انسداد دہشت گردی میں مردم شماری کی اہمیت

اٹھارویں صدی کا پروشیائی سپہ سالار اور عسکری نظریہ ساز کارل وون کلاز ویتس کہتا ہے کہ کسی ملک کی حکومت، عوام اور فوج ملکر ہی جنگ کو منظم کر سکتے ہیں اور وہ ان تین عوامل کو جنگی تثلیث کا نام دیتا ہے ۔ ان عوامل میں ربط و نظم سے فراہم شدہ نظام العمل کی بنیاد پرکسی خطےمیں جنگ لڑی جاتی ہے۔یہ عوامل جنگ کے دوران وجوہات ، جذبات و احساسات اور امکانات و مواقع کی تفہیم ممکن بناتے ہیں۔ حکومت اپنے اقدامات کے جواز کی وجوہات سے عوام کو آگاہ کرتی ہے۔ نتیجتاًعوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتی رائے عامہ جنگی لائحہِ عمل کی تشکیل میں حکومت کی معاونت کرتی ہے۔ رائے عامہ عسکری حکمتِ عملی پر اثرا انداز ہوتی ہے اور فوج اسی کے تحت کام کرتی ہے۔ عملیت پسندی، راہنمائی اور عوام کو جنگ پر مائل کرنے کی صلاحیت کارِ حکومت کو آسان اور کم مشکل بناتے ہیں۔ تاہم بے قاعدہ جنگیں مختلف نکتہِ نظر، تکنیک اور حکمتِ عملی کی متقاضی ہوتی ہیں۔اسی لئےایسی جنگوں میں عوامی احساسات و جذبات کی اہمیت باقی ماندہ عوامل کی نسبت دو چند ہو جاتی ہے۔ایامِ جنگ میں ملکی آبادی عسکریت پسند جنگجوؤں کو انتظامی و سماجی حمایت، افرادی و معاشی وسائل اور جائے پناہ کی فراہمی ، معلومات کے حصول اور اسلحہ کی ترسیل کا اہم ذریعہ بن جاتی ہے۔ سو انسداد دہشت گردی اداروں کو نہ صرف ملکی جغرافیائی حدودبلکہ سرحد سے متصل بیرونی علاقوں میں رہائش پذیر آبادیوں پر نگاہ رکھنی چاہئے۔ اس طرح کے علاقے مختلف الجہت سماجی و اقتصادی حوالوں سے باہم منسلک ہوتے ہیں اور سرحد پار آزادنہ نقل و حمل ریاست مخالف عناصر کو قدرتی طور پر ایک چھت کی فراہمی کاسبب بنتی ہے ۔ دیہی و نیم شہری علاقوں سے ترقی پذیر یا بڑے شہروں کی طرف ہجرت کا عوامی رجحان بڑے شہروں میں دہشت گردوں کے پشت بانوں تک پہنچنے اور انسداد دہشت گردی مہم میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔

نسلی و مذہبی ہم آہنگی کی بنیادپر عوامی نقل مکانی بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے کیونکہ عقائد و روایات میں ہم آہنگی کی بنیاد پر کوئی بھی دہشت گردکسی بھی علاقے میں آسانی سے پناہ حاصل کر سکتا ہے۔مثال کے طور پراکتوبر 2006 میں اندرون لاہور میں واقع ایک مکان میں دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے 15 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ دورانِ معائنہ جائے وقوعہ کے ملبے سے 8 دستی بموں کی بر آمدگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مکان میں رہائش پذیر افرادکسی دہشت گرد گروہ سے منسلک تھے۔ یہ علاقہ اہلِ تشیع آبادی پر مشتمل تھا اور تشیعی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے سبب وہ افراد باآسانی اس معاشرے میں ضم ہو گئے تھے۔اسی طرح ارفع کریم ٹاور کے قریب جولائی 2017 میں تحریکِ طالبان پاکستان کے سواتی دھڑے کی طرف سے لاہور میں خود کش حملہ کیاگیا۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے لاہورکے مضافات میں واقع سواتی آبادی میں پناہ لے رکھی تھی۔فطری طور پر کوئی بھی فرد اپنے ہم مذہبوں میں آسانی سے سکونت اختیار کر سکتا ہے۔سو آبادیاتی تبدیلیاں دہشت گرد گروہوں سے وابستہ خاموش قاتلوں کو طویل عرصے تک زندہ رہنے کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔اسی لئے انسداد دہشت گردی کی قوتوں کے نزدیک باقاعدہ مردم شماری کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے نتائج آبادیاتی تغیر اور انسانی نقل مکانی کے حوالے سے انتہائی دلچسپ رہے ہیں۔ 1998 سے 2017 تک تقریباً انیس سالوں میں ملکی آبادی 14 کروڑ سے 20 کروڑ 70 لاکھ تک بڑھی ہے، جس کے مطابق آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 2.5 فیصد بنتی ہے۔نیز بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کی نسبت پنجاب زیادہ آبادی کا حامل صوبہ ہے۔نتائج کے مطابق کوئٹہ، حیدرآباد، اسلام آباد، گوجرانوالہ، ملتان ، فیصل آباد، کراچی، لاہور اور پشاور کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ انسداد دہشت گردی منصوبے کو لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے بڑے شہروں میں مختلف نسلی گروہوں کے آبادیاتی تنوع ، سماجی ربط اور ان کی نقل مکانی کی وجوہات کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کہ کس طرح ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کو مسلسل مغلوب رکھا جا سکتا ہے ؟ محدود جنگی کشمکش کے دوران آبادیاتی تسلط کے بے شمار فوائد ہیں۔

اول یہ کہ ملکی آبادی ناپسندیدہ عناصر کے غیر عملی اقدامات میں معاونت کا بنیادی وسیلہ ہو سکتی ہے۔ آبادی کا مخصوص حصہ اپنے پشت بانوں کے نظریات کی ترویج و اشاعت اورخطرناک نتائج کے حامل معاندانہ امکانات کی پیش بندی کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ اجنبی علاقوں میں کسی بھی مخصوص سخت گیر گروہ کو اپنی حکمتِ عملی کے تسلسل کیلئے مؤثر انداز میں تابع فرماں رکھا جا سکتا ہے اور ڈیجیٹل واسطوں کی موجودگی کے باعث ایسا کرنے کیلئے بالمشافہ تعارف یا دوبدو ملاقات کی ضرورت بھی نہیں رہتی ۔

دوم یہ کہ کسی بھی علاقے میں رہائش پذیر افراد کے بارے میں مکمل جان کاری قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب ہدفی کارروائی میں ممد ومعاون ہو سکتی ہے۔ کسی بھی شہری علاقے میں انسداد دہشت گردی کی کارروائی ایک کٹھن کام ہے اور حالات و واقعات کی صحیح معلومات نہ ہونے کے سبب اس میں کامیابی کے امکانات کم رہتے ہیں۔ سماج کے منتخب حصے کے ذریعے جدید ذرائع پیغام رسانی کے فعال استعمال سے نا پسندیدہ عناصر کے بارے میں ہمسایہ ریاستوں سے تبادلہ معلومات کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

سوم یہ کہ جدید ذرائع پیغام رسانی و برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مخصوص علاقوں میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئےمالی وسائل اور افرادی قوت کی ترسیل ، نسلی و مسلکی نظم و ضبط ، باہمی ربط و تعلق اور تبادلہ تقریر وتحریرکے ذریعے بغیر کسی روکاوٹ کے تسلسل کے ساتھ لوگوں کی ذہن سازی کر کے اپنے ماتحت رکھا جا سکتا ہے۔

چہارم یہ کہ انتہا پسندانہ طرزِ عمل کی بناپر عوامی رویوں اور ردعمل پر اثرا انداز ہوا جا سکتا ہے۔سرکردہ افراد حتمی نظریات کے پرچارسے سامعین کے اذہان پرگہرا نقش چھوڑتے ہیں اور عوام اپنے آپ کو انہیں نظریات کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیتے ہیں۔ جدید ذرائع پیغام رسانی ان نظریات میں رسوخ و تیقن کا موجب بننے والے مواد کی فراہمی کا اہم ذریعہ بن جاتے ہیں۔

افزائشِ آبادی، ہجرت و نقل مکانی اور آبادیاتی نفوذ پر سنجیدگی سے سوچ بچار کرنا ضروری ہے۔مستقبل میں اسلحہ کی بجائے جدید برقی ذرائع ابلاغ کے استعمال سے عوامی ذہن و فکر کو بدلنا جنگی حکمتِ عملی کی بنیاد ہو گا ۔ لہٰذا نفسیاتی طور پر اثرا نداز ہوکے عوام کو حکومت یا مقتدر اداروں کے خلاف متحرک کیاجا سکتا ہے۔ عوام کو انتہا پسندی کی طرف مائل کر لینے کے بعد انہیں غیر معمولی جنگوں میں مخصوص مقاصد کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں شمالی کوریا میں وطن پرستی اور معاندانہ طاقت کے احساسات کو ابھارا گیا۔ حتمی طور پر سماجی نظم و ضبط کا ایک ایساجال بچھا دیا گیا ہے جس میں صحیح یا غلط کے امتیاز کے بغیر کچھ بھی سنا یا دیکھا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے