سائنس اور ٹیکنالوجی

( گزشتہ سے پیوستہ)
پچھلے کالم میں اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالی تھی۔ آج وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پچھلا کالم ختم کیا تھا۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ معاشی ترقی کم ترقی یافتہ یا پسماندہ ممالک کے پاس سے گزر گئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی ممالک نے ان ممالک پر پابندی عائد کردی تھی کہ وہ صرف ضروریات زندگی کی اشیا ہی تیار کرسکیں گے۔ چونکہ عام روز کے استعمال کی اشیا کی مارکیٹ بدلتی رہتی ہے اس لئے مغربی ممالک کے لئے یہ بہت آسان تھا کہ وہ بین الاقوامی طریقہ کار رائج کرکے اور کوٹا مقرر کرکے تجارت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں قائم رکھتے رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی وقت میں پسماندہ ممالک مناسب فنڈز پیدا نہ کرسکے کہ صنعتیں قائم کرتے اور نہ ہی وہ مغربی ممالک کے مقابلہ کی ٹیکنالوجی بنا سکے۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مغربی ممالک نے کیا تھا کہ اس طرح پسماندہ ممالک ان کے مقابلہ میں ترقی نہ کرسکیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ممالک کامکمل طور پر مغربی ممالک کی فنّی مدد اور ہتھیاروں کی درآمد پر مجبوراً انحصار ہوگیا اورنتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک کی شکستہ، ٹوٹی پھوٹی معیشت کا مزید جنازہ نکل گیا۔ ان ممالک میں جہاں قدرتی وسائل تھے مثلاً عرب ممالک میں تیل کی کثیر دولت تھی، حکمرانوں نے مغربی سامراج کی غلامی اور دبائو قبول کرکے ناہی تعلیم اور نا ہی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔ اسی طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے جس طرح ترقی پذیر ممالک کو قرض اور سودمیں جکڑا اس نے ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے تمام راستے بند یا محدود کردیئے۔ اگرچہ مسلم ممالک دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرتے ہیں اور تقریباً آدھی گیس ، تین چوتھائی ربر اور تین چوتھائی جوٹ پیدا کرتے ہیں پھر بھی 50 فیصد تجارتی حجم کے باوجود ان تمام اسلامی ممالک کی جی این پی چھوٹے سے یورپی ملک فرانس سے بھی کم ہے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی عکّاسی کرتے ہیں کہ اسلامی دنیا نے کبھی تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کو اہم نہیں سمجھا اور اسی وجہ سے اپنی خام اشیاکو تیار شدہ اشیا میںبدلنے میں ناکام رہے اور خام اشیا مغربی دنیا کو کوڑیوں کے دام فروخت کرتے رہے۔ تعلیم کی صحیح سرکاری سرپرستی کا فقدان ہمارے ملک میں اسی پسماندگی کی وجہ ہے۔ تعلیمی نظام ناقص اور سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال ناپید ہے۔ دعوے کرنے کے باوجود ہمارا اعلیٰ تعلیمی نظام فرسودہ ہے۔ ہم اگر مقابلہ کریں تو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں ہمارے ملک میں سائنسدانوں اور انجینئروں کی تعداد نا ہونے کے برابر ہے۔ سوائے افغانستان کے ہمارے سب پڑوسی ممالک ہم سے بہتر ہیں۔ یہ نااہلی ریسرچ آرٹیکل اور کتابوں کی شائع شدہ تعداد کی کمی سے بھی عیاں ہے۔ ہمارے مقابلہ میں ہندوستان اور اسرائیل بھی بہت آگے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سامراجی نظام نے ہماری ترقی کی راہیں بند کردیں مگر تقریباً ساٹھ ستر سال بعد ِ آزادی ہم تمام الزام مغربی سامراجی قوتوں پر نہیں ڈال سکتے۔ چین ہمارے بعد آزاد ہوا تھا اور آج ہم اس کے مقابلہ میں پسماندہ ملک نظر آتے ہیں۔ ہماری پہنچ آسانی سے مغربی ٹیکنالوجی تک تھی اور ہے اور چین کے اوپر مغرب نے ہر قسم کی پابندیاں لگا دی تھیں مگر اس باہمت قوم کو دیکھیں 60 سال میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم ڈینگیں مارتے ہیں اور ہمارے شہروں میں غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ذرا شہباز شریف کا حلقہ انتخاب جاکر دیکھ لیں، پورے ملک کے اسکول اوراسپتال دیکھ لیں شرم آتی ہے۔ مسلمان ممالک میں صرف ترکی اور ملیشیا نے بہترین کارکردگی دکھائی ہے وجہ صاف ظاہر ہے ان کے لیڈرایماندار، محنتی، دوراندیش اور تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فوائد سے پوری طرح واقف ہیں۔

ملک کی ترقی کے لئے نہ صرف تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی ضروری ہے بلکہ اس کے ساتھ قوم کا کردار و اخلاق سُدھارنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس ملک میں جھوٹ، رشوت ستانی، ملاوٹ، بے ایمانی سرکاری پالیسی بن چکی ہے قوم کو لیڈروں پر قطعی بھروسہ نہیں۔ بدقسمتی سے بعض مذہبی جماعتوں نے اسلام کے بجائے اسلام آباد کو اپنی منزل بنالیا ہے۔ میں نے کئی ملاقاتوں میں مرحوم عزیز دوست قاضی حسین احمد صاحب سے اس موضوع پر شکایت کی تھی کہ جماعت اسلامی نے قوم کے ساتھ بہت ظلم کیا کہ بجائے کردار و اخلاق کی اصلاح و بہتری کے اُنھوں نے سیاست کو اپنا لیا اور اس طرح قوم ملاوٹ، رشوت ستانی، جھوٹ، بدکرداری اور غیراخلاقی حرکات کا شکار ہوگئی اور اس نے ان بداعمالیوں کو بُرا نہیں سمجھا اور سب ایک جیسے ہوگئے ۔ میری تو اب بھی ان جماعتوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ سیاست سیاست دانوں پر چھوڑیں قوم کے کردار اور اخلاق کی اصلاح کریں۔ اگر قوم ٹھیک ہو گئی تو حکمرانوں کی مجال نہیں کہ کسی قسم کی بداعمالی کریں۔ میں شاید دن میں چاند کی روشنی کی خواہش کررہا ہوںلیکن خواہشات اور خواب ہی قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی میں ترقی اور مہارت کے لئے قوم کے کردار اور اخلاق کو سنوارنا بے حد ضروری ہے۔ ہم شرح تعلیم تو بڑھا سکتے ہیں مگر یہ گارنٹی نہیں ہے کہ اس سے ملک ترقی یافتہ ہوجائے۔ دنیا میں کئی ممالک میں شرح خواندگی بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی وہ پسماندہ ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ یہ بے حد ضروری ہے کہ اس کا معیار بھی اعلیٰ ہو۔ میں ایک مرتبہ چین میں ایک بڑے کارخانے میں گیا اس میں کئی درجن مشینیں کام کررہی تھیں۔ انچارچ نے حسب چینی عادت مجھ سے درخواست کی کہ کچھ تنقید کیجئے۔ میں ہال میں ان کو دو مشینوں کے پاس لے گیا جو جاپانی تھیں۔ بے حد اچھی فنش، اعلیٰ رنگ۔ میں نے کہا کہ آپ کی تمام مشینیں ٹھیک کام کررہی ہیں مگر ان مشینوں اور جاپانی مشینوں میں فرق دیکھئے یہ اسی طرح ہے کہ ایک بغیر میک اپ کے خاتوں اور ایک میک اپ کے ساتھ۔ میں نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بہت سے انجینئروں کو جاپان اور جرمنی بھیج دیں تاکہ وہاں دیکھیں کہ کوالٹی کو کس طرح اعلیٰ بنایا جاسکتا ہے۔ خدا جانے اس کا اثر ہوا یا نہیں مگر آج چین کی تیارکردہ مشینیں کسی بھی طرح جاپان اور جرمنی کی مشینوں سے کم نظر نہیں آتیں۔ ہندوستان نے اس میں کافی ترقی کی ہے اور اپنے سائنسدانوں اور انجینئروں کو اچھی سہولتیں دی ہیں۔ 1976 میں جب میں چین گیا تو انجینئر کی تنخواہ 50 یوآن یعنی 5 ڈالر تھی، گھر، بجلی، پانی، مفت اور غذا بھی بہت سستی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چند سال میں انجینئروں کی تنخواہ تین ہزار یوآن ہوگئی تھی۔ اب تو اندازاً دس ہزار ہوگی۔

فنڈز کی بہتات کے ہوتے ہوئے بھی کئی اسلامی ممالک ترقی کی راہ میں بہت پیچھے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں، اعلیٰ سڑکیں اور ہوٹل تو بن گئے ہیں مگر صحیح معنوں میں نہ ہی اعلیٰ یونیورسٹیاں اور نہ ہی اعلیٰ فنّی ادارے بنے ہیں۔ یہ لوگ صرف مغربی ممالک کو خوش کرنے کے لئے ہر سال اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدتے ہیں جو چند برسوں میں فرسودہ اور بیکار ہوجاتے ہیں۔

ہماری ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اعلیٰ سائنٹفک اور ٹیکنیکل ریسرچ میںہمارے لوگوں کی پہنچ بہت محدود ہے جہاں اُنھیں موقع ملا انھوں نے اپنی کارکردگی سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ چین کی طرح جب تک ہم اعلیٰ ریسرچ ادارے قائم نہ کرینگے اور اچھے اساتذہاور اچھے فنڈز مہیا نہ کرینگے ہم ڈینگیں اور بڑ مارنے والے پسماندہ ملک ہی رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں نے جب بھی دوربینی کا مظاہرہ کیا اور فنڈز مہیا کئے اور اہل لوگوں کو سربراہی دی تو انھوں نے معجزات دکھا دیئے۔ بدقسمتی سے اب نہ ہی حکمراں دوربین ہیں اور نہ ہی وہ فنڈز دیتے ہیں۔ ملک دن بدن پیچھے جاتا جارہا ہے۔ ایک برطانوی ؍امریکن ماہر ریاضی اور فلسفی پروفیسر الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ اہم پیشگوئی 100 سال پہلے کی تھی وہ آج بھی اسی طرح سچ ہے ۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’موجودہ دور کے جدید اور ترقی یافتہ طرز زندگی میں یہ قانون حرف آخر ہے کہ وہ قوم جو اپنے ذہین لوگوں کی قدر نہیں کرتی وہ ذلیل و خوار و تباہ ہوگی۔ اس قوم کی تمام بہادری، تمام سوشل دلکشی و جادوگری، تمام عقلمندی اور تمام بحری اور زمینی فتوحات تاریخ کو ایک قدم پیچھے ہٹا سکیں گی۔آج ہم اپنا اچھا طرز زندگی قائم کئے ہوئے ہیں لیکن کل سائنس ایک اور قدم آگے بڑھ جائے گی اور پھر آپ کی کوئی سنوائی نہیں ہوگی اس فیصلہ کیخلاف جو جاہلوں، کم عقلوں کے خلاف سنایا جائیگا‘‘۔ لیکن ہم مسلمانوں کیلئے حکم اِلٰہی بہت صاف اور غیرمبہم ہے۔سورۃ الرعد، آیت 13 میں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اللہ ربّ العزت کسی قوم کی حالت جس میں وہ ہے اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود (محنت، علم، عقل فہم سے) اپنی حالت کو نا بدلے۔ اور جب اللہ کسی قوم کو تباہ و ذلیل و خوار کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ پھِر نہیں سکتی اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے