بلوچ قوم کی تحریک کونقصان کس نے پہنچایا؟

ایک عرصے سے پاکستانی سکیورٹی فورسز یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہیں کہ علیحدگی پسند بلوچوں کے پیچھے “بیرونی ہاتھ” ہیں، انہیں امداد اور اسلحہ کوئی دوسرا ملک فراہم کر رہا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے بار بار دعوؤں کے باوجود ملک میں موجود صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں لاپتہ ہونے والے افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے ہر سطح پر اپنی آواز اٹھاتے رہے۔ یہ طبقہ کسی صورت پاکستانی سکیورٹی فورسز کے نیریٹیو کو خریدنے کے لیے تیار نہیں تھا، پاکستان کی سول سوسائٹی کسی بھی صورت بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

پھر ایک دن پاکستان کے روایتی حریف ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے یوم آزادی کے موقع پر پرجوش تقریر کرتے ہوئے ’بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت‘ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی ریڈیو پر بلوچی سروس کا آغاز ہوا، کلبھوشن یادیو پکڑا گیا۔
بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) کے سربراہ اللہ نذر بلوچ نے پانچ برسوں کے بعد اپنے پہلے ویڈیو انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بھارت سے ملنے والی مالی اور دیگر مدد کو خوش آمدید کہیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور پر مزید حملے کیے جائیں گے۔

انہی دنوں علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی نے کہا کہ وہ بھارت میں ’سیاسی پناہ‘ کی درخواست دینے والے ہیں۔

علیحدگی پسند بلوچوں اور پاکستان مخالف ممالک کے تعلقات کے حوالے سے جو کام پاکستانی ادارے ایک عرصے سے نہیں کر پا رہے تھے، وہ نریندر مودی اور بیرون ملک بیٹھی بلوچ قیادت نے چند دنوں کے اندر اندر کر دیا۔ نریندر مودی اور بلوچ رہنماؤں کی طرف سے پاکستان کے ہر ایک دشمن سے مدد لینے کے نعروں نے بلوچستان کے سیاسی حقوق اور علیحدگی پسند تحریک کو ایک ساتھ ملا کر رکھ دیا ہے۔ اب بلوچستان کے سیاسی حقوق اور علیحدگی پسند تحریک میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

نتیجتا پاکستان میں حامد میر جیسے بڑے بڑے نام بلوچستان کے حوالے سے بولنے سے گھبرانے لگے ہیں۔ بلوچستان کی بیرون ملک علیحدگی پسند قیادت نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس قدر بھیانک غلطیاں کی ہیں کہ ان کا خمیازہ نہ صرف بلوچی عوام کے سیاسی حقوق کے بات کرنے والوں بلکہ پاکستان میں موجود خود بلوچ سیاسی رہنماؤں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ فضاء ایسی بن چکی ہے کہ اب بلوچستان میں سیاسی حقوق کے حوالے سے بات کرنے کا مطلب بھارت اور مودی کا ساتھ دینے کے مترادف سمجھا جانے لگا ہے۔ اس فرق کو مٹانے میں نریندر مودی اور بیرون ملک بلوچ قیادت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

علاحدگی پسند بلوچوں کی اسرائیل سے مدد کی اپیل

یہ نریندرمودی اور بیرون ملک مقیم بلوچستان کے علیحدگی پسند لیڈروں کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ بلوچستان کے سیاسی حقوق کی تحریک پِستی جا رہی ہے۔ ’بھارت نواز ہونے اور غداری کے لیبل‘ کا خوف اس قدر ہے کہ اب بلوچستان میں سیاسی حقوق کی بات کرنے والے صحافی اور سول سوسائٹی کچھ کہنے سے پہلے دس مرتبہ سوچتے ہیں۔ میرے خیال سے نریندر مودی کے بیان سے پہلے صورتحال اس قدر خوفناک نہیں تھی۔

بلوچستان میں گزشتہ دو روز میں درجنوں پنجابی مزدروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ایسی کارروائیوں کا مزید تنیجہ یہ نکلے گا کہ جو اکا دکا آواز بلوچوں کے سیاسی حق میں اٹھتی تھی، وہ بھی بند ہو جائے گی۔ ایسی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں بلوچستان میں سیاسی حقوق کی تحریک بالکل ختم ہو جانے کا خطرہ ہے۔

عملی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پرتشدد کارروائیاں کرنے والے علیحدگی پسند کبھی بھی پاکستانی ریاست سے نہیں جیت سکتے۔ ہاں جو کام ہو سکتا ہے، وہ اسی طرح کی پرتشدد کارروائیاں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں کا بلوچ عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ ایسی کارروائیوں کا نتیجہ خونریزی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ کیا اس طرح اسکول بن جائیں گے؟ کیا اس طرح ہسپتالوں کی تعداد بڑھ جائے گی، کیا اس طرح ہر بلوچی بچہ پڑھ لکھ جائے گا؟

پرتشدد کارروائیاں کرنے والے بلوچوں کو ایک مرتبہ پھر سوچنا ہوگا۔ کیا اس طرح “بلوچستان آزاد” ہو جائے گا تو جواب نہیں ہے۔
بہتر مستقبل اور سیاسی حقوق کے لیے سیاسی جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر یہ سیاسی جدوجہد نہ ہو تو فارک باغیوں کی طرح آپ کو پچاس برس بعد بھی مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے