مقبوضہ جامعہ پنجاب

وزیرستان کو دہشت گردوں سے آزاد کرا لیا گیا اور کراچی کو الطاف حسین سے ، کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ مقبوضہ جامعہ پنجاب کو بھی واگزار کرا لیا جائے؟ ایک تعلیمی ادارہ کب تک ایک ایسی طلبہ تنظیم کے ناتراشیدہ رویوں کے آزار کا نشانہ بنتا رہے گاجس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ قبلہ ناظم محترم گھر سے باہر نکلیں تو علاقہ غیر شروع ہو جاتا ہے اور جن کے سرپرست اسی لاہور میں انتخابات میں حصہ لیں تو خلق خدا ان پر یوں اعتماد کا اظہار کرتی ہے کہ ’صرف‘ 220 پولنگ سٹیشن پر مشتمل حلقے میں انہیں ’پورے‘592ووٹ ملتے ہیں۔

غالبا یہ حافظ ادریس تھے ، ایک استاد کو انہوں نے تھپڑ مارا تو سید مودودی ؒ نے دلگرفتہ ہو کر کہا : انہوں نے میری عمر بھر کی محنت ضائع کر دی۔عمران خان پر تشدد ہوا تو ایسے ہی دکھ کا اظہار جناب قاضی حسین احمد نے کیا اور ایک نجیب آدمی کی طرح عمران خان سے معذرت چاہی ۔اب شعبہ کشمیریات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اصغر اقبال پر تشدد کیا گیا ہے ، معاملہ دبا نہ دیا گیا اور سماج نے زندہ ہونے کا ثبوت دیا تو امید ہے اب کی بار جناب سراج الحق اظہار معذرت کرتے پائے جائیں۔اظہارِندامت کا یہ سلسلہ جاری رہے گالیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ اس سے ’قافلہ حق ‘ کی استقامت میں کوئی فرق پڑ جائے ۔عمران خان پر تشدد ہوا تو سوال اٹھا کیا جامعہ پنجاب میں جانے کے لیے منصورہ سے ویزہ حاصل کرنا ضروری ہے اور پروفیسر اصغر اقبال پر تشدد ہوا ہے تو سوال اٹھا ہے کیا جامعہ پنجاب کی تقدیر میں لکھا ہے کہ یہ ہمیشہ مقبوضہ ہی رہے گی؟

پروفیسر ڈاکٹر اصغر اقبال پر تشدد ایسا واقعہ نہیں کہ ’ قافلہ حق‘ اس کا انکار کر دے اور اہل وطن بغلیں بجا بجا کر اظہار مسرت کریں۔وائس چانسلر کو اس واقعے پر ایک درخواست دی گئی۔ اس درخواست پر اورینٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر فخر الحق نوری ،علوم شرقیہ فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر محمد سلیم مظہر ، شعبہ پنجابی کی چیئر پرسن ڈاکٹر نبیلہ رحمان ، ڈاکٹر شعیب احمد سمیت اٹھارہ اساتذہ کرام کے دستخط موجود ہیں۔ایک کے سوا تمام حضرات ڈاکٹر ہیں۔اس سے معتبر گواہی اور کیا ہو سکتی ہے۔آئیے دیکھیے اس میں کیا لکھا ہے:

’’میں شعبہ کشمیریات اورینٹل کالج میں اپنے دفتر میں موجود تھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ دس سے پندرہ طالب علم ہاتھوں میں ڈنڈے اور اسلحہ لیے میرے کمرے میں داخل ہوئے ، جن میں پنجاب یونیورسٹی اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اسامہ اعجاز ، علاقہ ناظم انیب افضل، اور ہاسٹل نمبر 15 کا ناظم محمد عرفان بھی شامل تھے۔دیگر افراد کو بھی دیکھنے پر شناخت کیا جا سکتا ہے، ان میں سے کچھ افراد میرے کمرے میں داخل ہوئے جب کہ دیگر افراد میرے کمرے کے باہر راہداری میں کھڑے رہے ۔انہوں نے مجھ پر جسمانی حملہ کیا ، دست و گریباں ہوئے ، جسمانی تشدد کیا، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور کہا کہ تمہاری لاش کو کشمیر بھیجا جائے گا۔مزید یہ کہ ہم تمہارے اہل خانہ اور بچوں کے سکول کے معمولات کو بھی بخوبی جانتے ہیں۔وہ بھی ہمارے ہاتھوں سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔مزید کہا کہ تمہیں پنجاب یونیورسٹی میں ہمارے احکامات کے مطابق کام کرنا پڑے گا ورنہ نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو گے ۔میرے گریبان کے بٹن ٹوٹ گئے اور انگوٹھا بھی زخمی ہوا۔ جناب عالی ! میں قبل ازیں بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو آگاہ کر چکا ہوں کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ افراد مجھے جان سےمارنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں اور تین مرتبہ میرے گھر پر بھی حملہ آور ہو چکے ہیں۔یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بابت تحریری اطلاع دی جا چکی ہے۔میری گذارش ہے کہ مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے دہشت گردوں اور شر پسندوں سے تحفظ فراہم کیا جائے‘‘

اس شکایت کو ایک بار پھر پڑھ لیجیے ۔حملہ کیا، دست و گریباں ہوئے ، تشدد کیا، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں ، اہل خانہ اور بچوں کے معمولات بتا کر دھمکی دی، تین بار پہلے گھر پر حملہ آور ہو چکے اور پھر آخری سطر پر رک جائیے ۔غور سے پڑھیے کہ یہ جامعہ پنجاب کے سترہ پروفیسر ڈاکٹرز ہیں جوگواہی دے رہے ہیں: ’’ جمعیت کے دہشت گردوں اور شر پسندوں سے ۔۔۔۔‘‘ ۔اولاد کے بارے میں باپ اور طالب علم کے بارے میں استاد سے زیادہ معتبر گواہی کس کی ہو سکتی ہے؟ احساس زیاں کی کوئی رمق موجود ہے اور جمعیت اپنے اخلاقی وجود سے یکسر بے نیاز نہیں ہو چکی تو اسے مرکزی شوری کا ایک ہنگامی اجلاس بلا کر غور کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ رائے کیوں بن رہی ہے؟اسے غور کرنا چاہیے جامعہ پنجاب میں پاور پالیٹیکس نے جمعیت کو ، جماعت کو، جامعہ کو اور پاکستان کوکیا دیا؟

ابھی کل ہی امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد صاحب کا ایک محبت نامہ موصول ہوا جس میں گذشتہ کالموں پر شکوہ کرتے ہوئے انہوں نے صرف ایک نکتے کی وضاحت فرمائی ہے کہ جماعت کے اکثر و بیشتر ذمہ داران رضاکارانہ بنیادوں پر کام کر رہے ہیں ۔ ساتھ ہی کہا کہ جماعت میں شورائیت کا نظام موجود ہے جہاں فیصلوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔میری ان سے درخواست ہے کہ اگر واقعی جائزہ لیتے رہنے کی رسم کسی حد تک موجود ہے تو اس سوال کا بھی جائزہ لیجیے کہ اسلامی جمعیت طلباء نے جماعت اسلامی کو کیا دیا؟عشروں سے جامعہ پنجاب میں جمعیت کا راج ہے اور ہزاروں لڑکے یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر صرف لاہور میں عملی زندگی گزار رہے ہوں گے۔ایسے میں اگر آپ کو لاہور کے ضمنی انتخاب میں 220 پولنگ سٹیشن میں سے صرف592 ووٹ ملتے ہیں تو اس میں کچھ حصہ تو اسلامی جمعیت طلبہ کی ان ’’ خدمات صالح‘‘ کا بھی ہو گا جو وہ برسوں سے تعلیمی اداروں میں انجام دیتی چلی آ رہی ہے۔

یونیورسٹی میں پاور پالیٹیکس کے تقاضے تو ایک جتھہ بنا کر پورے کرلیے جا تے ہیں لیکن کتنے طلباء اس سے متنفر ہو کر تلخ یادیں لے کر نکلتے ہیں کیا کسی کو اس کا احساس ہے؟ یہ بات عمومی مشاہدے کی ہے کہ ہزار طلباء میں سے جمعیت کی تعداد شاید ایک سو ہوتی ہو اور ان میں سے شاید صرف دس ایسے ہوں جونظریاتی ہوں۔اکثریت ان کے شر سے بچنے کے لیے خاموش رہتی ہے اور جو ان کے ساتھ ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔چنانچہ یونیورسٹی میں یہ اسلامی نظام کے داروغے بن کر دادا گیری کرتے ہیں اور عملی زندگی میں آتے ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں۔کوئی ن لیگ میں چلا جاتا ہے تو کوئی کسی این جی او میں ۔جنہیں زمانہ طالبعلمی میں لڑکی کے نام سے ہی فحاشی ٹپکتی نظر آتی ہے وہ عملی زندگی میں خواتین کولیگ کے ساتھ بتیسی نکالتے ہوئے اپنی تصاویر فیس بک کر لگاکر گویا اعلان فرما رہے ہوتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کا سورج بس طلوع ہونے ہی والا ہے۔دوسری طرف ایک غالب اکثریت ان سے متنفر ہو کر نکلتی ہے اور اس نفرت کا عذاب ساری عمر جماعت اسلامی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سب کچھ دیوار پہ لکھا نظر آ رہا ہے لیکن کون توجہ کرے؟ جماعت اسلامی لاہوری گروپ کو جامعہ پنجاب سے اپنی سیاست کے لیے جو مفت میں ایندھن دستیاب ہے اس سے وہ کیسے دست بردار ہو جائے؟

صالحین کو شاید اندازہ نہیں کہ وقت کا موسم بدل رہا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے کسی کا راجواڑہ یا کسی کی سلطنت نہیں ، یہ ریاستی ادارے ہیں۔آج ہو یا کل ، یہ بات تو طے ہے کہ وزیرستان اور کراچی کے بعد اب جامعہ پنجاب کو بھی آزاد ہونا ہے۔اسلام کے نام پر اجارہ داری کا یہ کھیل بند ہونا ہے۔اجارہ دار خود ہی اس سے دست بردار ہو جائیں تو اچھا ہے ورنہ معاشرے کا اجتماعی شعور انہیں پسپا کر کے چھوڑے گا۔

سیاسی جماعتوں نے طلباء تنظیموں کے نام پر جو بیگار کیمپ بنا رکھے ہیں ان کا کوئی مستقبل نہیں۔اس واردات کو خود صالحین رد کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے آخری دانشور خرم مراد مرحوم کے صاحبزادے کے تعلیمی ادارے میں جمعیت کو کام کرنے کی اجازت نہیں۔جمعیت اور جماعت کے احباب نے جب اپنے ادارے بنائے تو طلباء تنظیموں کو ان میں کام کرنے سے باقاعدہ حکم جاری کر کے منع کر دیا۔

تو کیا اسلام کے نام پر یہ کھیل صرف ان تعلیمی اداروں میں کھیلا جا رہا ہے جہاں عام آدمی کے بچے زیر تعلیم ہیں۔اسلامی انقلاب بھی کتنا سمجھدار ہے؟ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتا ہے۔

بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے