دھرنے کے اس پار

پچھلے چند روز سے بوجہ دھرنا کام پر پہنچنا جوئے شیر لانا ہو گیا ہے، اور ایک خاتون ہونے کے ناطے مشکل میں اور بھی اضافہ محسوس ہو رہا ہے۔ کیونکہ سڑک پر زیادہ ترگاڑیاں مرد ہی چلاتے نظر آتے ہیں اور وہ اس روڈ بلاک سے اتنے ہی تنگ ہیں جتنے کہ میں تنگ ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ میں منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ جاتی ہوں

لیکن اکثریت ڈرائیور حضرات بلند آواز میں اپنی بھڑاس نکالنا پسند کرتے ہیں۔ گالیوں کی کافی نئی اقسام ان گنہگار کانوں نے ان دنوں میں سنی ہیں۔ اور اگر دشنام طرازی کا ہنر مادری زبان میں آزمایا جا رہا ہو تو اس کا نقطہ کمال پر پہنچنا لازم ہے۔ اور اس نغمے کو بکھرنے والے بالکل نہیں دیکھتے کہ ارد گرد بچے، عورتیں یا بزرگ بھی موجود ہیں۔ یہاں تک کہ ٹریفک جام کی صورت میں ارد گرد کھڑی گاڑیوں تک یہ آوازیں پہنچ جاتی ہیں۔

اس پے طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ اکثرذیلی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، جن پر بارش نے مزید کیچڑ اور سرخ مٹی کی دلدل بنا دی، اب چمکتی کار جب اس کھڈے میں اچھل کر آدھی آدھی ڈوب جائے تو منہ سے مغلظات کا ایک طوفان جاری ہو ہی جاتا ہے۔

میں اپنی ننھی منی سی گاڑی کو اسی طرح کے ایک ٹوٹے ہوئے پل کی کیچڑ میں سے گذارنےکا سوچ ہی رہی تھی کہ ایک طنز میں ڈوبی ، غصے سے بھری آواز آئی ‘ ایک تاں پہلے روڈ بلاک نے، اوتوں توساں ہی کروں نکل آئے او، کے لوڑ پئی سی اے”

یعنی پنڈی کے مخصوص زبان اور لہجے میں ایک سوزوکی والے صاحب فرما رہے تھے کی ایک تو پہلے ہی روڈ بلاک ہیں اوپر سے آپ بھی گھر سے نکل آئی ہیں، کیا ضرورت تھی گھر سے نکلنے کی۔

اب کوئی بتائے نا تو میں نے روڈ بلاک کیا ہے، نا میں تفریح کی غرض سے باہر گھومنے نکلی ہوں، صبح کے ساڑے چھ بجے اس سرد موسم اور بارش میں کوئی بندہ صرف کام کے لئے ہی اس ٹوٹی سڑک پرنکل سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک عمومی رویہ ہے، کسی کا غصہ کسی پر اتار دیا جائے اور پھر عورت چاہے کوئی بھی ہو، اس کو ڈانٹنے کا تو لطف ہی اور ہوتا ہے۔

اور بھی کئی ایک اتقاقات ہوئے ان دنوں، جیسے نئے نئے راستے دریافت ہوئے، ٹریفک کے اصولوں کے بالکل الٹ گاڑی چلانا پڑی، درجنوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو سڑک پر لفٹ مانگتے دیکھا۔ کیچڑ میں پھنسے ٹرک، ٹریکٹرٹرالیاں، سکوٹر دیکھے۔

سکول کی بچیوں کو ہجوم میں سے خود کو بچا بچا کر پیدل چلتے دیکھا، ان کے سہمے ہوئے چہرے اور بستوں کو مضبوطی سے لپیٹنے کا انداز بتا رہا تھا کی یہ سفر کتنا کٹھن ہے۔

میلوں پیدل چل کر ڈیوٹی پر آنے والی ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی جس نے بتایا کہ اس کے بھائی نے کہا ہے جاب چھوڑ دو، میں روز لا لے جا نہیں سکتا۔ کیونکہ جس پک ڈراپ والی وین میں وہ عام دنوں میں آتی ہے اس نے انہوں نے صاف انکارکردیا ہے۔

ہمارے ادارے کی ایک ریسرچر سے پوچھا کہ موڈ خراب کیوں ہے تو تڑخ کے جواب آیا دس منٹ کا راستہ دو گھنٹے کا ہو گیا ہے، صبح کچن کے سو کام ہوتے ہیں سب ادھورے چھوڑ آئی ہوں، میاں کا موڈ الگ خراب ہے۔ بچوں کا لنچ بھی نہیں دے سکی۔ کیونکہ دفتر پہنچنا تھا۔

میری پارلر والی باجی پریشان میں بچے ایک ہفتے سے اسکول نہیں جا ہے، راستے بند ہیں، اگے امتحان انے والے ہیں۔
ہمسائے میں ایک ایک ماں بیٹے کی لڑائی چل رہی ےھی، بیٹا کہتا ہے اس مہینے ٹیکسی کا کریا اتنا دینا پڑا ہے کہ گھر کا خرچہ نہیں دے سکتا۔ بیوی الگ بےزار ہے۔

معلوم نہیں ایسی اور کتنی کہانیاں چل رہی ہوں گی، جن کے اثرات دور رس ہونگے۔ یہ سب کچھ دھرنے کے اس طرف ہو رہا ہے جس سے دھرنے والوں یا حکومت پر کیا فرق پڑتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے