قسمی ٹیکس نچوڑ لیا جاتا ہے، مگر یہ سرمایہ اشرافیہ تو بہت اعتماد سے ٹیکس چوری کر لیتی ہے، جبکہ ادارے اور حکومتیں اُن کا ساتھ دیتی ہیں. ہم عوام اگر سو روپے کا موبائل بیلنس ڈلوائیں تو سب سے پہلے ٹیکس کاٹا جاتا ہے، پھر کال کرنے یا میسج کرنے پہ ٹیکس کٹوایا پڑتا ہے. مگر یہ دولت مند کیا کر رہے ہیں؟ اِس کھربوں ڈالر کی چوری کا کیا جواب ہے سرمایہ داری کے وکیلوں کے پاس؟

ہمیں سمجھایا پڑھایا جاتا ہے کہ محنت کرو، حق حلال کے طریقے استعمال کرو اور مثبت سرگرمیوں میں ملوث رہو، دیکھنا تم بھی امیر ہو جاؤ گے. لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امیرترین لوگ جتنے زیادہ امیر ہیں اتنے ہی بڑے بےایمان اور چور بھی ہیں. دولت کے بےپناہ مجموعہ کی بنیاد چوری، دھوکہ دہی اور جعل سازی پہ رکھی جاتی ہے. اِس نظام میں ایمانداری سے فقط پیٹ پلتا ہے اور اکثریت کیلیے تو پیٹ پالنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے.

پیراڈائز لیکس کے آنے کے ہمارا یہ دعوٰی بھی سچ ثابت ہو چکا ہے کہ کرپشن دراصل اِس نظام کی بنیادوں میں موجود ہے. یہ لوگ پیدائشی کرپٹ نہیں ہیں بلکہ اِس نظام کا چلن ہی کرپشن ہے. اگر کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو اِس نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا. اِس نظام کی سیاست بھی اِس کی طرح کرپٹ ہے. اِس نظام کے سیاسی قائدین چاہے جیسی بھی خوبصورت لفاظی کریں وہ اِس نظام کو بدلنے کی چاہت اور اہلیت دونوں سے عاری ہیں. عوام، پوری دنیا کی عوام کو متحد ہو کر اِس غلیظ نظام سے بغاوت کرنی ہو گی وگرنہ یہ چور ہمارے آقا ہی رہیں گے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے